پاک بھارت تعلقات میں عوامی مفادکی اولیت
ایک پرانی اور طاقت ور لابی، جو یہ سمجھتی ہے کہ ان کی حکمت عملی کی بنیاد جغرافیائی اورحفاظتی مقاصد کا حصول ہونا چاہیے
ایسا کیا ہوگیا کہ مرنے مارنے کی باتیں کرنیوالے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے معصوم فاختہ بن گئے؟ پاکستانی میڈیا کے بہت سے پنڈت اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے جتن کررہے تھے کہ دہشتگردوں نے پٹھان کوٹ کے فوجی ہوائی اڈے پر حملہ کر دیا۔یہ ایک غیر متوقع واقعہ نہیں ہے کیونکہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان امن کی ہر پیش رفت کے بعد ایسا ہی ہوا ہے۔خوش آیند بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں بھی اس قسم کی امن دشمن سازشوں کی توقع کر رہی تھیں ،اس لیے ان کا رد عمل یہ رہا کہ ہم دہشت گردوں کو امن کی کوششوں کو پامال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
بظاہر مودی کے اس یو ٹرن کی کوئی ایک وجہ نہیں ہو سکتی۔کسی بھی ملک کے ریاستی معاملات چلانے کے لیے پالیسیاں اس طرح سے بنائی جاتی ہیں کہ ان سے حکمران طبقات کے مفاد کی خدمت ہو۔تاہم اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ کسی بھی ملک کے طبقاتی مفادات ساکت وجامد نہیں ہوتے اور نہ یہ پتھروں سے تراشے ہوئے ہوتے ہیں، بلکہ یہ وقت اور حالات کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔ پاکستان میں اس معاملے پر دو مختلف لابیوں کے درمیان کشمکش ہے۔
ایک پرانی اور طاقت ور لابی، جو یہ سمجھتی ہے کہ ان کی حکمت عملی کی بنیاد جغرافیائی اورحفاظتی مقاصد کا حصول ہونا چاہیے، جب کہ دوسری جانب یہ سوچ ہے کہ معاشی روابط اور ملک کی معاشی ترقی ہی اصل میںپاکستان کے جغرافیائی اورحفاظتی مقاصد کو حاصل کر سکتی ہے۔ایک خیال یہ ہے کہ مودی نے بہار میں اپنی پارٹی کی شکست سے یہ بات سمجھ لی ہے کہ پاکستان اور مسلمان مخالف شعلہ بیانی نقصان دہ ہے۔بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے ۔شاید بھارتیہ جنتا پارٹی(BJP) اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ UP میں ہونے والے اگلے انتخابات میں طاقتور دلت مسلم اتحاد، اُس کی جیت کو مشکل بنا دے گا۔
ایک اور وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ امریکا اور روس دونوں نے مودی پر زور دیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائیں کیونکہ یہ دونوں ملک چاہتے ہیں کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ افغان طالبان کو امن مذاکرات کی میز پر لانے میں اپنا اثر ورسوخ استعمال کرے۔ پاکستان کا ایک دیرینہ خدشہ یہ ہے کہ بھارت،افغان حکومت کے ساتھ اپنے جغرافیائی و تزویراتی تعلقات مستحکم کرکے اس کا محاصرہ کرنا چاہتا ہے۔بھارت کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ پچھلی دو دہائیوں سے افغان طالبان کی حمایت کر رہا ہے ۔
اگرچہ بھارت خارجی دباؤ کو خاطر میں نہیں لاتا ،کیوں کہ وہ خود کو علاقے کی بڑی طاقت سمجھتا ہے تاہم اس کی بھرپور خواہش ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رکنیت حاصل کرے۔اس مقصد کے لیے اسے امریکا اور روس کی حمایت کی ضرورت ہے، چنانچہ اس خواہش کی تکمیل کے لیے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا کوئی بڑی قیمت نہیں ہے۔
بہت سے با شعور لکھاری ، باغی گروپوں کواثاثہ سمجھنے کی پالیسی کے منفی پہلوکا ادراک کرتے ہوئے اس پر تنقیدکرتے رہے ہیں۔ان دہشتگردوں کی طرف سے پاکستان کولاحق موجودہ خطرے کا تعلق براہ راست اسی سازشی پالیسی سے ہے۔ ہمیں اعتراف کرنا ہو گا کہ دہشتگردحملوں سے ایک طویل عرصے تک زخم کھانے کے بعد ہماری اسٹیبلشمنٹ نے اُن دہشتگردوں کے خلاف آپریشن شروع کیا ،جو ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں ۔اب اسٹیبلشمنٹ نے راستہ تبدیل کیا ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ وقت آگیا ہے کہ افغان طالبان پرکی جانیوالی انویسٹمنٹ سے فائدہ اٹھایا جائے۔
اگر اسٹیبلشمنٹ کا یہ عمل کامیاب رہتا ہے تو اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ اس سے دوسرے ملکوں میں بھی اپنی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کی خاطر غیر ریاستی اداکاروں کا استعمال جاری رکھنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ پاکستان طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا رہا ہے مگر ماضی میں اسلام آباد نے سرکاری طور پر اس کی تردید کی ہے۔اب یہ پوزیشن نہیں ہے۔اب ہم کھل کر سامنے آ گئے ہیں اور طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات کا اعتراف کرلیا ہے جو پہلے ہی بہت زیادہ خفیہ نہیں تھے۔
پاکستان نے بھارت کی جانب سے کسی منفی رد عمل کا مقابلہ کرنے کے لیے بڑی کامیابی کے ساتھ امریکا اور چین کو مجوزہ مذاکرات میں شامل کیا ہے۔دوسری طرف پاکستان کو اس بات کا بھی احساس ہوگیا ہے کہ اگر ملک کے اندر دہشتگرد گروپوں کو بھارت کی مدد حاصل رہی تو دہشتگردی کے خلاف جنگ نہیں جیتی جا سکے گی۔اس بھارتی پالیسی نے مسئلہ کشمیر کو ثانوی پوزیشن پر دھکیل دیا ہے۔دونوں ملکوں کے قومی سلامتی کے مشیروں کی بات چیت بنکاک منتقل کرنے سے یوں لگتا ہے کہ دونوں اس بات پر اتفاق کر چکے ہیں کہ مستقبل کے مذاکرات میں دہشتگردی کے مسئلے کو ترجیح حاصل ہوگی۔
پہلے دور میں اسی کامیابی کی وجہ سے مودی نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے پیش قدی شروع کی۔ اس ضمن میں مودی کا اپنا انفرادی انداز ہے۔ بھارت میں بھی بہت سے لوگ ان پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ کابینہ کے وزیروں سے مشاورت نہیں کرتے اور اپنے چند پسندیدہ بیوروکریٹس کی مدد سے حکومت چلاتے ہیں ۔اسی لیے انھوں نے شہباز شریف کے اندازِ حکمرانی کی تعریف کی۔غیر مصدقہ اطلاعات یہ ہیں کہ مودی کا دورہ اچانک نہیں بلکہ پہلے سے طے تھا۔
یہ خیال نواز شریف کے اُن ناقدین کی مدد کرتا ہے جو جنگی معیشت کی توانا لابی کو خوش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔اب یہ لوگ ایک بار پھر '' پہلے کشمیر'' کا نعرہ لگا رہے ہیں، حالانکہ انھیں اس بات کا اچھی طرح سے علم ہے کہ ہماری ظاہری اور درپردہ مہم جوئیوں کے باوجود، اس پالیسی نے پچھلے67 سالوں میں کوئی اثر نہیں دکھایا۔
پاکستان کو لازماً اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے ،لیکن یہاں ہمیں جنگی معیشت پر پلنے والوں اور پاکستان کے عوام کے مفادات کے بیچ لکیرکھینچنا ہو گی۔مجھے یہ نہ بتایا جائے کہ دونوں ایک ہیں۔ پاکستان کے عوام اور ان کا مفاد بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔انھیں معلوم ہے کہ آج جوکچھ ہمارے پاس ہے 67 سال پہلے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ چنانچہ کشمیر مزید کچھ انتظار کر سکتا ہے البتہ ہم مصائب میں مبتلا اس وادی میں انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھا سکتے ہیں ۔پانی کے مسئلے کے ساتھ الگ سے نمٹا جانا چاہیے ،جیسا کہ سندھ طاس معاہدے پر دستخط کرتے وقت کیا گیا تھا۔اسے کشمیر پر حاکمیت کے سوال کے ساتھ جوڑنا ہمارے مفادات سے متصادم ہو گا۔
اگر دونوں ملکوں کی حکومتیں دوسرے ایسے معاملات کے حل کی جانب بڑھتی ہیں ، جن پر جنرل مشرف کے دور میں پس پردہ سفارت کاری کے دوران خاصی پیش رفت ہو چکی تھی ،جس کا ذکر خورشید محمود قصوری نے اپنی کتاب "Neither a hawk nor a dove" میں پر زور طریقے سے کیا ہے ،تو اس سے دونوں ملکوں کے عوام کوامن کی صورت میں بہت فائدہ ہو گا۔چونکہ یہ پیش رفت کسی سویلین وزیر اعظم نے نہیں بلکہ ایک آرمی چیف کی طرف سے کی گئی تھی،اس لیے اس سوال سے جڑے ہوئے صحافیوں کو پوچھنا چاہیے کہ کیا موجودہ اسٹیبلشمنٹ کشمیر کے غیر روایتی حل سمیت اُن کامیابیوں کی حمایت کرتی ہے جو مشرف کی حکومت کے دوران حاصل ہوئی تھیں؟امن عمل کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے اس وضاحت کی اشد ضرورت ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کی ٹوئٹر کی شوقین انگلیاں بھارت کے ساتھ امن کوششوں پر ساکت ہیں اور اس صورت حال سے خاک اڑانیوالے صرف ان لوگوں کی مدد ہورہی ہے، جو ٹاک شوز میں آکر وعظ سناتے ہیں۔بہرکیف اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہندوستان کی حکومت امن کے عمل کی جانب اسی شد و مد کے ساتھ آگے بڑھے گی جس کا ادعا مودی کی لاہور آمد سے مل رہا تھا۔دوسری جانب پاکستان کی حکومت کو بھی عملی طور پر یہ دکھانا ہو گا کہ وہ ہندوستان دشمن جہادی گروہوںکے خلاف کارروائی کرے گی۔
کالم نگارکتاب'' پاکستان.... خرابی اور اس کے اثرات'' کے مصنف ہیں۔