مہنگائی بے روزگاری بڑھنا کیا اٹل ہے آخری حصہ

ایکسپورٹرز اورامپورٹرز ہر حالت میں اپنا نفع حاصل کرتے ہیں


خالد گورایا December 17, 2015
[email protected]

اگر ٹوٹل خسارہ 38 کھرب 17 ارب 26 کروڑ 50 لاکھ روپے کو اس مجموعی حاصل کردہ رقم سے نکال دیا جائے تو حکومت کے پاس 8 کھرب 92 ارب 35 کروڑ51 لاکھ 15 ہزار 4 سو 70 سرپلس روپے موجود تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ تجارتی خسارہ دراصل امپورٹرز ایکسپورٹرز سے تعلق رکھتا ہے اس سے حکومت کا تعلق نہیں ہوتا ہے۔

ایکسپورٹرز اورامپورٹرز ہر حالت میں اپنا نفع حاصل کرتے ہیں اور بیرونی اشیا کی مہنگائی کا بوجھ عوام کی قوت خرید پر ڈال دیتے ہیں، اگر حکومتی مجموعی آمدنی سے تجارتی خسارہ نکال دیا جائے تو بجٹ خسارے کے بعد بھی حکومت کے پاس 4709620.11547 ملین روپے (47 کھرب 9 ارب 62 کروڑ ایک لاکھ 15 ہزار 4 سو 70 روپے) اضافی موجود تھے اور ان کی ڈالر میں قیمت 48 ارب 68 کروڑ97 لاکھ ڈالر ہوتی ہے۔ اگر تجارتی خسارہ بھی اس سے نکال دیا جائے تو بھی 9 ارب 22 کروڑ 55 لاکھ ڈالر کی رقم کہاں گئی؟ مالی سال 2013-14 میں بجٹ خسارہ 13 کھرب 88 ارب 71 کروڑ 90 لاکھ روپے دکھایا گیا ہے۔

تجارتی خسارہ 20 کھرب 47 ارب 5 کروڑ 80 لاکھ روپے تھا۔ جس کی ڈالر میں مالیت 19 ارب 96 کروڑ 30 لاکھ ڈالر تھی۔ متذکرہ کتاب کے صفحہ نمبر 152 کے مطابق حکومت 2013-14 کے مالی سال کے دوران 13 کھرب 98 ارب روپے (مقامی) ملکی بینکوں سے وصول کیے متذکرہ کتاب کے صفحے 119 کے مطابق مالی سال 2013-14 کو حکومت نے 95 کروڑ ڈالر طویل مدتی قرض کی مد میں نقد حاصل کیے جس کی روپے میں قیمت (متذکرہ کتاب کے صفحہ نمبر 114 پر ڈالر ریٹ دیے گئے ہیں) 102.8591 روپے فی ڈالر کے حساب 97 ارب 71 کروڑ 61 لاکھ 45 ہزار روپے بنتی ہے۔

بیرونی ملکوں سے زرمبادلہ کی شکل میں مالی سال 2013-14 کو 15 ارب 83 کروڑ 77 لاکھ 40 ہزار ڈالر حکومت نے وصول کیا۔ جس کی مالیت روپے میں 16 کھرب 29 ارب 5 کروڑ 56 لاکھ 82 ہزار روپے بنتی ہے۔ حکومت اور بینکوں کے پاس فارن ایکسچینج ریزرو سال 2014 کو 14 ارب 14 کروڑ 11 لاکھ ڈالر تھا۔ جس کی روپے میں مالیت 14 کھرب 54 ارب 54 کروڑ 8 لاکھ 19 ہزار روپے بنتی ہے۔ اس طرح حکومت کے پاس مجموعی رقوم 45 کھرب 79 ارب 31کروڑ 26 لاکھ 46 ہزار روپے بنتی ہے۔

حکومتی بجٹ خسارہ اس میں سے نکال دیا جائے تو بھی باقی سرپلس رقم 31 کھرب 90 ارب 59 کروڑ 36 لاکھ 46 ہزار روپے باقی بچتی ہے۔ اگر تاجروں کی تجارت کو دیکھا جائے تو امپورٹرز اور ایکسپورٹرز اپنی ادائیگیاں اور وصولیاں مقامی کرنسیوں (روپوں) میں کرتے ہیں۔ اس سے حکومت کا تعلق براہ راست نہیں ہے۔لیکن ہر سال کھربوں سرپلس رقوم حکمران کہاں خرچ کرتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوالیہ نشان ہے جس کا جواب ''جمہوری غلام عوام'' جاننا چاہتے ہیں؟ اس کے ساتھ ہی سامراجی مسلسل مداخلت مالیاتی شکل میں تمام ملکی معیشت کو تباہ کر رہی ہے۔

جیسے 1948 میں 3.320 روپے کا ڈالر تھا۔3 دسمبر 2015 کو 107.40 روپے کا ڈالر ہوچکا تھا۔ اس طرح 3135 فیصد روپے کی قیمت میں کمی سے ملکی تمام معیشت اسی نسبت سے پیچھے دھکیل دی گئی ہے۔ اسی تاریخ کو عالمی مارکیٹ میں برنٹ آئل (لندن) پٹرولیم 43.04 ڈالر کا فی بیرل تھا۔ اگر 3.320 روپے کا ڈالر رہنے دیا جاتا تو یہ تیل 142.893 روپے کا فی بیرل خریدا جاتا (ایک بیرل میں 36 امپریل گیلن اور 163.656 لیٹر ہوتے ہیں) جو 1.45 روپے کا لیٹر پڑتا۔

مالی سال 2013-14 کو ڈالر کی قیمت 102.8591 روپے تھی۔ اسی نسبت سے غیر ملکی قرض ادائیگی 52 کھرب 26 ارب 6 کروڑ 51 لاکھ 52 ہزار 8 سو روپے ہوچکی تھی۔ امریکا کی یہ سازش تھی کہ تمام ملکوں کے وسائل پر قابض ہوجائے۔ برطانوی سامراج نے اپنے دور میں ڈھاکہ کی اعلیٰ کوالٹی کی ململ کو برطانیہ میں فروخت ہونے سے روکنے اور اپنی انڈسٹریز کی ململ کو برطانیہ اور سابقہ بھارت میں فروخت کو بڑھانے کے لیے ڈھاکہ کی ململ پر برطانیہ میں امپورٹ پر ڈیوٹی 80 فیصد لگا دی تھی۔

لیکن برطانوی امرا پھر بھی ڈھاکہ کی مہنگی ململ خریدتے رہے۔ اس پر برطانوی سامراج نے ڈھاکہ کے کاریگروں کی انگلیاں کاٹنی شروع کردی تھیں امریکی سامراج نے برطانوی سامراج سے دو قدم آگے بڑھ کر برطانوی، فرانسیسی، جاپانی، جرمنی، سامراج سے آزاد ہونے والی نو آبادیوں کو ''معاشی غلام'' بنانے کے لیے ان ملکوں کی کرنسیوں کو ڈالر کے مقابلے میں ان پر ڈالر ٹیکس یعنی Currency Devaluation Minus Economic Development آئی ایم ایف کے پلیٹ فارم سے نافذ کرنا شروع کردیا۔

اس سڈمڈ CDMED کا منفی اثر (1)۔معاشی غلام ملکوں میں لاگتیں بڑھتی گئیں۔(2)۔تجارتی خسارے اور بجٹ خسارے بڑھتے گئے۔(3)۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں مقامی خام مال اور ذرایع سستے سے سستے حاصل کرتی گئیں۔ مقامی صنعتی کلچر اور پیداواری (آمدنی ریونیو) ذرایع ریلوے، اسٹیل ملز پی آئی اے دیگر شعبے توانائی کے مہنگے ہونے سے (جو سڈمڈ کا نتیجہ ہیں) خسارے میں چلے گئے۔

راقم نے 2005 میں اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرکے حکومتی توجہ سڈمڈ CDMED کے پیدا کردہ معیشت پر منفی اثرات کا تجزیہ پیش کرکے مبذول کرائی تھی۔ جنرل پرویز مشرف نے اس کے بعد ڈالر کو 60.00 روپے سے اوپر نہیں جانے دیا تھا۔ حالانکہ شوکت عزیز بضد تھا کہ 100.00 کا ڈالر کردیا جائے۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز لیگ نے اپنی اپنی باری پر روپے کی قیمت کم کرنا شروع کردی اور اب ڈالر 108.00 روپے کی حد چھو رہا ہے۔

غیر ملکی مداخلت کو مقامی افراد راستہ کھول کر دے رہے ہیں جیسے غیر ملکی مداخلت (1) ملٹی نیشنل کمپنیوں کی شکل میں مالیاتی و معاشی مداخلت کتاب International Debt Statistics 2015 by World Bank کے صفحہ نمبر 112 پر مالی سال 2013 میں پاکستان سے غیر ملکی کمپنیوں نے 2 ارب 90 کروڑ 60 لاکھ ڈالر اپنے اپنے ملکوں کو منتقل کیے۔ جس کی پاکستانی کرنسی میں قیمت (102.8591روپے کا ایک ڈالر) 2 کھرب 98 ارب 90 کروڑ 85 لاکھ 44 ہزار روپے بنتی ہے۔

اسی کتاب کے صفحہ نمبر 80 پر انڈیا سے غیر ملکی کمپنیوں نے 12 ارب 55 کروڑ 50 لاکھ ڈالر، اور کتاب کے صفحہ نمبر پر 52 پر چین سے 2 کھرب 6 ارب 38 کروڑ 10 لاکھ ڈالر ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اپنے اپنے ملکوں کو منتقل کیے تھے۔ چین پر سال 2013 تک سامراجی قرضہ 8 کھرب 74 ارب 46 کروڑ 30 لاکھ ڈالر ہوچکا تھا اور انڈیا پر 4 کھرب 27 ارب 56 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کا قرضہ سال 2013 تک موجود تھا۔

انڈیا کے پروفیسر کمل چنائے نے نئی دہلی میں 24 جون 2015 کو میڈیا میں کہا تھا کہ انڈیا میں 30 لاکھ کسانوں نے خود کشیاں کی ہیں اور 18 مئی 2015 کو میڈیا میں خبر شایع ہوئی کہ انڈیا منگولیا کو ایک ارب ڈالر کا قرضہ دے گا۔ کتاب International Financial Statistics May 2015 by IMF کے مطابق 2013 میں چین کی تجارت ایکسپورٹ 2210200.00 ملین ڈالر اور امپورٹ 1950400.00 ملین ڈالر تھی۔ ٹریڈ سرپلس 259800.0 ملین ڈالر تھی۔

یعنی 2 کھرب 59 ارب 80 کروڑ ڈالر تھی اور اسی مدت کے دوران دوسری متذکرہ کتاب کے مطابق چین سے غیر ملکی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے 2 کھرب 6 ارب 38 کروڑ 10 لاکھ ڈالر باہر منتقل کیا تھا۔ اس طرح چین کی اصل سرپلس تجارت 53 ارب41 کروڑ 90 لاکھ ڈالر تھی۔ چین کی کرنسی کو SDRکا حصہ بنانے کے پیچھے چین میں سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا پھیلاؤ ہے۔

کتاب Multinational Financial Mangement by Alan C. Sharpiro کے صفحہ نمبر 8 پر لکھا ہے کہ 2010 میں امریکا نے دوسرے ملکوں میں سرمایہ کاری کی مد میں 3 کھرب 80 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر ایک کھرب 10 ارب ڈالر کا نفع حاصل کیا تھا۔ پاکستان میں مئی 1972 میں روپے کی قیمت کم کی گئی اس کے بعد مسلسل قیمت کم کی جاتی رہی ہے۔ 1973-74 سے 2015 تک مسلسل تجارتی خسارہ بڑھتا گیا ہے۔ غیر ملکی سامراجی مالیاتی مداخلت کے نتیجے میں پاکستان میں بے روزگاری، مہنگائی اور سامراجی حکم پر حکمرانوں کا عمل کرتے رہنا کیا یہ پاکستان سے وفاداری ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |