دنیا میں دہشت گردی
دنیا میں درجہ اول کے ممالک بھی دہشت گردی کا شکار ہیں، نامعلوم کس طرح دہشت گرد اپنے ٹارگٹ پر پہنچ جاتے ہیں۔
دنیا میں درجہ اول کے ممالک بھی دہشت گردی کا شکار ہیں، نامعلوم کس طرح دہشت گرد اپنے ٹارگٹ پر پہنچ جاتے ہیں۔ اتنی زیادہ خفیہ ایجنسیاں دیکھتی رہ جاتی ہیں اور دہشت گرد کام دکھا دیتے ہیں۔ امریکا، کینیڈا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، کون سا ملک دہشت گردوں سے محفوظ ہے۔ کوئی نہیں، کوئی نہیں۔ لگتا ہے دنیا دہشت گردوں کے سامنے بے بس ہے۔
دہشت گردی کے یہ حالات پوری دنیا کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔ دنیا بھر کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا، سوچنا ہوگا کہ ان گوریلا جنگجو دہشت گردوں سے کیسے نمٹا جائے۔ ابھی چند روز پہلے ہمارے پڑوسی ہندوستان کے اپنے تیکھے مزاج کے وزیراعظم نریندر مودی صاحب دیار غیر میں ہمارے وزیراعظم محمد نواز شریف کو لے کر تنہائی میں ایک صوفے پر بیٹھ گئے۔ پاکستان سے کہیں بڑا ملک ہندوستان جس کا ایک صوبہ اتر پردیش ہی ہمارے ملک سے بڑا ہے۔
نریندر مودی انتہاپسند رہنما، پتا نہیں انھیں کیا سوجی کہ ہمارے وزیراعظم محمد نواز شریف کو لے کر بیٹھ گئے۔ ان دونوں میں کیا باتیں ہوئیں یہ تو پتا نہیں، مگر نریندر مودی کی جسمانی گفتگو کہہ رہی تھی کہ معاملات انتہائی گمبھیر ہیں اور ہندوستان اپنے ایٹمی پڑوسی کے سامنے حالات رکھ کر آگاہ کررہا ہے۔ دونوں وزرائے اعظم کے درمیان ہونے والی گفتگو میں نریندر مودی ہی بول رہے تھے جب کہ محمد نواز شریف محتاط رویے کے ساتھ ہوں ہاں ہی کرتے نظر آئے۔
ہندوستان اور پاکستان کے امن پسند لوگوں نے اس ''راز و نیاز'' والی ملاقات کو پسند کیا۔ ابھی اس ملاقات کی بازگشت ہی موجود تھی کہ 25 دسمبر 2015 آگئی۔ قائداعظم کا یوم پیدائش، محمد نواز شریف کا یوم پیدائش، حضرت عیسیٰ کا یوم پیدائش اور محمد نواز شریف کی نواسی کی شادی۔ نریندر مودی افغانستان آئے ہوئے تھے، انھوں نے محمد نواز شریف سے پاکستان آنے کی اجازت چاہی۔ وہ کہہ رہے تھے ''دہلی جاتے ہوئے ڈیڑھ گھنٹہ آپ کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں''، نواز شریف صاحب نے کہا ''چشمِ ما روشن دلِ ماشاد''۔
پورا ہندوستان پاکستان ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ گیا ''طیارہ ابھی کابل میں کھڑا ہے'' ابھی کچھ اور وقت لگے گا'' اور انھی باتوں میں لاہور کی فضاؤں میں پڑوسی ملک کا طیارہ محو پرواز نظر آنے لگا اور پھر تاریخی لمحات شروع ہوگئے، طیارہ زمین پر اتر گیا تھا۔ ساری آنکھیں طیارے کے بند دروازے پر لگی ہوئی تھیں۔
پھر دروازہ کھلا دوسرے لوگ باہر آجا رہے تھے، مگر دوست نہیں آرہے تھے۔ آخر کب تک! ساری دنیا دیکھ رہی تھی، نریندر مودی ہاتھ جوڑے طیارے سے باہر آئے اور پھر بازو ہلاتے ہوئے نواز شریف سے ''جپھی'' ڈال لی۔ فضا نغمہ بار تھی۔ چہرے کھلے ہوئے تھے۔ رنگ اور نور کی برسات تھی۔ ہندوستان اور پاکستان گولیاں نہیں پھول برس رہے تھے۔ پڑوسی کا شایان شان استقبال کیا جارہا تھا۔ نواز شریف پڑوسی کو لے کر اپنے گھر روانہ ہوئے، نریندر مودی نے نواز شریف کی والدہ کی دعائیں لیں، گھر میں شادی کا سماں تھا، پورا گھر قمقموں سے جھلملا رہا تھا، تواضع کے لیے کیا کچھ نہ تھا اور پھر ڈیڑھ گھنٹہ لاہور میں گزار کر پڑوسی وزیراعظم اپنے دیس روانہ ہوگئے۔
میں نے شروع میں لکھا ہے کہ پوری دنیا دہشت گردی کا شکار ہے اور پھر اپنے ممالک ہندوستان، پاکستان، افغانستان خصوصاً دہشت گردوں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں ہندوستان، پاکستان، افغانستان میں باہم اتحاد و یگانگت کی فضا کا قائم ہونا ازحد ضروری ہے۔ ہم نے تین جنگیں لڑیں کیا حاصل ہوا، بقول جالب:
جنگ نے کیا دیا
ایک لٹتی کرن
ایک بجھتا دیا
غربت نے ہندوستان، پاکستان، افغانستان میں مستقل ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، جنگی جنون کو چھوڑ کر غربت مٹانے کا جنون اپناؤ۔ اپنے مسئلوں پر بات چیت جاری رکھو۔ لیکن تجارت کے سارے دروازے کھول دو۔ ادھر کا سامان ادھر جائے، ادھر کا سامان ادھر آئے۔ ساتھ ادیبوں، شاعروں کو ادھر ادھر آسانی کے ساتھ آنے جانے دو۔ طلبا کے وفود بھی آئیں جائیں۔ موسیقار گائیک، رقاص، ڈرامہ آرٹسٹ، فلمساز آزادی سے آئیں جائیں۔ نریندر مودی بھائی! نفرتیں بہت دیکھ لیں، اب 25 دسمبر 2015 والی ''جپھیاں'' اپنالو۔ سارے عوام کیا ادھر کے ادھر کے جپھیاں ڈالنا شروع کردیں۔
حبیب جالب کا پیغام دونوں دیشوں کے نام:
چاہے کوئی رہے سنگ نا
ہم کہیں گے کہ ہو جنگ نا
بولو بولو کہ ہو جنگ نا
امن بچوں کی مسکان ہے
جنگ شعلوں کا طوفان ہے
ہو یہ دھرتی لہو رنگ نا
بولو بولو کہ ہو جنگ نا
جنگ آہوں بھری رات ہے
جنگ اشکوں کی برسات ہے
ہو' نا سُونا کوئی انگنا
بولو بولو کہ ہو جنگ نا
سر پہ گوری کے آنچل رہے
ہنستا نینوں میں کاجل رہے
یونہی چھنکے سدا کنگنا
بولو بولو کہ ہو جنگ نا