ضیاء شاہد کی ’زخم آرائی‘

محبت کو لفظوں میں ڈھالنا اورتخلیقی لمس کیساتھ منکشف کرنا خاصا دشوار کام ہے جسے ضیاء شاہد نے بڑی خوبصورتی سے نبھایا ہے۔


رضاالحق صدیقی December 29, 2015
زخم آرائی کا سفر ضیاء شاہد کی ذات کا سفر ہے اس سفر میں محبت کا سفر ذات سے ابھر کر ماورائے ذات ہوگیا ہے۔

میری آنکھوں نے بولنا سیکھا
تیری آنکھوں سے گفتگو کرکے

شاعری یقیناََ شاعر کی ذات کا اظہار ہوتی ہے۔ مگر شاعر جب تک اپنی ذات کی مکمل شناسائی حاصل نہیں کر پاتا، وہ ابلاغ کے معاملے میں اپاہج رہتا ہے اور باقی عمر اس اپاہج پن کے جواز ڈھونڈنے میں گذار دیتا ہے۔ ضیاء شاہد نے سب سے پہلے اپنی ذات کو جانچا، پرکھا اور برتا ہے، پھر جب اسے اپنی پہچان کی روشنی میسر آئی ہے، تو پھر اُس روشنی میں اس نے زندگی کو جانچا، پرکھا اور برتا ہے اور یوں اس نے سنیاس اختیار کرنے کی بجائے زندگی اور اس کے مسائل کے مضمرات اور اسرار تک رسائی حاصل کی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اجالے کا، زندگی کے ثبات کا، انسان کے ارتقا کا شاعر ہے۔

ضیاء شاہد کی غزل اور نظم کی بنیادی خوبی ہے کہ اس کے کسی فن پارے کے مطالعے کے بعد ایک آسودگی اور طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔ ایسی نک سک سے درست شاعری کے معاملے میں یہ اندیشہ رہتا ہے کہ شاعر ہیت کے حسن و آرائش کی طرف زیادہ متوجہ ہونے کے سبب سے موضوع کے ساتھ انصاف نا کر پایا ہوگا، لیکن ضیاء شاہد کی شاعری نے اس بات کی نفی کر ڈالی ہے۔

''زخم آرائی'' میں درج نظمیں اور غزلیں وہ ہیں جو اندر باہر سے خوبصورت ہیں۔ ان کا خارجی حُسن ان کے داخلی حُسن کی آسودگی بخش تفہیم کا ایک ذریعہ بن جاتا ہے اور ان کے داخلی حسن پر خارج کا لباس جچتا اور سجتا ہے۔ یوں ضیاء شاید کی شاعری نے موضوع اور ہیت کی تفریق کا جھگڑا ہی ختم کردیا ہے۔ کیونکہ اس شاعری میں سب یکجان ہیں اور یہ شاعری ایک تخلیقی اکائی بن کر ہمارے سامنے آئی ہے۔

میں نے ضیاء شاہد کو اس لئے اثبات کا شاعر کہا ہے کیونکہ اثبات کی شاعری یقین و اعتماد کے بغیر مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ ضیاء شاہد بنیادی طور پر غزل کا شاعر ہے، اب سے چند سال پہلے اس کا پہلا شعری مجموعہ، زادِ عشق منظرِ عام پر آیا تو اس سے بغاوت کی بو آتی تھی۔ کیونکہ کراچی کے لہو لہو حالات نے ضیاء شاہد کے داخل میں باغیانہ خیالات کی یلغار کردی تھی۔

زخم آرائی شدتِ جذبات کا دوسرا نام ہے۔ ضیاء شاہد وہ شاعر ہے جس نے اپنی ذات کے آئینے میں پوری زندگی کا مشاہدہ کیا ہے۔ ایسے شاعر کو معلوم ہوتا ہے کہ اسے کیا کہنا ہے اور کس زاویے سے کہنا ہے اور کس لہجے میں کہنا ہے۔

اظہار کے معاملے میں ضیاء شاہد اتنا سادہ ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے سامنے کی بات کردی ہو اور سوچو تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سادگی کتنی تہہ دار ہے۔ ضیاء شاہد شعر کی صورت میں دل و دماغ پر جو وار کرتا ہے وہ بڑا کٹیلا ہوتا ہے۔
یہ محبت ہے اس کی زد میں نہ آ
یہ کلیجے پہ تیر مارتی ہے

محبت ایک نازک اور غیر مرئی احساس کا نام ہے۔ جسے لفظوں میں ڈھالنا اور تخلیقی لمس کے ساتھ منکشف کرنا خاصا دشوار کام ہے۔ جسے ضیاء شاہد نے بڑی خوبصورتی سے نبھایا ہے۔
مجھے لوگوں نے آ کر یہ بتایا
میں تیرے شہر میں دیکھا گیا ہوں
اک مدت سے اجنبی تم ہو
اس پہ جینے کی آس بھی تم ہو

زخم آرائی کا سفر ضیاء شاہد کی ذات کا سفر ہے اس سفر میں محبت کا سفر ذات سے ابھر کر ماورائے ذات ہوگیا ہے۔ فنا فی العشق ہونا دراصل من و تو کی دوریاں مٹانے کا نام ہے۔
آکھو نی مینوں رانجھا آکھو، ہیر نا اکھے کوئی

فنا فی العشق کی اسی منزل پر پہنچ کر زخم آرائی کا شاعر کہتا ہے،
دل تو کہتا ہے جانے کیا کیا کچھ
مختصر یہ کہ زندگی تم ہو
اب میں پہنچا ہوں اس نتیجے پر
میں نہیں ہوں یہ بس تم ہی تم ہو

ضیاء شاہد فن میں، کاتا اور لے دوڑی، کے قائل شاعر نہیں ہیں۔ زخم آرائی کا ایک ایک لفظ ایک ایک مصرعہ گواہ ہے کہ شاعر نے تخلیقِ فن میں مکمل دیانتداری سے کام لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ضیاء شاہد کی ہر نظم اور ہر غزل میں تکمیل کا احساس ہوتا ہے۔
مجھے معلوم ہے ننھا سا اک جگنو
اکیلے تیرگی سے لڑ نہیں سکتا
سویرا کر نہیں سکتا
مگر پھر بھی
میں جگنو بن کے اتروں گا
کسی دن دشتِ ظلمت میں
فنا ہوجاؤں گا لیکن
نویدِ صبح کی روشن لکیریں چھوڑ جاؤں گا
غرورِ تیرگی کو میں کسی دن توڑ جاؤں گا

پختہ کار شاعری پڑھنے کے لئے ''زخم آرائی'' ایک عمدہ مجموعہ ہے جسے علی زبیر پبلی کییشنز، 10 سی گراؤنڈ فلور فیز فائیو صبا کمرشل کراچی نے شائع کیا ہے۔ 176 صفحات کے اس مجموعے کی قیمت 300 روپے ہے جو صفحات کے لحاظ سے نہایت مناسب ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔