سلسلہ ٹوٹا نہیں ہے درد کی زنجیر کا
اللہ رکھی نے پوچھا صاحب کل کہاں الیکشن ہے۔ میں نے کہا کراچی میں اور پنجاب میں۔
KHAIRPUR:
اللہ رکھی نے پوچھا صاحب کل کہاں الیکشن ہے۔ میں نے کہا کراچی میں اور پنجاب میں۔ اور یہ بلدیات کے تیسرے مرحلے کے الیکشن ہیں۔ لیکن صاحب یہ تیسرا مرحلہ کیا ہے؟ اور ایک ساتھ ہی الیکشن کیوں نہیں کرا دیے گئے؟ اس نے دوبارہ سوال کیا۔ میں نے اسے سمجھانے کے انداز میں بتایا کہ شاید الیکشن کمیشن کے لیے ایک دن میں ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔ اس نے کچھ سمجھنے، نا سمجھنے کے انداز میں گردن ہلائی اور پھر سے کام میں مشغول ہوگئی۔ اللہ رکھی میری ملازمہ ہے۔ طبیعت اور حالت دونوں سے غریب۔ سیدھی سادی عورت ہے۔ اس کا شوہر 5 بچے پیدا کرنے کے بعد ہر وقت ہیروئن کے نشے میں دھت، بڑے بڑے بال،گھنی داڑھی کے ساتھ میں نے اسے اکثر سڑکوں پر مارے مارے پھرتے دیکھا۔کپڑے پھٹے پرانے، میلے اس قدر کہ چکٹ۔ اس نے کام کاج چھوڑ دیا تھا۔ اللہ رکھی بے چاری کیا کرتی۔ کچھ دن اپنے میاں کی منت سماجت کی۔ بچوں کا واسطہ دیا۔ گھر کی حالت زار کی طرف توجہ دلائی۔ پھر سہم کر چپ ہو رہی۔ کیونکہ جواب میں اسے نشئی شوہر کی لاتیں اور گھونسے کھانے پڑے۔
رفتہ رفتہ وہ بدلے ہوئے حالات کی عادی ہوتی گئی۔ کیا کرتی 5 بچوں کا ساتھ جن میں سے ایک بھی اس قابل نہیں کہ اس کا سہارا بنے۔ آخر اس نے گھر سے باہر نکلنے کی ہمت کی۔ مجھے یاد ہے جب وہ پہلی بار میری مسز سے ملی اور خیرات واپس کرتے ہوئے اس نے گھر میں کام کاج کرنے کی استدعا کی۔ مسز نے اس سے اگلے دن کا کہہ کر مجھ سے مشورہ کیا۔ میں نے اسے دیکھ بھال کی تاکید کرتے ہوئے نتیجہ اسی پر چھوڑ دیا۔ مسز نے آخر کار اسے رکھ لیا۔ یہ کوئی 5,6 سال پہلے کی بات ہے۔ تبھی سے اللہ رکھی ہمارے یہاں ملازمہ ہے۔ اب اس کے ساتھ کبھی کبھار اس کے بچے بھی آجاتے ہیں جو کام میں ماں کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ خاص طور پر اس کی بڑی بیٹی جسے اللہ رکھی انتہائی نامساعد حالات میں پڑھا بھی رہی ہے اور سینا پرونا بھی سکھا رہی ہے۔ بچوں کے معاملات میں میری مسز بھی اس کی خاص مدد کرتی رہتی ہے۔ یہ ہے اللہ رکھی کا مختصر سا تعارف جسے کروانے کی وجہ آپ تک ایک عام آدمی کی حالت زار پہنچانے کے علاوہ اس کے وہ مسائل ہیں جنھیں انرجی بحران، نئے ڈیمزکی تعمیر ، آئی ایم ایف کے طویل المدت مالیاتی معاہدے اور دیگر معاملات سے قبل حل ہونا چاہیے۔حقیقت یہ ہے کہ غریب، مفلوک الحال قوم کو سانس لینے میں بھی دقت کا سامنا ہے کیوں کہ ان کی گردن پر پہلے سے ہی مہنگائی کے عفریت کا بھاری بھرکم پاؤں دھرا ہے۔ جس میں ہر آنے والی حکومت دباؤ بڑھا دیتی ہے۔ کبھی کچھ کبھی کچھ کہہ کر۔
میں اس کی تفصیل میں جاؤں تو طویل تقریر کرنی پڑے گی لیکن مختصراً مدعا ہر حکومت کو ملک بچانے کا درپیش۔ اور وہ کبھی قوم کی حفاظت کا نہیں رہا۔ جو ہر پل ٹوٹ رہی ہے۔ بکھر رہی ہے۔ جس کا دم گھٹ رہا ہے۔ اسے یا اس کے لاشے کو کھینچے پھرتے ہیں اندرون و بیرون ملک دوروں میں۔ جلسوں، جلوسوں میں، نعروں، دعوؤں میں۔ حال یہ ہے کہ آمدن وقت کے ساتھ گھٹتی چلی گئی۔ اسحاق ڈار کے دعوے بڑھتے۔ بجٹ بنتے رہے۔ عوام کی فلاح و بہبود کے نت نئے منصوبے متعارف کروائے جاتے رہے۔ عوام خودکشیاں کرتے رہے۔ ملکی Poverty کی بات ہوتی رہی۔ غربا کی بیٹیاں گھروں میں شادی کا انتظام نہ ہونے کے باعث بیٹھی رہ گئیں۔ کبھی کبھی یقین ہونے لگتا ہے کہ قرآن کریم کی ''سورۂ منافقون'' پاکستان کی سیاسی و غیر سیاسی حکومتوں کے لیے ہی نازل ہوئی ہے۔ یہاں منافقت اس قدر ڈھٹائی سے کی جاتی ہے۔ جھوٹ اس قدر فراوانی سے بولا جاتا ہے کہ الامان۔ حالانکہ میں خود بھی اپنی تحریروں میں جمہوریت کے تسلسل کی بات کرتا رہا ہوں۔ لیکن پھر عوام کی حالت زار کو دیکھ کر مایوسی ہونے لگتی ہے کہ یہ کسی نظام کے پختہ ہونے تک قوم کی حالت میں بچ بھی پائیں گے؟
اگر دیکھیں تو یا غور کریں تو ظاہر ہوجائے گا ملک میں خودکش بمبار کون ہیں؟ ایک ذرا سوچیے جنت کا راستہ تو ہر مسلم پر بہت واضح ہے۔جہنم کا بھی۔ پھر یہ کون ہے جو پیٹ سے Bomb باندھ کر خود بھی اڑ جاتا ہے۔ کیا ساری دنیا کے مسلمان جنت میں جانے کے لیے اتنی ہی عجلت میں ہیں؟ بالکل نہیں۔ بلکہ یہ دراصل وہی لوگ ہیں جو شدید غریبی سے تنگ آکر خودکشی کرتے ہیں۔ اولاد جیسی نعمت کو دریا برد کردیتے ہیں یا اس پر ''برائے فروخت'' کا اشتہار آویزاں کردیتے ہیں۔ لیکن جب ایسا کوئی واقعہ میڈیا پر نشر کیا جاتا ہے تو ہم اسے بس ایک خبر کی طرح پڑھتے یا دیکھتے ہیں۔ پھر اپنی اچھی حالت کا جائزہ لے کر دل ہی دل میں مطمئن ہوتے ہوئے مرنے والے شخص کو نشئی قرار دے کر واقعہ بھول جاتے ہیں۔ اس وقت ہم حادثے کی سنگینی کا اندازہ نہیں کرتے۔ یہ نہیں سوچتے کہ آج جو شخص اپنے بچے بیچ رہا ہے۔ خودکشی کر رہا ہے۔
کل وہ طالبان سے، داعش سے کیوں نہیں ملے گا۔ جہاں اسے زندگی کی بہترین قیمت بصورت دولت مل رہی ہے۔ جس سے اس کے بچے، اہل خانہ پل جائیں گے۔ غربت کی دلدل سے باہر آجائیں گے۔ میں دعوے سے کہتا ہوں اور دعوت دیتا ہوں پاک آرمی کو، حکومت کو، تمام اکابرین ملت کو کہ کبھی انھیں گرفتار کر کے ان سے خودکش بننے کی اصل وجوہات دریافت کریں۔ معاملہ واضح ہوجائے گا۔ آپ کو علم ہوگا تو آپ شاید خود بھی حیران ہوں کہ معاملات کس قدر بھیانک رخ اختیار کرگئے ہیں۔
قارئین کرام! اللہ رکھی انھی مصیبت زدہ لوگوں میں سے ایک ہے۔ جن کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ پچھلے ہفتے اسے چھاتی کے کینسر نے آلیا۔ ہمارے شہر میں کینسر کے ایک اسپتال بنام"Norim" کے ڈاکٹرز نے بعد از تشخیص اسے یہ خوفناک اطلاع دی۔ خبر سنتے ہی اس کے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔ وہ پہلی فرصت میں میری مسز سے ملی۔ مسز نے مجھے بتایا کہ اللہ رکھی کو Chest Cancer ہوگیا ہے۔ وہ بتاتے ہوئے بہت گھبرائی ہوئی تھی، مسز کے تسلی دینے پر پھوٹ پھوٹ کر رودی۔ سوال کیا۔ علاج کیسے ہوگا؟ بچوں کا کیا ہوگا؟ اگر وہ بیماری کے باعث کام نہ کرسکی تو گھر کیسے چلے گا؟ وہ بولتی چلی گئی۔ اس کے سوال بھی ختم ہونے میں نہیں آرہے تھے۔ مسز کے تسلی دینے پر بھی اس کی گھبراہٹ کم نہ ہوسکی۔ اگلے دن میں اس سے ملا تو وہ بہت خاموش تھی۔ میرے پوچھنے پر ہوں ہاں کرتی رہی۔ آخر میں نے اس سے کہا کہ وہ کام چھوڑ کر مجھے اپنی تمام رپورٹس لاکر دکھائے۔ وہ چلی گئی اور فائل لے آئی۔ میں نے اس سے فائل لی اور کینسر اسپتال مذکورہ ڈاکٹر سے ملنے چلا گیا۔ ڈاکٹر نے مجھے کیس کی مکمل تفصیل سے آگاہ کیا جو تسلی بخش نہیں تھی۔ لیکن کوشش کی جاتی تو کچھ وقت ملنے کا امکان تھا۔ لہٰذا علاج فوری طور پر شروع کرادیا گیا جو ہنوز جاری ہے۔ اور اللہ رکھی پہلے سے بہتر ہے۔لیکن میں نے اسے وہ نہیں بتایا جو ڈاکٹر نے مجھے بتایا تھا کہ اس کے پاس زیادہ وقت نہیں۔ بلکہ میں نے اسے بتایا کہ اس کا مرض قابل علاج ہے۔ وہ جی سکے گی۔ ابھی بہت دنوں تک۔ لیکن آج جب میں ٹیلی ویژن دیکھ رہا تھا حکومت منصوبے، اپوزیشن لیڈر کی باتیں سن رہا تھا۔ تو مجھے اللہ رکھی یاد آگئی۔ خاص طور پر اس کا یہ سوال کہ وہ اپنی بچی کی شادی تک تو جی سکے گی نا؟