دوسرا راجکپور

اس ہجوم میں سے کچھ لوگ آگے بڑھ کر آٹو گراف پلیز کہتے ہوئے اس نوجوان سے آٹو گراف لیتے تھے


یونس ہمدم December 25, 2015
[email protected]

یہ پچاس سال سے بھی زیادہ پرانی بات ہے۔ جب بمبئی کے تفریحی مقامات پر ایک خوبرو نوجوان جہاں کہیں بھی جاتا تھا تو لڑکے اور لڑکیوں کا ایک ہجوم اس نوجوان کو گھیرے میں لے کر راج صاحب، راج صاحب کی آوازیں لگاتا تھا اور اس نوجوان کو اپنے نزدیک پاکر خوشی سے پھولے نہ سماتا تھا۔

اس ہجوم میں سے کچھ لوگ آگے بڑھ کر آٹو گراف پلیز کہتے ہوئے اس نوجوان سے آٹو گراف لیتے تھے اور وہ نوجوان قدرت کی اس مہربانی سے محظوظ ہوتے ہوئے بڑی خوش دلی کے ساتھ آٹو گراف دینے میں بھی نہیں ہچکچاتا تھا اور پھر اپنی تنہائی میں اس دلچسپ مذاق پر کھل کر قہقہے بھی لگاتا تھا۔ اور وہ نوجوان تھا سید کمال جو راجکپور کا ہم شکل تھا اور وہ اپنے آئیڈیل اداکار راجکپور سے ملنے بمبئی گیا تھا، پھر جب سید کمال پرتھوی راج اسٹوڈیو میں اداکار راجکپور سے مل رہا تھا تو راجکپور بھی اس نوجوان کو دیکھ کر چند لمحوں کے لیے خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوگیا تھا۔

سید کمال میں راجکپور سے کمال کی شباہت تھی اور اس وقت اسٹوڈیو میں جتنے بھی لوگوں نے کمال کو دیکھا تھا تو وہ حیران رہ گئے تھے۔ سید کمال کی اپنے من پسند اداکار راجکپور سے یہ پہلی اور بڑی یادگار ملاقات تھی۔ اس ملاقات کے بعد سید کمال نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ اب وہ صرف اور صرف اداکار ہی بنے گا۔ اور پھر وقت بدلا، حالات بدلے، قسمت بدلی اور سید کمال لاہور کی فلم انڈسٹری کے دروازے تک پہنچ گیا۔ یہ وہ دور تھا جب مصنف فلمساز و ہدایت کار شباب کیرانوی کو اپنی نئی فلم کے لیے ایک نئے ہیرو کی تلاش تھی، شباب کیرانوی کی نظروں میں جیسے ہی یہ چہرہ آیا تو بھاگیا ۔ شباب کیرانوی نے سید کمال کو ایک دن اپنے آفس میں بلاکر اس سے کہا تم اپنی شکل و شباہت سے دوسرے راجکپور لگتے ہو، میں تمہیں اپنی فلم میں کاسٹ کرنا چاہتا ہوں۔ میں پیسے تو تمہیں زیادہ نہیں دوں گا مگر ہیرو کا کردار دوں گا۔ سید کمال نے یہ سن کر بے ساختہ کہا تھا۔

نیکی اور پوچھ پوچھ۔ میں تو مفت میں بھی کام کرنے کے لیے تیار ہوں سر۔ اور پھر اس پہلی ملاقات کے بعد سید کمال کچھ دنوں کے بعد شباب کیرانوی کی دوسری فلم ''ٹھنڈی سڑک'' میں ہیرو کا کردار ادا کر رہا تھا۔

اور اس کے ساتھ جو نئی اداکارہ ہیروئن تھی وہ مسرت نذیر تھی جس نے بعد میں فلمی دنیا میں اپنی اداکاری کی دھوم مچا دی تھی اور پاکستان کی وہ پہلی ایکشن ہیروئن بن کر بھی مشہور ہوئی تھی۔ شباب صاحب نے ''ٹھنڈی سڑک'' میں سید کمال کا گیٹ اپ بالکل راجکپور ہی کی طرح کیا تھا۔

اور اس کے ہاتھ میں وائلن بھی تھمادیا تھا۔ جو راجکپور کا ٹریڈ مارک تھا۔ اپنی فلم ''ٹھنڈی سڑک'' کے لیے شباب کیرانوی نے اس دور کے صحافی اور اپنے دوست علی سفیان آفاقی کی کہانی کو فلم کے اسکرپٹ میں ڈھالا تھا۔ آفاقی صاحب نے بھی پہلی بار ''ٹھنڈی سڑک'' کے مکالمے اور اسکرین پلے تحریر کیے تھے۔ یہ فلم 1957 میں بنائی گئی تھی پہلی فلم ''جلن'' کی ناکامی کے بعد ''ٹھنڈی سڑک'' ان کی دوسری فلم تھی، جس نے بڑی کامیابی حاصل کی تھی۔ کمال اور مسرت نذیر کی اس فلمی جوڑی کو فلم بینوں نے بھی بہت پسند کیا تھا۔ ''ٹھنڈی سڑک'' میں مسرت نذیر کو نرگس اور سید کمال کو راجا کے نام سے ایک خوبصورت گیت میں بڑے خوبصورت انداز میں فلمایا گیا تھا۔یہ ایک دوگانا تھا۔ جس کے بول تھے:

او میری نرگس آجا میں بجا رہا ہوں باجا
او فور ٹوئنٹی راجا اس حرکت سے باز آجا

یہ گیت گلوکارہ زبیدہ خانم اور فلم کے موسیقار محمد علی منو نے خود ہی گایا تھا۔ اور اس دور میں یہ گیت کافی ہٹ ہوا تھا۔ ''ٹھنڈی سڑک'' کے بعد اداکار کمال پر شہرت کے دروازے کھلتے چلے گئے تھے اور کمال نہ صرف یہ کہ راجکپور کا ہم شکل تھا بلکہ اداکارانہ صلاحیتیں بھی اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں۔ اور اس کا منچلا انداز فلمسازوں کو اپنی طرف راغب کرنے کا باعث بنا تھا۔ اس نے یکے بعد دیگرے بہت سی فلموں میں بطور ہیرو کام کیا۔

1960 سے 1970 تک اداکار کمال کی بے مثال فلمی کامیابیوں کا بھرپور دور تھا اور فلم ''بہن بھائی'' سے لے کر فلم ''توبہ'' تک کمال نے اتنی سپرہٹ فلمیں دی تھیں کہ اداکار کمال نے بس کمال ہی کردیا تھا۔ ہدایت کار حسن طارق کی فلم ''بہن بھائی'' میں کمال اور حسنہ پر فلمایا گیا ایک گیت اس زمانے میں بڑا مقبول ہوا تھا جس کے بول تھے ''ہیلو... ہیلو مسٹر عبدالغنی'' اور ان دنوں بچے بچے کی زبان پر ہوتا تھا۔ لاہور میں دس بارہ سال کا ایک طویل عرصہ بڑی کامیابی سے گزارنے کے بعد جب کمال کراچی آیا تو اس نے بحیثیت فلمساز و ہدایت کار اپنی ذاتی فلم ''شہنائی'' بنائی پھر ''ہنی مون'' بناکر یہ باقاعدہ کامیاب فلمسازوں کی صف میں بھی شامل ہوگیا تھا۔

فلم ''شہنائی'' میں اس کی ہیروئن دیبا تھی، فلم ''ہنی مون'' میں اس کی ہیروئن حسنہ تھی، پھر اداکارہ نشو کو ہیروئن لے کر ایک اور منفرد مزاحیہ فلم ''انسان اور گدھا'' کے نام سے بنائی، جو فلم بینوں میں کافی پسند کی گئی تھی۔ کمال نے اپنی فلم ''یہاں سے وہاں تک'' میں اداکارہ ممتاز کو کاسٹ کیا تھا، پھر اپنی فلم ''روپ بہروپ'' میں نشو کو لے کر فلم بینوں کو ایک اور خوبصورت فلم دی۔ اداکار کمال نے محمد علی، نیلم، وحید مراد کے ہوتے ہوئے اپنے آپ کو ان کے برابر منوایا ۔

ہدایت کار منور رشید کی فلم ''نئی لیلیٰ نیا مجنوں '' میں بھی کمال نے کمال کی مزاحیہ اداکاری کی تھی۔ کمال نے کراچی کی بھی چند فلمیں کی تھیں جن میں دوسری ماں، درد دل اور میرے بچے میری آنکھیں وغیرہ شامل ہیں۔ کمال نے کچھ عرصہ سیاست میں بھی دخل اندازی کی اور سیاست کے نام پر ایک فلم بھی بنائی مگر اس فلم سے کمال کو نہ سیاسی فائدہ اور نہ ہی مالی منفعت حاصل ہوئی تھی۔ اور سیاست میں حد درجہ جھوٹ اور مکاری دیکھ کر کمال نے سیاست سے توبہ کرلی تھی۔

اداکار کمال کے کریڈٹ پر پاکستان ٹیلی ویژن کئی پروگراموں کے علاوہ ایک زبردست ڈرامہ سیریل ''کشکول'' بھی شامل تھا۔ ڈرامہ ''کشکول'' میں کمال کے بیٹے کا کردار ان کے سگے بیٹے غالب کمال نے کیا تھا اور بہت اچھی کردار نگاری کی تھی۔ مگر غالب کمال اداکاری کے میدان میں زیادہ جم کر نہ آسکا۔

سید کمال میرٹھ کے ایک سید گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ اس کے ہی گھرانے کے ایک فرد سید نصیر الدین شاہ نے بھی ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں اپنے آپ کو منوایا ہے اور ایک منفرد ہیرو بن کر فلمی دنیا کی تاریخ میں اپنی جداگانہ حیثیت تسلیم کرا چکا ہے۔ کمال کی یہ خوش قسمتی بھی رہی ہے کہ کمال نے پاکستانی فلم انڈسٹری کی ہر مشہور ہیروئن کے ساتھ کام کیا جن میں زیبا، دیبا، شبنم، نشو، رانی، ممتاز، حسنہ، غرض یہ جس ہیروئن کے ساتھ بھی ہیرو آیا اسے کامیابی حاصل ہوئی اور اس کی سپرہٹ فلموں کی تعداد دیگر ہیروز کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی رہی۔ کمال کبھی بھی ایک ٹائپ ہیرو بن کر نہیں رہا۔

کمال کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ فلمی دنیا کا نامور ہیرو ہوتے ہوئے شراب اور شباب سے ہمیشہ دور دور ہی رہا، اس نے اپنی ساری توجہ صرف اپنی اداکاری پر ہی رکھی۔

اداکار کمال جب لاہور کی انڈسٹری کو خیرباد کہہ کر کراچی آیا تو اس نے اپنی فلمی زندگی پر ایک کتاب بھی لکھی اور اس کتاب کی تقریب کراچی جیم خانہ میں منعقد ہوئی تھی اس تقریب میں کراچی کے ادیبوں، صحافیوں کی کثیر تعداد شامل تھی اور میں نے بھی اس شاندار تقریب میں شرکت کی تھی۔ اس کتاب کے بعد کمال اداکار کے ساتھ ساتھ ایک ادیب بھی ہوگئے تھے، ان کی کتاب کی تحریر بڑی شگفتہ اور واقعات بڑے دلچسپ انداز میں لکھے گئے تھے۔ کمال نے ڈیفنس کے علاقے میں ایک فلم اکیڈمی کی بھی بنیاد ڈالی تھی۔ اس اکیڈمی کا بڑے شاندار انداز میں افتتاح کیا تھا۔ اور بے شمار نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس فلم اکیڈمی سے وابستہ ہوگئے تھے۔

زندگی کے آخری چند سال میں جب کمال کافی بیمار ہونے کے بعد کچھ صحت یاب ہوئے تو پھر بالکل درویشانہ انداز اختیار کرلیا تھا۔ وہ ڈیفنس میں اپنے گھر کی قریبی مسجد میں پانچوں وقت کی باجماعت نماز پابندی سے پڑھا کرتے تھے اور کبھی کبھی تو لوگوں نے کمال کو مسجد کے صحن کی صفائی بھی کرتے ہوئے دیکھا تھا۔

ایک مشہور اداکار شہرت کی چمک دمک کا عادی فنکار اب بالکل بدل چکا تھا۔ اس کے روز و شب میں ایک انقلابی اور روحانی تبدیلی آچکی تھی اور کمال صاحب کے بارے میں یہ بات بھی سننے میں آئی تھی کہ کبھی کبھار کمال مسجد میں اذان بھی دے دیا کرتے تھے اور پھر یکم اکتوبر 2009 میں وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ خدا ان کے درجات بلند کرے (آمین)۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔