سامراجی معاشی غلامی سے آزادی پہلا حصہ

28 جولائی 1914 کو پہلی عالمی جنگ کے نتیجے میں یورپی ممالک شدید ’’کرنسی ایکسچینج بحران‘‘ کا شکار ہوگئے۔


خالد گورایا January 05, 2016
[email protected]

ISLAMABAD: 28 جولائی 1914 کو پہلی عالمی جنگ کے نتیجے میں یورپی ممالک شدید ''کرنسی ایکسچینج بحران'' کا شکار ہوگئے۔ امریکا تمام یورپی باہمی گروپ بندیوں کے معاہدوں سے الگ تھلگ رہا۔ حتیٰ کہ جنگ شروع ہونے کے بعد بھی نیوٹرل رہا۔امریکا جنگ میں 6 اپریل 1917 کو شامل ہوا۔ لیکن اس دوران امریکا نے متحارب یورپی ملکوں کو امریکی سرپلس اشیا مہنگی فروخت کیں۔

تمام یورپی ممالک گولڈ اسٹینڈرڈ سے ہٹ گئے تھے۔ امریکا گولڈ اسٹینڈرڈ 20.67 ڈالر فی اونس فائن سونا لینے اور دینے پر کھڑا رہا۔ یورپی کرنسیوں کی قیمت اپنے اپنے ملکوں میں غیر پیداواری اخراجاتی (جنگی) بوجھ سے اشیاؤں کے مقابلے میں گرتی گئیں۔ امریکا نے ایک طرف امریکی اشیا متحارب ملکوں کو سپلائی کیں تو دوسری طرف امریکی اشیا پر اپنی ڈالر قیمت پر سونا اکٹھا کرتا گیا اور ساتھ ہی ڈالر کرنسی فروخت کرتا گیا۔

1921 تک پورے یورپ کی مارکیٹوں میں ڈالر گردش کر رہے تھے۔ جنگ کے خاتمے کے بعد یورپی ملکوں میں زراعت، صنعتی کلچر،ذرایع آمدورفت تباہ ہوچکے تھے۔امریکا نے ایسے ملکوں کو ڈالر قرض دینے شروع کیے اور ساتھ ہی ان ملکوں کی بحران زدہ کرنسیوں کی قیمتیں مقررکرنا شروع کردیں۔ کتاب ''یورپین کرنسی اینڈ فنانس'' حصہ دوم 1925 کے صفحے 92 پر لکھا ہے۔

"The allied countries protected there exchange in the United States, before the United States interret the war they sent gold to New York, and obtainded dollar loan through American banking houses."

متذکرہ کتاب کے صفحے 287 پر لکھا ہے

"The Swiss Government in August, 1923 placed a loan in New York for 20.0 million dollar in an effort to support the Swiss France."

اس کے بعد اپریل 1924 کو سوئٹزر لینڈ کی حکومت نے 3 کروڑ ڈالر کا مزید قرضہ لیا تھا۔ اسی کتاب کے صفحے 3 پر درج ہے، Italy in June 1925 established a credit of 50.0 million dollar in New York for the purpose of stabilizing the Lira. Belgium also in June 1925 barrowed a similar amount in United States part of which money is to be used to maintain the stability of Belgium France."

اور ناروے نے 1915 سے 1924 تک امریکا سے 811.356 ملین ڈالر کا قرضہ لیا۔ پولینڈ نے جون 1924 تک امریکا سے 725.2 ملین ڈالر کا قرضہ لیا۔ کتاب "Revision of the Treaty Being a Sequal to the Economic Consequence 1922 by J.M Keynes" کے صفحے 219 پر درج ہے کہ جولائی 1921 کو امریکا نے 19 یورپی ملکوں کو 11 ارب 8 کروڑ 47 لاکھ 67 ہزار ڈالر کا قرضہ دیا۔

کتاب International Economy by Jhon Parke Young 1963 کے صفحے 543-44 پر لکھا ہے امریکا نے پہلی عالمی جنگ کے دوران اور بعد میں ان قرضوں پر امریکا نے جون 1931 کو 2 ارب 80 کروڑ ڈالر سود اور اصل زرکی مد میں وصول کیے۔ اس طرح قرضے دے کر امریکا تمام یورپی ملکوں سے سود کھا رہا تھا۔

امریکا نے بڑی چابکدستی کے ساتھ ''امریکی کاغذی مردہ ڈالر'' یورپی معیشت کا لازمی حصہ بنادیا۔ امریکا نے جنگی تباہی سے تباہ حال ملکوں کے ''مالیاتی سسٹم'' پر امریکی گرفت کو مزید مضبوط کرنے کے لیے باقاعدہ ابتدائی موجودہ آئی ایم ایف کی شکل کا ادارہ قائم کرلیا تھا۔ کتاب ''یورپین کرنسی اینڈ فنانس'' 1925 حصہ دوم کے صفحے 95 کے مطابق ''15 دسمبر 1923 کو یہ ادارہ"Exchange Equalization Fund (EEF)"قائم کیا گیا تھا۔

یاد رہے برطانوی سامراج اور دیگر سامراجی ملکوں، ترکی، جرمنی، جاپان، فرانس، روس، آسٹریا، ہنگری نے اپنی اپنی نو آبادیوں میں مالیاتی سسٹم میں جوڑ توڑ Manipulator کبھی نہیں کی تھی۔ یہ اپنے غلام ملکوں سے آنے والی اشیا پر امپورٹ ڈیوٹی بڑھاتے تھے اور اپنی اشیا جو غلام ملکوں کو ایکسپورٹ کرتے تھے ان پر ڈیوٹی کم کردیتے تھے۔ برطانیہ نے اپنے دور میں ڈھاکہ کی ململ کی فروخت روکنے کے لیے بنگال کے کاریگروں کی انگلیاں کاٹ دی تھیں۔

صنعتی انقلاب، ایجادات کا نتیجہ تھا۔ صنعتی انقلاب سے سرمایہ کار، صنعت کار طبقہ وجود میں آیا۔ صنعتی کلچر میں صنعت کار منڈی مقابلے میں زیادہ سے زیادہ معیاری اور سستی اشیا مارکیٹ میں لاتے تھے۔ اس طرح یہ آزاد مارکیٹ تھی۔ کارخانے دار مزدوروں سے زیادہ سے زیادہ وقت کے بدلے زیادہ پیداوار حاصل کرنے لگے لیکن مزدوروں کو بمشکل زندہ رہنے کے حوالے سے اجرتیں کم دیتے تھے جس کے نتیجے میں شکاگو کا واقع ہوا۔ جب امریکا نے پورے یورپ کو ''ڈالر کی مالیاتی غلامی'' میں جکڑ لیا تو امریکا نے آسانی سے ان ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتیں EEF ای ۔ای۔ایف کے پلیٹ فارم کے مطابق مقرر کرنا شروع کردیں۔

امریکا اپنے کاغذی ڈالر کے عوض سونے کے ایک اونس کے بدلے 20.67 ڈالر دینے، لینے کا پابند تھا۔ لیکن امریکا نے 1914 سے 1930 تک امریکی مالیاتی اداروں میں موجود سونے کی مقدار سے کہیں زیادہ کاغذی ڈالر پورے یورپ میں صنعتکاری، قرضہ داری فارن ایکسچینج ریزرو کی شکل میں پھیلا دیے تھے۔ کتاب International Currency Experience by League of Nations. 1944 کے صفحے 35 پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق امریکی ڈالر فارن ایکسچینج کی شکل میں 24 ملکوں کے پاس 1924 میں 845.0 ملین ڈالر تھا، 1928 میں 2520.0 ملین ڈالر تھا۔

اور جب یورپی ملکوں کو اپنے ملکوں میں غیر ملکی امریکی ڈالر کے بڑھتے غیر پیداواری اخراجات ساتھ ہی صنعتی کلچر کے یورپی ملکوں میں زوال پذیر ہونے کا احساس ہوا تو ان ملکوں نے امریکی خریدی ہوئی سیکیورٹیز اور اپنے ملکوں میں موجود فارن ایکسچینج ریزرو ڈالر نکالنے شروع کردیے۔ جس کے نتیجے میں 1932 میں یورپی ملکوں کے پاس فارن ایکسچینج ریزرو ڈالر گھٹ کر 505.0 ملین ڈالر تک کی سطح پر نیچے آگئے۔ امریکا پر ڈالروں کے بدلے سونے کی ادائیگی کے لیے دباؤ بڑھتا گیا۔ اسی عرصے 1924 کو 24 ملکوں کے پاس گولڈ ریزرو 2281.0 ملین ڈالر تھا۔ 1932 میں بڑھ کر 5879.0 ملین ڈالر ہوگیا تھا۔

اسی طرح فرانس کی کرنسی فرانک 1924 میں 23 ملکوں کے پاس فارن ایکسچینج ریزرو کی شکل میں 831.0 ملین فرانک تھی اور گولڈ ریزرو 1571.0 ملین فرانک تھا۔ اور 1932 میں فارن ایکسچینج ریزرو فرانک 329.0 ملین رہ گیا۔ اور گولڈ ریزرو 2622.6 ملین فرانک 1932 میں بڑھ چکا تھا۔ اسی کتاب کے صفحے 40 پر لکھا ہے کہ ستمبر 1931 کو امریکا، برطانیہ سے دوسرے ملکوں نے ڈالروں کے بدلے سونا لینا شروع کردیا تھا۔ امریکا کے پاس گولڈ ریزرو 4225.0 ملین ڈالر سے 4045.0 ملین ڈالر رہ گیا۔ برطانیہ کے پاس سے 125.0 ملین ڈالر گولڈ نکل گیا۔

یہاں اعداد و شمار پیش کرنے کی وجہ یہی ہے کہ امریکا ''عالمی مالیاتی شیطان'' United States International monetary Devilish (USIMD) ہے جو اپنے مکروہ عزائم کو پورا کرنے کے لیے ہر اقدام کرنے کے لیے غیر متوقع پینترے بدل لیتا ہے۔ اس دوران امریکا درحقیقت ڈیفالٹر ہوچکا تھا۔ غیر متوقع طور پر امریکی صدر نے مہنگا سونا (گولڈ) خریدنے کا اعلان کردیا۔ بینکوں کی دو دن چھٹی کردی۔ 25 اکتوبر کو 31.36 ڈالر، 26 اکتوبر 31.54 ڈالر، 27 اکتوبر کو 31.76 ڈالر، 28 اکتوبر کو 31.82 ڈالر اور پھر دو ماہ کے وقفے کے بعد 31 جنوری 1934 کو امریکا نے سونے کی قیمت 35 ڈالر مقرر کردی۔

اس ہتھکنڈے سے امریکا سے باہر جاتا ہوا سونا رُک گیا اور مزید سونا امریکا آنے لگا۔ اور امریکا نے بھرپور طریقے سے مردہ ڈالروں کو دوسرے ملکوں کی فارن ایکسچینج کمپنیوں، مارکیٹوں اور ڈالر ٹریڈرز کو زیادہ ڈالر کے نفع کے لالچ میں پھنسا کر مردہ ڈالر پھیلا دیے، امریکا نے 1934 سے لے کر 1940 تک مردہ ڈالر کی فروخت پر 15866.0 ملین ڈالر کا گولڈ حاصل کرلیا تھا اور آئی ایم ایف کی 27 دسمبر 1945 کو تشکیل کے پیچھے اسی گولڈ کو سب سے زیادہ دے کر آئی ایم ایف کے پلیٹ فارم سے زیادہ کوٹہ کی وجہ سے پوری دنیا کی کرنسیوں کی قیمتوں کو ڈالر کے مقابلے میں مقرر کرنا شروع کردیا تھا۔

ستمبر 1949 کو امریکا نے تمام ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں کو ڈالر کے مقابلے میں کم کردیا۔ اب مزید آگے بڑھنے سے پہلے ہمارے لیے جاننا ضروری ہوگیا ہے کہ 1900 سے 1914تک امریکا مستقبل کی پلاننگ کرچکا تھا اور امریکا نے 15 دسمبر 1923 کو ایکسچینج ایکولائزیشن فنڈ EEF قائم کرنے کے بعد یورپی ملکوں میں ''مالیاتی آپریشن'' بڑھا دیے تھے۔ اس کے پیچھے امریکا یہ فوائد حاصل کرتا گیا۔ (1) جس ملک کی کرنسی کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں کم ہوجاتی اس Currency Devaluation Minus Economic Development سے اس ملک کی اشیا امریکی ڈالر کے مقابلے میں اسی نسبت سے سستی ہوتی گئیں۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں