تن تنہا حملہ کرنے والے ’’لون ولف‘‘

امریکا اور مغرب کی پالیسیوں سے برگشتہ جنگجو اب اکیلے ہی جوابی حملے کرنے لگے


امریکا اور مغرب کی پالیسیوں سے برگشتہ جنگجو اب اکیلے ہی جوابی حملے کرنے لگے۔ فوٹو: فائل

یہ 12ستمبر2015ء کی بات ہے' عرب میڈیا نے القاعدہ کے چیف ' ایمن الظواہری کا نیا وڈیو پیغام جاری کیا ۔اس میں موصوف نے یہ اپیل کی:

''جو مسلمان کسی بھی طرح مغربیوں (Westrens) کو نقصان پہنچا سکتے ہیں' وہ تیار ہو جائیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ مغرب کے خلاف ہماری جنگ کو ان کے گھروں تک پہنچا دیں۔ میری خصوصاً مسلم نوجوانوں سے اپیل ہے کہ وہ تسارنیف اور کواشی بھائیوں کی مثال مد نظر رکھیں جنہوں نے بالترتیب بوسٹن میراتھن بم دھماکہ اور شارلی ایبڈو حملہ انجام دیا۔''

اس تازہ پیغام میں ایمن الظواہری نے یہ بھی کہا کہ وہ شام و عراق کی اسلامی ریاست المعروف بہ داعش کو ناجائز سمجھتے ہیں، مگر یورپ اور امریکا پر حملے کرنے میں القاعدہ اس کے ساتھ کھڑی ہے۔ ایمن الظواہری کا ویڈیو پیغام نشر ہوتے ہی داعش نے بھی ملتا جلتا بیان جاری کیا۔ اس نے خصوصاً مغربی ممالک میں مقیم افراد سے اپیل کی کہ وہ دشمنوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور جیسے بھی بن پڑے ،ان کو نشانہ بنائیں۔ اسی قسم کا بیان نائیجیریا کی جنگجو اسلامی تنظیم،بوکو حرام نے بھی دیا۔

درج بالا بیانات سے واضح ہے کہ مغربی حکومتوں سے نبرد آزما جنگجو تنظیموں کی حکمت عملی میں تبدیلی آ چکی ۔ وہ اب اپنے پیروکاروں کو حکم دے رہی ہیں کہ جس طرح بھی ممکن ہو' دشمن (مغربیوں) پر حملہ کر کے انہیں نقصان پہنچایا جائے۔

حکمت عملی میں یہ تبدیلی اس لیے آئی کہ القاعدہ اور نہ ہی داعش اتنے کثیر مالی وسائل رکھتی ہے کہ مغربی ممالک میں وسیع پیمانے پر حملے کا منصوبہ بنا سکیں۔ لہٰذا یہ جنگجو تنظیمیں چاہتی ہیں کہ ان کا حمایتی ہر مرد و عورت اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے مغربیوں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے لگے۔

چنانچہ ہم نے دیکھا کہ داعش سے ہمدردی رکھنے والا ایک جوڑا امریکی شہر' سان برنارڈینو میں مسلح ہو کر ایک فلاحی مرکز میں داخل ہوا اور وہاں 14امریکی قتل کر ڈالے۔ اسی طرح لندن کے ایک ریلوے اسٹیشن پر ایک شخص نے یہ کہتے ہوئے مسافروں پر حملہ کر دیا ''یہ شام کے لیے ہے۔''

ماہرین کا کہنا ہے کہ خصوصاً امریکا' برطانیہ اور فرانس میں مقیم داعش اور القاعدہ کے نظریات سے متاثر افراد مستقبل میں شہریوں پر اس قسم کے حملے کر سکتے ہیں۔ تنظیم کی مدد کے بغیر اپنے وسائل سے مذہبی یا نسلی وجوہ کی بنیاد پہ شہریوں پر حملہ کرنے والا اصطلاح میں ''نہتا بھیڑیا'' (Lone Wolf) کہلاتا ہے۔ ماہرین عمرانیات کی رو سے یہ نہتے بھیڑیے سّکہ بند دہشت گردوں سے زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ عموماً ان کی شناخت نہیں ہو پاتی۔

مثال کے طور پر سان برنارڈینو کے شہری' سید فاروق کو ہی لیجیے ۔ وہ فوڈ انسپکٹر کے مناسب عہدے پر فائز تھا۔ غیر مسلم ساتھیوں اور پڑوسیوں کے ساتھ اس کے تعلقات معمول کے مطابق تھے۔ کسی کو گمان بھی نہیں تھا کہ وہ رائفلیں تھام کر اپنے ہی ساتھیوں کو خون میں نہلا دے گا۔

اسی طرح ناروے کے انتہا پسند آندرس بریوک کو لیجیے۔ دنیائے انٹرنیٹ میں پھیلا اسلام مخالف مواد پڑھ کر وہ مسلمانوں سے نفرت کرنے لگا۔وہ اس امر پر جلتا کڑھتا کہ ہم وطن مسلمانوں سے دوستی رکھتے ہیں۔ اسی نفرت نے اسے ہم وطنوں پر حملہ کرنے پر اکسا دیا۔ چنانچہ 22جولائی2011 ء کو بریوک نے بم دھماکے اور فائرنگ کے ذریعے 77 بے گناہ انسان مار ڈالے۔کسی کے وہم وگمان میں نہ تھا کہ بظاہر مہذب و نرم خو دکھائی دینے والا نوجوان ایسا گھناؤنا فعل انجام دے سکتا ہے!

قانون نافذ کرنے والے اداروںکے لیے اس قسم کے نہتے بھیڑیے کو آبادی میں سے ڈھونڈ نکالناتقریباً ناممکن ہے۔ماہرین عمرانیات کا کہنا ہے، بادی النظر میں نہتّے بھیڑیوں کے حملے غیر عقلی اور بے وقوفانہ لگتے ہیں، مگر حملہ آوروں کی نگاہ سے دیکھے جائیں، تو ان میں کچھ مقصدیت نظر آتی ہے۔ وہ یہ کہ یوں حملہ آور کسی قسم کی سیاسی تبدیلی چاہتا ہے۔ اسے امید ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ انسانوں کی ہلاکت حکومتوں کو اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور کردے گی۔

مثال کے طور پر جب برطانوی حکومت نے اپنی فضائیہ کو شام میں بم حملے کرنے کی اجازت دی، تو جلد ہی ریلوے اسٹیشن پر جنم لینے والا واقعہ سامنے آگیا۔ حملہ آور شام کا حوالے دے کر راہ چلتوں پر حملے کرنے لگا۔ اس قسم کے واقعات پہلے بھی جنم لے چکے۔2010ء میں لندن کی طالبہ، روشن آرا چودھری نے یمنی جنگجو لیڈر، انور العولقی کے کئی ویڈیو لیکچر سنے۔ ان لیکچروں میں مغربی استعمار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ لیکچر سن کر روشن آرا چودھری مشتعل ہوگئی۔ حتیٰ کہ اس نے برطانوی رکن پارلیمنٹ، سٹیفن ٹمز پر حملہ کردیا۔ وہ عراق جنگ میں برطانیہ کی شمولیت پر اس سے انتقام لینا چاہتی تھی۔ جب کوئی جذباتی فرد مسلسل جنگجو لیڈروں کے لیکچر سنتا رہے، تو وہ جذبات میں آکر کسی بھی قسم کا انتقامی قدم اٹھا سکتا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ خصوصاً امریکا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی میں کوئی شخص، انفرادی طور پر کسی دہشت گردانہ سرگرمی میں ملوث ہو، تو وہاں مقیم مسلمانوں کی شامت آجاتی ہے۔ تب امریکی رہنما،ڈونالڈ ٹرمپ جیسے انتہا پسند لیڈر بیک جنبش زبان تمام مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیتے اور اسلام کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرنے لگتے ہیں۔ اس پروپیگنڈے کے زیر اثر آنے والے جذباتی لوگ پھر مغرب میں مقیم مسلمانوں، اسلامی مراکز اور مساجد پرحملہ کرتے ہیں۔ یوں دہشت گردی کا محض ایک بھی واقعہ امریکا، برطانیہ وغیرہ میں اسلامو فوبیا یا اسلام سے خوف کی شدت کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ یہ طرز عمل مسلمانوں کی معاشرتی و معاشی زندگیاں متاثر کررہا ہے۔خاص طور پر وہ امریکی معاشرے میں رہتے بستے خوفزدہ نظر آتے ہیں۔بدامنی کے خوف اور معاشرے میں بے چینی کی وجہ سے مغربی حکومتوں کی سعی ہوتی ہے کہ ان کے ہاں اسلاموفوبیا نہ بڑھنے پائے۔ وہ پھر مسلمانوں اور شہریوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے والے اقدامات کرتی ہیں۔

یہ دہشت گردانہ حملے قابل مذمت ہیں۔ دوسری طرف مغربی حکومتوں کی پالیسیوں کی وجہ سے عراق اور افغانستان میں لاکھوں بے گناہ افراد لقمہ اجل بن گئے ہیں۔ جب مغربی استعماری قوتیں مفادات کا اپنا گھناؤنا کھیل ختم کردیں گی، یہ دنیا زیادہ محفوظ ہو جائے گی۔ جب بھی مغرب کی سعی سے فلسطین،مقبوضہ کشمیر، بوسنیا، چیچنیا،پٹانی، فلپائن، برما اور دنیا کے دوسرے حصوں میں ستم رسیدہ لوگوں کو انصاف ملا،دنیا میں امن وامان قائم ہو جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔