کہیں دیر نہ ہوجائے

بحیثیت پاکستانی اول تو ہمیں خوشیاں کم کم ہی ملتی ہیں اورجومل بھی جائیں تو جانے کس کس کی نظر بد ان خوشیوں کو لگ جاتی ہے


نجمہ عالم January 08, 2016
[email protected]

بحیثیت پاکستانی اول تو ہمیں خوشیاں کم کم ہی ملتی ہیں اور جو مل بھی جائیں تو جانے کس کس کی نظر بد ان خوشیوں کو لگ جاتی ہے۔ ابھی پوری قوم پڑوسی وزیر اعظم کی اپنائیت سے بھرپور بلاتکلف (بلا سفارتی اعلان) آمد کی خوشی سے سرشار ہی تھی کہ بس لگ گئی کسی کی نظر کہ پٹھان کوٹ ایئر بیس حملے کا واقعہ رونما ہوگیا اور اب اللہ اللہ کرکے بہتری کی طرف آتے دونوں ممالک کے تعلقات پھر شاید سردخانے کی نذر ہونے جا رہے ہیں ہرکوئی اپنے اپنے انداز سے اس حملے کی توضیح پیش کر رہا ہے کہ دہشت گردوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔

ہندوستان میں در اندازی کی گئی ہے، کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ بھارت کا ازلی ڈراما ہے ''یعنی بغل میں چھری منہ پہ رام رام''، ایک بار وہ طیارہ اغوا کا ڈراما رچا کر اپنے ارادوں میں کامیاب ہوچکا ہے۔ سو شاید اب بھی ایسا ہی ہو کہ وزرائے اعظم کی کوششوں کوکسی سطح پر پسند نہ کیا گیا ہو یا کچھ عناصر ان دونوں ممالک کے درمیان ہمیشہ کشیدگی ہی کے خواہاں ہوں، مگر یہ ہے دونوں وزیر اعظم جب اچھے تعلقات پیدا کرنے کے لیے ملاقات کو خوشگوار بتانے لگے تو عوام کو بھی امید ہوچلی تھی کہ اب حالات اچھے ہوں گے مگر اس حملے کے بعد ان کی خوشیوں پر اوس پڑ گئی۔

یوں بھی پرمسرت اور محبتوں سے بھرپور یہ ملاقات مختلف حلقوں میں متنازعہ بن گئی ہے کہ یہ ملاقات دو دوستوں کے درمیان تھی یا دو ممالک کے سربراہوں کے درمیان۔ کیونکہ دو ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کا معاملہ ہوتا ہے تو ایسی ملاقات وزیر اعظم ہاؤس، ایوان صدر یا کسی وزارت کے دفتر یا کسی قومی ادارے میں ہوتی ہے مگر جب دو سربراہان مملکت کے درمیان ملاقات ذاتی رہائش گاہ پر ہو تو وہ ملکی کے بجائے ذاتی دلچسپی اور مفاد کے لیے ہی ہوتی ہے جب کہ دونوں بزنس مین بھی ہوں۔ لہٰذا دونوں پڑوسیوں کے ذاتی تعلقات یقینا اچھے ہی ہوں گے مگر دونوں ممالک کے درمیان روایتی صورتحال برقرار رہے اور شاید ابھی رہے گی۔ پٹھان کوٹ کا واقعہ سازش ہے یا ڈرامہ، اور اس میں کس کا ہاتھ ہے جلد ہی سب کچھ سامنے آجائے گا۔''ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا؟''

ایک اور اہم معاملہ پاکستان میں داعش کی موجودگی کا ہے۔ ہمارے وزیر داخلہ اور دیگر وفاقی وزرا پاکستان میں جن کی موجودگی سے برملا انکار کرتے رہے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں، کم و بیش یہی صورتحال القاعدہ اور طالبان کے سلسلے میں رہ چکی ہے مسلسل ''میں نہ مانوں'' کی پالیسی رکھی گئی ان کی موجودگی پر تشویش کا اظہارکرنیوالوں کو جھٹلایا جاتا رہا، مگر پھر بات ان سے مذاکرات اور آخر آپریشن ضرب عضب تک پہنچی۔ سوال یہ ہے کہ آخر حکومتی ذمے داران کسی ایسی اطلاع کو جھٹلانے کے بجائے اس کی تحقیق کیوں نہیں کرتے؟ بظاہر اس کی وجہ روایتی تساہلی، کچھ نہ کرنے کی عادت ہی لگتی ہے جوکہ ہمارے صاحبان اقتدار کی پرانی عادت ہے۔ پھر جب پانی سر سے گزر جائے، کوئی بڑا سانحہ رونما ہوجائے تو دوڑ بھاگ شروع ہوجاتی ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ ''سانپ نکل جائے تو لکیر پیٹی جاتی ہے۔''

اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے داعش کے سب سے بڑے سہولت کار ان ہی ذمے داران کو قرار دینا چاہیے جو اس خطرے کے امکان کو مسلسل نظرانداز کر رہے ہیں، اگرچہ ابتدائی مرحلے میں ہی اس وحشت پر قابو پانا نہ صرف آسان بلکہ زیادہ محفوظ اور موثر ہوسکتا ہے (کم سے کم نقصان کے ساتھ) جب یہ بلا ملک میں اچھی طرح پھیل جائے تب اس سے جان چھڑانا کس قدر مشکل ہوجائے گا۔ مگر اپنی روایتی کاہلی کے سبب داعش کو ملک میں پنپنے کا موقع فراہم کیا جا رہا ہے۔

کچھ عرصہ قبل بھی ملک کے کئی شہروں میں اس انتہا پسند تنظیم کے بارے میں چاکنگ کی نہ صرف خبریں بلکہ تصاویر بھی سامنے آئی تھیں تو اس وقت بھی اس کو نظرانداز کرکے عوام کو دلاسے دیے گئے کہ یہ محض لوگوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش ہے ورنہ داعش کا وجود ملک میں کہیں نہیں۔ ذرایع ابلاغ پر ایسی خبریں آتی رہیں مگر ذمے داروں کا وہی انکار سب کے جواب میں، خدا کرکے کہ ایسا ہی ہو بصورت دیگر افواج پاکستان ابھی ایک مشکل ترین آپریشن سے مکمل طور پر فارغ نہیں ہوئی کہ ایک نیا فتنہ سر اٹھانے لگا ہے۔

شتر مرغ کی طرح گردن ریت میں چھپانے سے طوفان ختم نہیں ہوتا، ہاں اگر آنیوالے طوفان کے پیش نظر پہلے ہی کچھ حفاظتی اقدامات کرلیے جائیں تو طوفان سے ہونیوالے نقصانات کو بڑی حد تک کم تو کیا جاسکتا ہے۔ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں بادوباراں یا سمندری طوفان کی اطلاع ملتے ہی آبادی اور املاک کی حفاظت کے لیے ممکنہ اقدامات کیے جاتے ہیں۔ جب کہ ہم ہر سال سیلاب سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ ایک سیلاب کی تباہ کاریوں سے پوری طرح نپٹ نہیں پاتے کہ اگلے سیلاب کا شکار ہوجاتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ پاکستان جیسا ملک جس کا بچہ بچہ بیرونی قرض میں جکڑا ہو، جس کی 60 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہو کیا بار بار اتنے نقصان کا متحمل ہوسکتا ہے۔ مگر جانے اس ملک پر کس نحوست کا سایہ ہے کہ اسے لوٹنے کنگال کرنے اور مقروض کرنے کے لیے تو بڑی تگ و دو کی جاتی ہے مگر مسائل کے حل سے نظریں چرائی جاتی ہیں۔

بات ہو رہی تھی ملک میں داعش کی موجودگی کی، ارباب اختیار کے مسلسل انکار کی وجہ سے عوام بھی اس خطرے سے کسی حد تک بے فکر ہوگئے ہیں۔ چلیے مان لیتے ہیں کہ ہمارے حکومتی دانشور بجا ارشاد فرما رہے ہیں، مگر پھر ایک اطلاع کے مطابق پنجاب پولیس کے انسداد دہشتگردی سیل نے سیالکوٹ میں ایک خفیہ مرکز پر چھاپہ مار کر وہاں موجود دہشتگردوں کے علاوہ پنجاب کے دیگر شہروں سے ان کے مزید آٹھ ہمدردوں کی گرفتاری کا دعویٰ کیوں کیا ہے؟

ذرایع کا کہنا ہے کہ گرفتار افراد نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے حلف اٹھایا ہوا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے خاتمے اور نظام خلافت کے قیام کے لیے مسلسل جدوجہد کریں گے۔ ان ہی ذرایع کیمطابق ملزمان پورے ملک میں اپنے نیٹ ورک کو پھیلانے کے لیے نئی بھرتیاں کرنے کے لیے سرگرم تھے۔ اس کے علاوہ کراچی میں بھی ایک شخص کچھ لڑکوں کو شام بھجوانے کے علاوہ کراچی اور بلوچستان میں داعش کے لیے بھرتیاں کرنے کے سلسلے میں گرفتار کیا جاچکا ہے۔

پنجاب ہی سے کچھ خواتین (معہ بچوں کے) کے شام جانے کا بھی انکشاف ہوا ہے، ان خبروں کے بعد بھی کیا حکام اپنے دعویٰ پر قائم ہیں کہ پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں؟ اگر یہ تمام خبریں جھوٹی بھی ہیں تو بھی ان کو نظرانداز کرنے کے بجائے سنجیدگی سے ان کی تحقیق کرنا چاہیے تاکہ اس فتنے پر سر اٹھانے سے پہلے ہی قابو پالیا جائے۔ عرب ممالک میں اس تنظیم نے جس قدر تباہ کن کارروائیاں کی ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ جہاں جہاں ان کے قدم پہنچے ان ممالک کو تباہ و برباد کردیا۔ قتل عام کے علاوہ خواتین کی بے حرمتی و ایزا رسانی کے دل ہلا دینے والے واقعات تسلسل سے رونما ہو رہے ہیں۔

خبر کے علاوہ تصاویر بھی کچھ اخبارات میں شایع ہوچکی ہیں کہ ایک پنجرے میں خواتین کو (باپردہ) اس طرح بھرا ہوا ہے کہ وہ صرف کھڑی رہ سکتی ہیں بیٹھنے تک کی گنجائش نہیں۔ پھر اس پر ستم یہ کہ ان خواتین کی عمر کے لحاظ سے باقاعدہ قیمتیں مقرر ہیں نو سے تیرہ چودہ سال کی لڑکیوں کی قیمت سب سے زیادہ ہے پھر پندرہ سے بیس پھر بیس سے زیادہ عمر کی خواتین کی قیمت ہے اور ان کو بطور لونڈی (کنیز) فروخت کیا جا رہا ہے اور یہ سب کچھ اسلام اور خلافت کے نام پر ہو رہا ہے۔

ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی اگر ٹال مٹول کی گئی تو ہم سب جانتے ہیں کہ خدانخواستہ ہمارا ملک کسی آفت میں مبتلا نہ ہوجائے۔ملک میں مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت میں اضافے کے باعث اسلام کو ایک روشن خیال اور ہر دور کے لیے قابل عمل مذہب کے طور پر قبول کرنیوالوں کی تشویش بالکل بجا ہے کہ یہ انتہا پسندی کہیں لوگوں کا برین واش کرکے سرزمین پاکستان کو اس دہشتگرد تنظیم کے لیے ہموار اور استعمال نہ کرے۔ کسی حد تک یہ بات ہے بھی باعث تشویش لہٰذا ذمے داران کو اپنی ذمے داری کا احساس ہونا چاہیے قبل اس کے کہ دیر ہوجائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں