ایتھوپیا ترقی کرسکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں

جمہوریت کے عدم تسلسل، دہشتگردی اور کرپشن کو وجہ بناکر حکمراں ملک میں موجود مسائل سے ہم بری الزمہ نہیں ہوسکتے۔


احمد عثمان January 06, 2016
اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے نوجوانوں میں بے بیروزگاری کی شرح 48 فیصد رہی اور پاکستان میں 45 فیصد آبادی مفلسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ فوٹو: فائل

ہر سال کی طرح اس بار بھی مجھے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کی انسانی ترقی کی فہرست (ایچ ڈی آئی) کا انتظار اِس اُمید کے ساتھ تھا کہ شاید پاکستان کی درجہ بندی پہلے سے نسبتاً بہتر ہوئی ہوگی لیکن ہر سال کی طرح رپورٹ کے نتائج دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ پاکستان ایک درجہ تنزلی کے ساتھ 147 ویں نمبر پر رہا جبکہ اس سے پہلے پاکستان مسلسل 6 سال سے 146ویں نمبر پر آرہا تھا۔

اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کے نوجوانوں میں بے بیروزگاری کی شرح 48 فیصد رہی اور پاکستان میں 45 فیصد آبادی مفلسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ رپورٹ میں انسانی ترقی کی شرح کو بہتر بنانے کے لئے پاکستانی نوجوانوں کو با اختیار بنانے اور ملازمتیں فراہم کرنے کے لیے بھاری سرمایہ کاری پر زور دیا گیا ہے۔ جبکہ اس رپورٹ کے مطابق ناروے مسلسل 12 سال سے اس فہرست میں پہلے نمبر پر براجمان ہے۔ باوجود اس کے کہ وہاں اِس سال مہاجرین کا بوجھ بھی پڑا لیکن اس نے اپنی درجہ بندی کو کسی طور پر بھی کم نہیں ہونے دیا۔

اگر ہم اپنی انسانی ترقی کی درجہ بندی کو بہتر بنانے کے لیے ناروے کو رول ماڈل بنائیں تو ہمارے اربابِ اختیار اور سیاستدان بُرا مان جاتے ہیں کہ کہاں ہم درجہ بندی میں اتنے نیچے اور کہاں ناروے اس فہرست میں پہلے نمبر پر، یہ ممکن نہیں ہم اُس کا مقابلہ کرسکیں۔ چلیں آپ کی بات مان لیتے ہیں یورپ کے دیگر ممالک اور امریکہ آپ موازنہ اس لیے نہیں کرنے دیتے کہ وہ ہم سے کہیں زیادہ مضبوط انفراسٹرکچر کے حامل ممالک ہیں پھر جب ہم آپ کو بھارت کی مثال دیتے ہیں تو آپ ایک دم سیخ پا ہوجاتے ہیں کہ کہاں بھارت ۔۔۔۔ جہاں شروع سے جمہوریت کا تسلسل برقرار ہے اور سیاستدان بااختیار ہیں اور کہاں ہم جہاں کبھی جمہوری حکومت کو صحیح طور پر ملک چلانے کا موقع ہی نہیں دیا گیا اور یہی بات ہماری ترقی کی بڑی رکاوٹ ہے۔

چلیں آپ کی یہ بات بھی مان لیتے ہیں کہ آپ انتہائی نا مساعد حالات کا شکار رہے ہیں اور یہاں جمہوریت کا تسلسل برقرار نہیں رہا۔ پھر دہشت گردی اور کرپشن نے آپ کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن مسائل کی روئیداد سنا کر کیا آپ پاکستان کو درپیش مسائل بری الزمہ ہوجائیں گے اور اس کو قسمت کا دیا ہوا سمجھ کر خاموش ہوجائیں؟ چلیں آج میں آپ کو ایسے ملک کی مثال دیتا ہوں جس کو ماڈل بنانے کے لیے یقیناً آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ کیونکہ اس کے حالات پاکستان سے بھی کہیں زیادہ دگرگوں تھے اور وہ ملک ایتھوپیا ہے۔

چند برس قبل بھوک اور قحط کا نشان سمجھا جانے والے اس افریقی ملک میں اب دولت کی ریل پیل اور آسودگی دکھائی دیتی ہے۔ قرنِ افریقہ کے اس ملک میں سالانہ شرح ترقی 10 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ اس بھاری شرح ترقی کی تصدیق عالمی بینک نے بھی کی ہے۔ ایتھوپیا میں تعمیر کی انڈسٹری کے علاوہ ٹریڈ اور زراعت کے شعبوں میں بھی بے پناہ ترقی دیکھی گئی ہے۔ جنوبی افریقہ کے ایک ادارے نیو ورلڈ ویلتھ کی مارکیٹ کی تحقیق کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق ایتھوپیا میں اس وقت کروڑ پتیوں کی تعداد 3 ہزار کے لگ بھگ ہے۔

2007 سے 2013 کے درمیان ان کروڑ پتیوں کی تعداد میں 108 فیصد اضافہ ہوا۔ سارے افریقی ممالک کے مقابلے میں ایتھوپیا میں کروڑ پتیوں کی ابھرنے والی یہ تعداد سب سے زیادہ ہے۔ افریقہ کا پہلا لائٹ ریل سسٹم ایتھوپیا میں شروع کیا گیا ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود کہ ماضی میں شدید قسم کی قحط سالی، خانہ جنگی اور دہشت گردی کا شکار رہنے والا یہ غریب افریقی ملک اب آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ایک معاشی طور تیز ترین ترقی کرنے والا ملک بن گیا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ابھی بھی یہ ملک بہت سے مسائل سے نبرد آزما ہے لیکن اس کی یہ حیران کن ترقی باقی ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک رول ماڈل ہے۔ ایتھوپیا کی اِس ترقی نے مجھے بہت حد تک پُراُمید کردیا ہے کہ جب ایتھوپیا جیسا ملک تمام تر مسائل کے باوجود ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے تو پھر بھلا پاکستان کیوں نہیں؟

معدنی وسائل اور افرادی قوت کی فراوانی ہمیشہ سے اس ملک کے لئے ایک مثبت اور حوصلہ افزاء اُمید رہی ہے۔ بس اب ضرورت صرف اِس امر کی ہے کہ مناسب منصوبہ بندی کی جائے اور زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کو کو فروغ دیا جائے۔ جس سے ملک میں ترقی کی نئی راہیں کھل سکیں گی۔ اگر ایسا کرلیا گیا تو یقین مانیے وہ وقت دور نہیں جب پاکستان بھی انسانی ترقی کی فہرست میں بہتر درجہ بندی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔

[poll id="870"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |