باادب با ملاحظہ ہوشیار
سول اسپتال کراچی کے گنجان علاقے میں واقع ہے، اس کے اردگرد غریب بستیاں آباد ہیں،
لیاری کی بسمہ شاہی پروٹوکول کی نذر ہو گئی۔ صرف دس ماہ کی بچی سول اسپتال کراچی کے دروازے پر اپنے باپ کی گود میں مر گئی۔ بسمہ کا باپ ایک گھنٹے تک اپنی ننھی کو اٹھائے ادھر ادھر بھاگتا رہا، مگر بادشاہ سندھ حکومت کے احکامات بجا لانے پر مامور پولیس والوں نے بسمہ کے باپ کی ایک نہ سنی اور جب شاہی قافلہ اپنا کام کر کے واپس چلا گیا تو بسمہ بھی روانہ ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر نے بسمہ کے باپ فیصل سے کہا ''دس منٹ پہلے بچی آ جاتی تو اس کی جان بچائی جا سکتی تھی''
سول اسپتال کراچی کے گنجان علاقے میں واقع ہے، اس کے اردگرد غریب بستیاں آباد ہیں، اسی لیے زیادہ تر غریب لوگ ہی اس اسپتال کا رخ کرتے ہیں۔ اس روز پاکستان کے چند بڑے شاہی گھرانوں میں سے ایک گھرانے کا شہزادہ ٹراما سینٹر کا افتتاح کرنے آ رہا تھا۔ شہزادے کی اپنے محل سے روانگی سے بہت پہلے سول اسپتال کے ارد گرد کا علاقہ ''نوگو ایریا'' بنا دیا تھا، سول اسپتال میں مریضوں کے لواحقین کو نکال دیا اور علاقہ ہر لحاظ سے ''صاف'' کر دیا گیا، شہزادہ اپنے محل بلاول ہاؤس سے روانہ ہونے والا تھا، پولیس سارجنٹ شہزادے کے لیے کیے گئے خالی روڈ پر خطرے کا سائرن بجاتا تیز رفتاری سے گزر رہا تھا، اس سائرن کی آواز کہہ رہی تھی، نگاہ روبرو باادب باملاحظہ ہوشیار، شہزادہ کی سواری آ رہی ہے اور پھر پچیس تیس ہیبت ناک سیاہ چمچماتی گاڑیوں کے جلوس میں شاہی قافلہ تیز رفتاری سے ہوشیار خبردار والا سائرن بجاتا سب کو دہلاتا ہوا گزر رہا تھا۔
لیاری کی بسمہ مر گئی، اے بسمہ کی ماں ''تیری بچی تھی بہت بیمار آخر مر گئی''، بدنصیب بسمہ کے لیے زندگی کا راستہ ایک شہزادے نے روک دیا تھا، جس کی جان رعایا سے کہیں زیادہ قیمتی تھی، شاہی دربار کا ایک وزیر کہہ رہا تھا ''بلاول صاحب ہمارے لیے سب سے زیادہ اہم ہیں، اگر ان کو کچھ ہو جائے تو اثرات پورے پاکستان پر ہوں گے''۔ شاہی وزیر ٹھیک کہہ رہا تھا اب تو غریبوں کو سمجھ آ جانی چاہیے۔
ایک شاہی وزیرنی کہہ رہی تھی ہم نے تو سول اسپتال کا راستہ بند ہی نہیں کیا، جس پولیس افسر نے یہ کیا ہے اس کے خلاف انکوائری کریں گے اور جس ڈاکٹر نے یہ کہا کہ بچی دس منٹ پہلے آ جاتی تو بچی کی جان بچ سکتی تھی، ہم اس ڈاکٹر کی بھی انکوائری کریں گے۔
ہاں!
بالکل یہ بھی صحیح کہہ رہی ہیں، ان وزیرنی صاحبہ کا جوان بیٹا چند سال ہوئے حالات کا شکار ہوا تھا، مگر بسمہ کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے وہ ''ماں'' نہیں وزیرنی بول رہی تھی۔ اے بسمہ کی ماں! ابو کہہ رہے ہیں کہ ''آج ہماری بچی ہمارے درمیان موجود نہیں ہے، وہ بغیر علاج چلی گئی''۔ میں پھر تجھے دلاسہ دیتا ہوں۔ یہ غریبوں کے شاعر حبیب جالب کے الفاظ ہیں۔ ان کا 12 سال کا پہلا پہلا بچہ طاہر عباس اسپتال میں مر گیا تھا۔ بچے کا دسواں تھا کہ اس وقت کے بادشاہ کے اسلحے سے لیس جوان آ گئے اور جالب کو لے گئے، جالب نے قید خانے سے اپنی بیوی کو لکھا تھا بس ایک مصرع:
''اپنا بچہ تھا بہت بیمار آخر مر گیا'' ان شاہی خاندانوں کی بھینٹ روزانہ سیکڑوں غریب بچے چڑھ رہے ہیں اور نہ جانے کب تک چڑھتے رہیں گے؟'' بسمہ کی ماں! تم چاہتی ہو اب کوئی بسمہ پروٹوکول کی نذر نہ ہو، اچھا! اوپر والا تمہاری درد بھری آواز سن لے، ٹریفک میں پھنسی ایمبولینس کی دردناک چنگھاڑیں سب نے سنی ہوں گی، اور اندر پڑے ہوئے مریض کا تڑپنا مگر بے ہنگم ٹریفک میں پھنسی ایمبولینس پھنسی ہی رہ جاتی ہے، سامنے اسپتال ہے اور ''موت'' راستہ نہیں دیتی اور پھر ہم سب کہتے ہیں، اﷲ نے یونہی لکھی تھی۔ ابھی مہینہ دو مہینہ ہوئے ہیں، شہزادی آصفہ چڑیا گھر کی سیر کو نکلیں، پولیس نے سارا چڑیا گھر خالی کروا لیا۔ سیر و تفریح کے لیے آنے والے بچوں اور ان کے والدین کو نکال باہر کیا اور شہزادی نے خوب سیر کی، وہ بھی تو بچے تھے جو کتنے شوق سے چڑیا گھر کی سیر کو آئے تھے، ان کے ننھے سے دل پر کیا گزری ہو گی، وہ کیا سوچ رہے ہوں گے کہ ''ہمیں کیوں نکال دیا گیا''۔
کراچی شہر کی آبادی دو کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے، اسی طرح لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، راولپنڈی، حیدرآباد بھی ایک کروڑ سے اوپر کی آبادی والے شہر بن چکے ہیں، شہروں کی بڑی شاہراہوں پر ایک ٹریک پر پٹی لگا کر ایمبولینسز کے لیے مخصوص کر دیا جائے اور شدید ٹریفک کے اوقات میں ایمرجنسی ٹریک کو ایمبولینسز کے لیے خالی رکھا جائے، اس پابندی کے لیے عوام کو بھی باشعور شہری ہونے کا ثبوت فراہم کرنا پڑے گا۔ کراچی اور لاہور میں دیکھا گیا ہے کہ اتنے انڈرپاسز اور فلائی اوورز بننے کے بعد بھی ٹریفک جام کا مسئلہ رہتا ہے، خصوصاً کراچی میں تو ایسا ہے جہاں شہر کی تین بڑی شاہراہوں شارع فیصل، ایم اے جناح روڈ اور یونیورسٹی روڈ پر شام 5 بجے سے رات 9 بجے تک شدید ترین ٹریفک جام رہتا ہے، کم و بیش یہی صورتحال دوسرے بڑے شہروں کا بھی ہے حکومتی تقاریب گورنر ہاؤس وزیر اعلیٰ ہاؤس، وزیر اعظم ہاؤس، ایوان صدر تک محدود کر دیں۔
یہ دنیا پل دو پل کی کہاں ہے، پل دو پل کے عیش کی خاطر کیا جھکنا، کیا دبنا، آخر سب کو ہے مر جانا سچ ہی بولتے جانا، (میں نے دوسرے مصرع میں ''لکھنے'' کی جگہ ضرورتاً بولتے استعمال کر لیا ہے اس جسارت پرجالب سے معذرت) تو یہ بیچارے غم کے بارے مجبور، مغفور وزیر اور وزیرنیاں بادشاہ سلامت اورشہزادے شہزادیوں کے لیے اتنا بولتے ہیں، انھیں خیال کرنا چاہیے کہ موت بھی آنی ہے مگر ان کا بھی قصورنہیں یہ درباری لوگ ہر دور میں رہے ہیں اور ایسے ہی بولتے بولتے مر گئے ہیں اور آج ان کا نام و نشان تک نہیں ہے، بسعودہ ادق اور عبدالوحید خان کو کون جانتا ہے، خدارا! اتنا بھی نہ بولیں، بلاوجہ بلاضرورت میری آنکھوں سے وہ منظر اوجھل ہی نہیں ہوا کہ بیچارہ باپ اپنی قریب المرگ بچی کو بانہوں میں اٹھائے ادھر ادھر بھاگ رہا ہے۔
صفا مرویٰ میں ایک ماں بھی اپنے بچے کی خاطر اسی طرح دوڑ رہی تھی، اتنا انسانی فریضہ تو ہمارے پولیس والوں کو بھی ادا کر دینا چاہیے کہ بسمہ کے باپ کی سیکیورٹی آلے کے ذریعے چیکنگ کر کے اسے اسپتال جانے دیتے، ایک جان تو بچ جاتی ایک ماں کی گود خالی نہ ہوتی! ایک باپ مردہ بچی کو لے کر گھر نہ لوٹتا! مگر کس نے سنی ہے اس نگری میں دل کی بات۔ کس پہ ہوا آہوں کا اثر خاموش رہو۔
بسمہ نے اپنی ننھی سی جان دے کر بڑا کام کیا ہے، فاصلے کم کر دیے ہیں، دل و دماغ میں لگے زنگ دھو دیے ہیں، جمود توڑ دیا ہے، ایک باپ کا اپنی بچی کو بانہوں میں لے کر ادھر ادھر دوڑنا، نہیں بھلایا جا سکے گا نہیں بھلایا جا سکے۔
یہی نظام تو بدلنا ہے! انصاف رہ گیا ہے کہاں! کچھ پتہ نہیں بہت دکھ ہے، بہت درد ہے، سارے دکھ درد غریبوں ہی کے لیے ہیں، جالب کا دکھ درد میں ڈوبا ہوا شعر:
گھر دیکھ لیا اپنا زمانے کے دکھوں نے
یہ دکھ کسی بے درد کے گھر کیوں نہیں جاتے
بسمہ کئی سوال چھوڑ گئی ہے۔ ہمیں سوچنا ہو گا۔ کچھ کرنا ہو گا۔ جواب تلاش کرنا ہوں گے۔ یہ بادشاہ، شہزادگان سارے ملک میں ہیں۔