سامراجی معاشی و اشرافیائی جمہوری غلامی پانچواں حصہ

اس طرح یورپی ممالک نے امریکا کے مقابلے میں کرنسی وار میں برتری حاصل کرلی،


خالد گورایا January 09, 2016
[email protected]

1999 کے بعد یورپی ملکوں نے اپنے لیے مشترکہ کرنسی یورو بنالی، اس سے قبل 1971 میں چند بڑے یورپی ملکوں نے اپنی اپنی کرنسیوں کی بنیاد پر SDR بنالیا تھا اور اس کی قیمت ڈالر سے جوڑ کر ''ڈالرکو مردہ حالت'' میں بحال کرلیا تھا۔ کتاب IFS 1984 by IMF کے صفحے 59 کے مطابق 1971 میں 1.08571 ڈالر کا ایک SDR تھا، اور دسمبر 2014 میں 1.4488 ڈالر کا ایک SDR تھا۔ اس طرح SDR کی قیمت میں 43 سال میں 33.36 فیصد اضافہ ہوا تھا۔

یورپی ملکوں نے خالصتاً یورپی ممالک کے لیے (کتاب IFS by IMF 2008 Page 665) یورو کرنسی 1999 میں ڈالرکے مقابلے میں اختیار کرلی تھی۔ 1999 میں 1.0668 ڈالر ایک یورو EURO کے برابر تھا۔ کتاب Oct 2015 by IMF کے صفحے 814 کے مطابق 2014 میں 1.2492 ڈالر کا ایک یورو تھا۔ اس طرح 15 سال میں یوروکی قیمت میں ڈالرکے مقابلے میں 17 فیصد اضافہ ہوا۔

اس طرح یورپی ممالک نے امریکا کے مقابلے میں کرنسی وار میں برتری حاصل کرلی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یورپی کسی ملک کوآئی ایم ایف، ورلڈ بینک اورعالمی ادارہ اقوام متحدہ کی طرح کا کوئی پلیٹ فارم بنانے کی ضرورت نہیں رہی۔ کیونکہ یو این او کی چھت تلے یورپی سامراج اور امریکی سامراج کے مفادات ایک ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

نیٹوکا دفاعی پلیٹ فارم جس کو یہ چند سامراجی ممالک اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کے لیے جنگی مقاصد کو جائز قرار دے کر استعمال کر رہے ہیں، لیکن معاشی غلام ملکوں کا المیہ یہ ہے کہ ان ملکوں پر قابض اشرافیائی حکمران امریکی مبلغ کی جمہوریت کی تسبیح پڑھ پڑھ کر جمہوریت کی تبلیغ کرکے اپنے اپنے ملکوں کے عوام کو اپنا براہ راست جمہوری غلام بنا لیتے ہیں اور Indirectly سامراج کا جمہوری اور معاشی غلام بنا دیتے ہیں۔ کیونکہ اشرافیہ جب سے پاکستان بنا ہے 1947 اگست سے جو بے ثمر معاشی اور اشرافیائی آئینی پالیسیاں بناتی آرہی ہے، اس کے نتیجے میں عوام کو خوشحالی کی مسلسل نفی ہوتی آرہی ہے۔

یہ المیہ صرف پاکستان کا نہیں ہے تمام افریقی ممالک، ایشیائی ممالک، Western Hemisphereکے 31 ممالک براہ راست چند عالمی سامراجی ملکوں کے معاشی غلام ہیں۔ امریکا ان ممالک کا لیڈر ہے جیسے عالمی سامراجی مالیاتی پلیٹ فارم سے جی سیون گروپ کے ممالک نے 128 معاشی غلام ملکوں کو قرضے دے رکھے ہیں۔

کتاب International Debt Statistics 2015 by World Bank Group کے صفحے 15 کے مطابق جی سیون گروپ نے 2013 تک معاشی غلام ملکوں کو (1) امریکا نے 16 کھرب 48 ارب 80 کروڑ ڈالر، برطانیہ نے 9 کھرب 36 ارب 50 کروڑ ڈالر، جاپان نے 2 کھرب 30 ارب 30 کروڑ ڈالر، اٹلی نے 2 کھرب 62 ارب 90 کروڑ ڈالر، جرمنی نے 5 کھرب 50 ارب 30 کروڑ ڈالر، فرانس نے 5 کھرب 54 ارب 90 کروڑ ڈالر، کینیڈا نے 1 کھرب 39 ارب ڈالر دیے ہوئے ہیں۔ ان سب کا ٹوٹل 43 کھرب 72 ارب 70 کروڑ ڈالر بنتا ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک دیگر عالمی مالیاتی اداروں نے Long Term کل قرضے 2013 میں 11 کھرب 33 ارب 70 کروڑ ڈالر دیے تھے۔

اس طرح اس کتاب کے صفحے 21 پر 2013 میں معاشی غلام ملکوں کے ذمے 55 کھرب 6 ارب40 کروڑ بنتا ہے۔ اسی صفحے پر سامراجی ملکوں نے معاشی غلام ملکوں میں سرمایہ کاری کی مد میں 2013 میں 4 کھرب 19 ارب 90 کروڑ ڈالر کا نفع حاصل کیا تھا اور 2013 میں تمام سامراجی ملکوں نے 6 کھرب 42 ارب 80کروڑ ڈالر کی معاشی غلام ملکوں میں سرمایہ کاری کی تھی۔

ایک طرف سامراجی قرضوں، دوسری طرف سامراجی Direct Foreign Investment اور تیسری طرف سامراجی ممالک معاشی غلام ملکوں کے مالیاتی سسٹم کرنسیوں کی قیمتوں میں کمی CDMED سڈ مڈ لگا کر ان ملکوں کی معیشت، صنعتی کلچر اور پیداواری شعبوں کو سامراجی تجارت سے خساروں میں مسلسل دھکیل رہا ہے اور خساروں سے نکلنے کے لیے ان ملکوں کو قرضے دیے جا رہے ہیں۔ اور پیداواری لاگتوں کے مسلسل بڑھنے سے ان ملکوں کے کارخانے فیکٹریاں بند ہوتے جا رہے ہیں۔

23 دسمبر 2015 کو کراچی ایکسپریس میں خبر شایع ہوئی تھی جس میں آل پاکستان ملز ایسوسی ایشن (پٹما) کے چیئرمین طارق سعود نے کہا کہ ملک کے دیگر حصوں کی طرح صوبہ سندھ میں بڑھتی لاگتوں، بڑھتے بجلی و گیس کے بلوں سے پنجاب میں 100 ٹیکسٹائل ملز پہلے ہی بند ہو چکی ہیں۔ چند ماہ میں سندھ میں 11 ٹیکسٹائل ملز بند ہوگئی ہیں۔ حکومت نے اس کے بعد صنعتی کلچر میں استعمال ہونے والی پاور ٹیرف میں 3 روپے یونٹ کی کمی کا اعلان کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی معیشت سامراجی امریکا کی زد میں جولائی 1955 سے آج تک ہے۔

حقائق سے چشم پوشی ملکی صنعتکاروں، حکمرانوں نے کرکے ملک کی سالمیت کو خطرے میں اور عوام کو غربت کے کنوئیں میں دھکیل دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاں اشرافیائی حکمران اپنی عیاشیوں کے لیے عوام پر ٹیکس لگاتے ہیں اس کے ساتھ ہی ڈالر کے مقابلے میں ملکی کرنسی روپے کی قیمت میں مسلسل کمی کرتے جا رہے ہیں جس کے نتیجے میں پیداواری لاگتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ لاگتوں کے مسلسل بڑھتے رہنے سے ملکی پیداواری کلچر تباہ ہوچکا ہے۔

اور سامراج ایک طرف ملٹی نیشنل کمپنیوں کی شکل میں معاشی غلام ملکوں کے عوام کی قوت خرید کو لوٹ کر لے جا رہے ہیں دوسری طرف لاگتوں کے بڑھنے سے ملکی ایشیا مہنگی ہونے پر درآمدات امپورٹ میں اضافے مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔ تیسری طرف حکمران عوام کے نام پر قرض اپنی عیاشیوں پر خرچ کر رہے ہیں۔چوتھی طرف ملکی اور بیرونی ملکوں سے حاصل قرضوں کا بوجھ عوام پر ڈال رہے ہیں۔ کتاب International Financial Statistic Oct 2015 کے صفحے 62-59 پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ترقی یافتہ 35 ممالک جن میں امریکا شامل نہیں ان ملکوں کی امپورٹ 2014 میں 9071200.0 ملین ڈالر اور ایکسپورٹ 9210000.0 ملین ڈالر تھی۔

35 ملکوں کی ایکسپورٹ 138800.0 ملین ڈالر سرپلس تھی اور 14 مڈ ایسٹ ممالک کی ایکسپورٹ 1365500.0 ملین ڈالر تھی۔ امپورٹ 941900.0 ملین ڈالر تھی۔ ان کی تجارت سرپلس 4 کھرب 23 ارب 60 کروڑ ڈالر (423600.0ملین ڈالر) تھی۔ Sub Saharan Africa کے 34 ممالک کی ایکسپورٹ 389600.0 ملین ڈالر، امپورٹ 323600.0 ملین ڈالر تھی۔ ان کی سرپلس ایکسپورٹ 66000.0 ملین ڈالر تھی۔ مڈل ایسٹ ممالک اور یورپی ترقی یافتہ ممالک کی کرنسیوں کی قیمت ڈالر کے مقابلے بحرین کا دینار 1.276 کا ایک ڈالر، سعودی ریال 3.750 کا ایک ڈالر (پچھلے 70 سال سے) کا تھا۔

جو سامراجی حمایت یافتہ ممالک ہیں ان کی کرنسیوں کی قیمتیں ڈالر کے مقابلے زیادہ ہیں ، جیسے یورپی ممالک کا ایک یورو کی 2014 میں 1.2331 ڈالر تھی۔ اور معاشی غلام انڈیا کے روپے کی قیمت 2014 میں 63.332 روپے کا ایک ڈالر تھا۔ معاشی غلام انڈیا کی تجارت اسی کتاب کے صفحے 59-62 کے مطابق 141700.0 ملین ڈالر سے خسارے میں تھی۔ معاشی غلام پاکستان کی تجارت 21100.0 ملین سے خسارے میں تھی۔ یاد رہے کہ چین میں 36 ہزار ملٹی نیشنل کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔

اسی کتاب کے مطابق چین نے تجارت میں 2013 میں 260900.0 ملین ڈالر کی سرپلس تجارت کی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کتاب International Debt Statistics 2015 by World Bank Group کے صفحے 52 پر ملٹی نیشنل کمپنیوں نے چین میں سرمایہ کاری پر حاصل شدہ نفع 206381.0 ملین ڈالر اپنے ملکوں کو بھیجا تھا۔ اس طرح چین نے صرف تجارت میں 54519.0 ملین ڈالر کا نفع حاصل کیا تھا۔ انڈیا کی تجارت 2013 میں 151000.0 ملین ڈالر سے خسارے میں تھی اور کتاب 2015-IDS کے صفحے 80 کے مطابق انڈیا سے بیرونی کمپنیوں نے 12555.0 ملین ڈالر نفع اپنے اپنے ملکوں کو بھیجا تھا۔

اس لیے یہ تجارتی خسارہ حقیقتاً 163555.0 ملین ڈالر تھا۔ اس طرح پاکستان، چین و دیگر معاشی غلام ملکوں سے سرمایہ بیرونی ملکوں کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ کتنے دکھ اور افسوس کا مقام ہے اور کس بے شرمی سے معاشی غلام ملکوں کے اشرافیائی حکمران ایک طرف اپنے سامراجی خداؤں کے حکم پر اداروں کی نجکاری کر رہے ہیں تاکہ ملکی سطح پر منصوبہ بند معیشت کو کاٹ کاٹ کر تباہ کریں۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں