سندھ کے لوگو عقل مند بنو
سندھ و پنجاب چند برسوں کے فرق سے انگریز کے قبضے میں چلے گئے۔ دونوں صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔
سندھ کی صورت حال عجیب مقام پر آگئی ہے۔ کیفیت یہ ہے کہ نہ آگے بڑھا جاسکتا ہے اور نہ پیچھے ہٹا جاسکتا ہے۔
انتہائی دانش مندی کے مظاہرے کی ضرورت ہے، سن 47 سے پہلے وادی مہران میں رہنے والوں کو بھی اور اس کے بعد یہاں آنے والوں کو بھی۔ اب وہ لوگ تو نہیں رہے جنھوں نے تقسیمِ ہند اور ہجرت کا فیصلہ کیا تھا۔ اب وقت کی رفتار ان کی اولاد سے عقل مندانہ فیصلوں کا تقاضا کرتی ہے۔ حقیقت پسندانہ فیصلوں اور فسانے و خواب سے ہٹ کر اقدامات کا۔ بہتر سے بہتر بلدیاتی نظام کی خاطر۔ بغیر کسی لڑائی جھگڑے کے اور محبت و اتفاق کے ساتھ۔
''یہ سندھ ہے'' والے کالم میں ہم نے تحریر کیا تھا کہ پاکستان کے تمام صوبے تقسیم کا شکار ہوئے ہیں۔ تقسیم بھی ایسی کہ اس کا ایک حصّہ ایک ملک تو ایک کسی دوسرے ملک کا صوبہ بنا۔ پنجابی و بنگالی بھارت و پاکستان میں تو پٹھان و بلوچ، افغانستان اور ایران میں منقسم ہیں۔ یہاں سندھ کی خوش نصیبی ہے کہ وہ کسی سرجری اور آپریشن سے بچا ہوا ہے۔ اسی مرحلے پر ایک حقیقت پرانے سندھیوں کو تسلیم کرنی ہوگی۔ حقیقت کو مان لینا آیندہ کے لیے فیصلوں کو آسان بنادیتا ہے۔ بیمار اپنی بیماری اور کھلاڑی اپنی بڑھتی ہوئی عمر کو تسلیم نہ کرے تو علاج اور ریٹائرمنٹ کے فیصلے آسان نہیں ہوا کرتے۔
سندھیوں کو کن باتوں کو تسلیم کرنا ہے؟ انھیں اپنے صوبے کی پچھلی سو سالہ تاریخ کی چند حقیقتوں کو کھلے دل سے ماننا ہوگا۔ آج اگر چند باتوں کو فراخ دلی سے مان لیا جائے تو کل بڑے نقصان سے بچا جاسکتا ہے۔ آج اگر پائوں کی انگلی کٹوالی جائے تو کل ٹخنے تک زہر پھیلنے سے روکا جاسکتا ہے۔ آج اگر یہ فیصلہ نہ کیا جائے تو پرسوں پوری ٹانگ کٹوانی پڑے گی یا موت کے منہ میں جانا ہوگا۔ جس طرح ڈاکٹر کے لیے مریض کو یہ بتانا اور اس پر راضی کرنا مشکل ہوتا ہے، اسی طرح کالم نگار کے لیے بھی مشکل ہے کہ جسم بچانے کے لیے اس کے جزو کی علیحدگی پر اسے راضی کرے، جس کا وہ ہمدرد ہے۔ کچھ اختیارات دے کر پورے کو بچانے کی بات ہورہی ہے۔ یہاں فیصلہ صرف صوبے کے باسیوںکو کرنے دیا جائے تو بہتر نتائج کی توقع ہے۔
سندھ و پنجاب چند برسوں کے فرق سے انگریز کے قبضے میں چلے گئے۔ دونوں صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ دونوں مقامات نے دو سال کے فرق سے قراردادیں منظور کیں۔ ایک سندھ اسمبلی میں تو ایک لاہور کے منٹو پارک میں۔ دونوں صوبوں میں غیر مسلم سیاست و معیشت پر حاوی تھے۔ پنجاب میں سکھ تو سندھ میں ہندو۔ دونوں صوبوں کے مسلمان کھل کر سیاست کرنا چاہتے تھے تو ڈٹ کر ترقی کے خواہش مند تھے۔ ایسی ہی صورت حال بنگال کی بھی تھی۔
تقسیمِ بنگال کے بعد انھوں نے چھ سال تک (1905-11) ترقی کا مزا چکھا تھا۔ ان کا گائوں جیسا ڈھاکا ہندوئوں کے کلکتہ کا متبادل بن رہا تھا۔ سندھیوں، پنجابیوں اور بنگالیوں کو قائداعظم اور مسلم لیگ کے علیحدہ وطن کے فارمولے میں فائدہ نظر آیا۔ جب مسلمانوں نے تقسیمِ ہند کی بات مذہب کی بنیاد پر کہی تو کانگریس نے بنگال اور پنجاب کی تقسیم کی بات کہی۔ ان کی دلیل میں اتنا ہی وزن تھا جتنا مسلمانوں کی دلیل میں۔ یوں ہندوستان کے ساتھ مسلمانوں کے دو بڑے صوبے تقسیم کا شکار ہوئے۔ جب کہ سندھ اس سرجری سے محفوظ رہا۔ اس آپریشن نے ایک لحاظ سے بنگال و پنجاب کو مضبوط کیا۔ اس کی دو وجوہات تھیں، مذہب و ثقافت۔ ایک ہی مذہب اور ایک ہی ثقافت کے لوگ ان صوبوں کی اکثریت بن گئے۔ سندھ ایک سرجری سے تو بچ گیا لیکن اس کے ساتھ دوسرا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ پہلے مذہب جدا جدا تھے تو اب ثقافت الگ الگ ہے۔
سندھیوں کی بہت بڑی اکثریت کراچی اور حیدرآباد سے دور ٹھٹھہ، لاڑکانہ، دادو، بدین میں رہایش پذیر تھی۔ ہندوستان سے آنے والوں کی سندھ کے دو بڑے شہروں میں سکونت نے اس صوبے کو بدل کر رکھ دیا۔ پہلے 45 فیصد ہندو اس صوبے کی سیاست و معیشت پر حاوی تھے تو اب مسلم اقلیتی صوبوں سے آنے والے اردو و گجراتی بولنے والے، پنجاب سے آنے والے ہنرمند تو پٹھان محنت کش ہر طرف چھا گئے ہیں۔ ایسے میں پرانے سندھی مسلمانوں کے مسئلے کی نوعیت بدل گئی۔ پہلے ہم زبان لیکن مذہباً ہندو، اب مسلمان لیکن زبان مختلف۔ پہلے بکھری ہندو اقلیت کے مقابل وہ اکثریت میں تھے۔
اب بڑے شہروں میں ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کے مقابل وہ اقلیت میں ہیں اور اپنی ہزاروں سالہ قدیم ثقافت کا حوالہ دے رہے ہیں۔ سیاست پر پہلے بھی وہ ففٹی ففٹی کے حصّہ دار تھے اور صورت حال اب بھی یہی ہے۔ پہلے معیشت پر پرانے سندھی ہندو چھائے ہوئے تھے تو اب نئے سندھی مسلمان۔ زراعت اب بھی ان کے ہاتھوں میں ہے جو تقسیمِ ہند سے قبل اس صوبے کے رہایشی تھے لیکن معیشت کی صورت حال وہی ہے جو ستّر سال قبل تھی۔ یہاں تک صورت حال اتنی چونکا دینے والی نہیں جتنی ایک اور مسئلے میں خطرناکی پوشیدہ ہے۔ یہی وہ مسئلہ ہے جسے دانش مندی سے حل کرنے کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے۔
کالم اپنے کلائمکس کو چھو کر اس کے منطقی انجام یعنی حل کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اگر ہم سن سینتالیس سے قبل اور بعد کے رہائشیوں کا ایک ایک مسئلہ بیان کردیں تو اس کا حل خود بخود سامنے آجائے گا۔ پرانے سندھی کراچی اور حیدرآباد میں بہت کم ہیں۔ سندھ کے یہی دو بڑے شہر ترقی یافتہ ہیں۔ ان شہروں میں سندھیوں کی اقلیت نے انھیں خوف میں مبتلا کردیا ہے کہ کہیں سندھ کی تقسیم سے یہ شہر ان کے ہاتھوں سے نہ نکل جائیں۔ اس طرح وہ سو سال پیچھے چلے جائیں گے۔ یہ ایک حقیقی خوف ہے جو پرانے سندھیوں کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔
نئے سندھی یعنی اردو، پنجابی، پشتو، گجراتی وغیرہ بولنے والے ان شہروں میں ساٹھ ستّر برسوں سے رہ رہے ہیں۔ وہ ہندوستان یا پاکستان کے صوبوں سے ہجرت کرکے آئے ہیں۔ اگر وہ ''فرزندِ زمین'' ہیں بھی تو اس صوبے میں رہنے کی ہزاروں تو کیا سیکڑوں سال کی تاریخ بھی نہیں رکھتے۔ سندھیوں کی مہمان نوازی کے احسانات ہیں ان پر۔ مسئلہ یہ ہے کہ سندھی بولنے والے بڑے شہروں کے اکثریتی رہایشی نہیں۔ اب ان شہروں کے بلدیاتی مسائل حل ہوں تو کیوں کر؟ کیفیت یہ ہے کہ مکان میں کرایہ دار رہ رہا ہے۔ اب مالک مکان اسے رنگ و روغن کروانے، بلب لگانے، باتھ روم بنانے، کھڑکی نکالنے کی اجازت نہیں دے رہا۔ وہ ڈر رہا ہے کہ کہیں اس کے مکان پر قبضہ نہ ہوجائے۔ نہ کرایے دار سے مکان خالی کروایا جاسکتا ہے اور نہ اس کا حق ملکیت تسلیم کیا جاسکتا ہے۔
اب اسے صفائی ستھرائی کے اختیارات نہ دینا، فرش نہ بنانے دینا، پانی کی موٹر لگانے نہ دینا کب تک چل سکے گا؟ تقسیم ٹل جاتی ہے اختیارات دینے سے۔ ہندوئوں نے مسلمانوں کو اور ہم نے بنگالیوں کو خودمختاری نہ دی تو ملک تقسیم ہوگئے اور اقوام متحدہ کے ممبر بن گئے۔ صوبے کی صورت حال نازک مقام پر آگئی ہے، جسے صرف یہاں کے باسیوں پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اگر اہلِ سندھ نے دانش مندی کا مظاہرہ نہ کیا اور حقیقتوں کو تسلیم نہ کیا تو وہ کچھ ہوجائے گا جو کوئی نہیں چاہتا۔ سمجھ داری کا تقاضا ہے کہ اے سندھ کے لوگو! عقل مند بنو۔