جنگ کے اصلی محاذ
وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ پٹھان کوٹ کے ایئر بیس پر دہشت گردوں کا حملہ۔ وہ جو دو پڑوسیوں میں محبت کی فضا بنی تھی۔
وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ پٹھان کوٹ کے ایئر بیس پر دہشت گردوں کا حملہ۔ وہ جو دو پڑوسیوں میں محبت کی فضا بنی تھی۔ دشمنوں سے برداشت نہ ہوئی، آگے بڑھتے پیار کے قدم رک گئے، حملہ زور دار تھا، مگر اتنا ہی زور ہندوستان کے امن پسند شہریوں نے لگایا کہ اس حملے کے باوجود پاکستان سے بات چیت جاری رہنا چاہیے۔ ادھر پاکستان میں بھی پٹھان کوٹ حملے پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا ہے۔ پچھلے کالم میں لکھتے ہوئے میں نے دنیا کے درجہ اول کے ممالک میں ہونے والی دہشت گردی کا ذکر کیا تھا۔ ابھی 7 جنوری 2016 کے دن، فرانس کے سب سے بڑے شہر پیرس کے ایک پولیس اسٹیشن میں خودکش بمبار نے داخل ہونے کی کوشش کی، جو ناکام ہوگئی اور پیرس بڑی دہشت گردی سے بچ گیا۔ جب اتنے بڑے بڑے ملک محفوظ نہیں ہیں تو ہندوستان پاکستان کس گنتی میں آتے ہیں۔
یوں بھی ہندوستان، پاکستان جس خطے میں واقع ہیں وہاں کے جغرافیائی سیاسی حالات انتہا درجہ خراب ہوچکے ہیں۔ اب تک ہندوستان پاکستان اور افغانستان ہی دہشت گردی میں الجھے ہوئے ہیں کہ اب پڑوسی ملک ایران اور سعودی عرب آمنے سامنے آگئے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تمام تعلقات منقطع ہوگئے ہیں۔ سفارت خانے جل چکے ہیں۔ اب تک 34 ملکوں نے سعودی عرب کی حمایت میں ایران سے سفارتی تعلقات توڑ لیے ہیں۔ ابھی سعودی وزیر خارجہ پاکستان آئے تھے۔ پاکستان نے نازک ترین حالات میں درست فیصلہ کیا ہے۔ ایران اور سعودی عرب دونوں ہی پاکستان کے لیے اہم ہیں۔
میں بڑے آسان لہجے میں کہوں گا کہ ایران اپنے مسلک کے حوالے سے پوری امت مسلمہ کے لیے بہت اہم ہے اور ہمیشہ اہم رہے گا۔ مگر پاکستان کے لیے سب سے پہلے پاکستان ہے، 22 کروڑ انسان ہیں جو 69 سال سے قرضوں کے بوجھ اٹھائے مر رہے ہیں اور جی رہے ہیں اور پھر دنیا کے ''سازشی'' مختلف شوشے چھوڑتے رہتے ہیں اور ہم پاکستانی آپس میں ہی لڑ رہے ہیں، ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔ اس آپس کی مار دھاڑ کو کئی سال ہوچکے ہیں، جو آج بھی جاری ہے، کبھی زبان کی بنیاد، کبھی نسل، کبھی عقیدہ، کبھی مذہب، دشمن اسلحہ اور پیسہ دونوں دیتا ہے۔ اور ہم اپنے ہی سینوں میں گولیاں اتارے جا رہے ہیں۔ عرصہ ہوا ہم خوف کے سایوں میں جی رہے ہیں، مر رہے ہیں۔ ویسے مرنے کے غریبوں کے پاس اور بھی بہانے ہیں، گندا پانی پی کر، بغیر علاج دوا دارو، بے روزگاری کے ہاتھوں، خودکشیاں، یہ سب بھی اور یہ بھی کہ جاگیردار اپنے پالتو شکاری خونخوار کتوں کو غریبوں پر چھوڑ دیتے ہیں اور وہ بے بس انسانوں کو چیر پھاڑ ڈالتے ہیں۔
یہ نہیں تو زمیندار غریب ہاری کے گلے میں رسہ ڈال کر اسے گھسیٹ گھسیٹ کر مار ڈالتا ہے (یہ خبر 7 جنوری 2016 کی ہے اور شہر شیخوپورہ ہے) شیخو پورہ (پنجاب) ہی کے ایک زمیندار نے اپنے ہاری کے دونوں ہاتھ کاٹ ڈالے، اب ''رحم دل'' وزیراعلیٰ اس غریب کے مصنوعی ہاتھ لگوانے کے لیے باہر بھیج رہے ہیں، کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس زمیندار کے بھی دونوں ہاتھ کٹوا کر وزیراعلیٰ پنجاب دونوں کو مصنوعی ہاتھ کے لیے باہر بھیج دیتے۔ اس سے پہلے گجرات (پنجاب) کا ایک زمیندار بھی بارہ سالہ بچے کے دونوں ہاتھ چارہ کاٹنے کی مشین کے ذریعے کاٹ چکا ہے۔ ظلم و بربریت کے اندھیرے پورے ملک پر مستقل چھائے ہوئے ہیں۔ کوئی صوبہ، کوئی شہر محفوظ نہیں ہے، شہروں میں اربوں پتیوں کی اولاد، کروڑوں کی گاڑیوں میں اسلحہ بردار محافظوں کے ساتھ گھومتے ہیں، جنھیں دیکھ کر شہری سہم کر ایک طرف ہوجاتے ہیں۔ عدالتیں بے بس، قانون بے بس، تو پھر بس یہیں یقیناً اسی صورتحال پر حبیب جالب نے لکھا تھا:
اس درد کی دنیا سے گزر کیوں نہیں جاتے
شکوے ترے اے دیدۂ تر کیوں نہیں جاتے
یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے
دھرتی پہ جو ہیں بوجھ اتر کیوں نہیں جاتے
گھر دیکھ لیا اپنا زمانے کے دکھوں نے
یہ دکھ کسی بے درد کے گھر کیوں نہیں جاتے
فلم میں بھی موقع ملتا تھا تو جالب کام دکھا جاتے تھے، فلم ''زخمی'' کے لیے مہدی حسن نے اے حمید کی موسیقی میں یہ گیت گایا تھا۔ میں کیا کروں! بقول ساحر لدھیانوی ''میں چاہوں بھی تو خواب آور ترانے گا نہیں سکتا۔'' قائداعظم نے دم مرگ کہا تھا ''میری جیب میں چند کھوٹے سکے ہیں'' آج قائد کی جیب کے چند کھوٹے سکے بہت زیادہ انڈے بچے دے کر ہزاروں ہوچکے ہیں اور اے قائد! تیری باتوں کے خلاف کروڑوں کو بھوکوں ترسا رہے ہیں۔
تو اے ہندوستان والو! ''چاہے کوئی رہے سنگ نا/ بولو بولو کہ ہو جنگ نا'' تمہارے ہاں بھی حالات نہیں سدھرے، تمہارے ہاں آج بھی انسان فٹ پاتھ پر جنم لیتا ہے، رُل کھل کر بڑا ہوتا ہے اور فٹ پاتھ پر ہی مر جاتا ہے۔ غربت تمہارے ہاں بھی جھونپڑ پٹیوں کی صورت موجود ہے جہاں گند میں انسان پلتے ہیں، تمہارے ہاں بھی دلتوں کو انسان نہیں سمجھا جاتا۔ معاف کرنا بات تلخ ہونے جا رہی ہے، مگر کہے بنا چارہ نہیں۔ گاؤ ماتا کے گوشت کے شبے میں انسان مار دیے جاتے ہیں، بستیاں جلا دی جاتی ہیں۔ ادھر ہم پاکستانی بھی کم نہیں ہیں۔ ہم بھی محض شبے میں انسانوں کو آگ کے بھٹے میں پھینک دیتے ہیں۔پاکستان اور ہندوستان میں جنگ کے اصل محاذ بہت ہیں۔ جنگ کرو غربت کے خلاف، جنگ کرو ظلم کے خلاف، جنگ کرو جہالت کے خلاف، جنگ کرو لٹیروں کے خلاف، کرپشن کے خلاف۔
دھرتی بہت لہو رنگ ہوچکی یہ دھرتی جسے برصغیر کہا جاتا ہے۔ ہم ہندوستان پاکستان اس کے امین ہیں۔ یہ زمین کھسک کر کہیں نہیں جائے گی۔ یہیں اپنی جگہ رہے گی۔ ایک مسئلہ کشمیر ہے اسے میز کے گرد بیٹھ کر حل کرنے کا وقت آچکا ہے۔ قبرستان بہت بن گئے، نعرے نہیں رکے۔ احتجاج نہیں رکا۔ ان کا خاتمہ کرو۔ انھیں روکو۔ انھیں روکو۔