نیوئیٹرایسا ڈرون طیارہ جوفضا میں اڑنے کے ساتھ سمندرمیں تیربھی سکتا ہے

پروفیسر کے تیار کردہ ابتدائی ڈرون کی خامی یہ ہے کہ زیر آب اسے تار کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے


عبدالریحان December 31, 2015
پروفیسر کے تیار کردہ ابتدائی ڈرون کی خامی یہ ہے کہ زیر آب اسے تار کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے:فوٹو: فائل

ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال اب عام ہوچکا ہے۔ پہلے یہ ٹیکنالوجی صرف عسکری مقاصد تک محدود تھی۔ امریکی سائنس دانوں نے ڈرون ٹیکنالوجی جاسوسی اور نگرانی کے مقاصد کے لیے ڈیولپ کی تھی، مگر چند برسوں کے دوران اس کا عام مقاصد کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔

آج دنیا بھر میں ڈرون طیاروں کی مدد سے مختلف کام لیے جارہے ہیں اور نجی ادارے بھی چھوٹے ڈرون استعمال کررہے ہیں۔ عسکری نقطۂ نظر سے عام ہو جانے کے باوجود ڈرون ٹیکنالوجی کی اہمیت کم نہیں ہوئی بلکہ اسے مزید مؤثر بنانے کے لیے تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔ عسکری میدان میں سامنے آنے والی نت نئی ایجادات اور اختراعات کا تعلق عام طور پر امریکا سے ہوتا ہے۔ کتنے ہی امریکی ماہرین اپنی افواج کے لیے جدید ہتھیار اور مختلف آلات تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ انہی میں سے ایک رائجرز یونیورسٹی کے پروفسیر جیویٹر ڈائز ہیں۔ ان کا تعلق مکینکل اینڈ ریسورسیس انجینئرنگ سے ہے۔

امریکی بحریہ کی طرف سے انھیں ایک ایسا ڈرون بنانے کی ذمے داری سونپی گئی ہے جو فضا میں بلند ہونے کے علاوہ زیر آب تیرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔ یعنی طیارے کے ساتھ ساتھ آب دوز کی طرح بھی کام کرسکے۔ پروفیسر اپنے دو شاگردوں کے ساتھ مل کر کئی برس سے اس منفرد ڈرون کی تیاری پر کام کررہے تھے اور اس میں کام یابی کے بعد انھوں نے اسے Naviator کا نام دیا ہے۔ Naviator کا پروٹوٹائپ بنانے کے بعد پروفیسر نے اسے بحریہ کے حکام کے سامنے پیش کیا۔ انھیں ڈرون کا یہ منصوبہ بہت پسند آیا۔ امریکی بحریہ کی طرف سے پروفیسر کو اس ڈرون پر مزید تحقیق اور اس کے بہتر ورژن کی تیاری کے لیے 618000 ڈالر کی گرانٹ فراہم کردی گئی۔ پروفیسر کا کہناہے کہ بحریہ کے حکام نے ان سے کہا کہ انھوں نے اس قسم کی چیز پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ Naviator پرندوں اور مچھلیوں کی خصوصیات کا مجموعہ معلوم ہوتا ہے۔

پروفیسر کے بیان کے مطابق ان کی تخلیق فضا میں اور زیر آب رہتے ہوئے یکساں مہارت کا مظاہرہ کرتی ہے۔ Naviator بحریہ کے لیے کئی طرح سود مند ثابت ہوگا۔ مثال کے طور پر سمندر میں لاپتا ہوجانے والے سپاہیوں اور پیراکوں کی موجودگی کا فضا سے جائزہ لینے کے ساتھ یہ انھیں زیرِ آب بھی تلاش کر سکتا ہے۔ اس کی مدد سے غرقاب بحری جہازوں کا جائزہ لینے کے علاوہ پلوں اور ڈرلنگ پلیٹ فارمز جیسی تعمیرات کے زیر آب حصوں کا معائنہ کیا جاسکے گا۔ Naviator کا سب سے اہم استعمال زمانۂ جنگ میں ہوگا۔

دورانِ جنگ یہ چھوٹی سی آب دوز دشمن کے بحری جہازوں اور جنگی کشتیوں کو نظر میں رکھتے ہوئے ان کے بارے میں معلومات امریکی بحریہ کو ارسال کرے گی۔ پروفیسر کے تیار کردہ ابتدائی ڈرون کی خامی یہ ہے کہ زیر آب اسے تار کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے، کیوں کہ ریڈیائی سگنل پانی میں داخل نہیں ہوسکتے۔ بحریہ کی طرف سے گرانٹ اسی خامی کو دور کرنے کے لیے فراہم کی گئی ہے۔ پروفیسر جیویٹر اور ان کی ٹیم اب Naviator کو صوتی لہروں کے ذریعے کنٹرول کیے جانے کے قابل بنانے کی کوشش کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں