صد شکر کہ اپنی باتوں میں

’’اب مارشل لا کی کوئی بات نہیں‘‘ کہہ کر مطمئن ہوا جا سکتا ہے


راؤ سیف الزماں December 09, 2015
[email protected]

''اب مارشل لا کی کوئی بات نہیں'' کہہ کر مطمئن ہوا جا سکتا ہے تو ہو لیتے ہیں لیکن خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔ در اصل جمہوری نظام سے وابستہ حضرات و خواتین بس اتنا سمجھ لیں کہ یہ نظام انسانوں کو حق رائے دہی فراہم کرتا ہے اس نظام سے انھیں بولنے کی آزادی ملتی ہے وہ اپنے نمایندے کا انتخاب بلا جبر و اکراہ کر سکتے ہیں لیکن شاید ہمارے رہنما ایسا صرف فرماتے ہیں عمل نہیں کرتے۔ جب وہ حکومت میں ہوتے ہیں تو کوئی ہدایت، حکایت انھیں چھو کر بھی نہیں گزرتی۔ عجیب مطلق العنانی ان پر طاری رہتی ہے۔ مثال کے طور پر کراچی میں امن و امان کی صورتحال جب ابتر تھی تو میاں صاحب کراچی آتے رہے، حالات کی درستگی کے لیے فوجی آپریشن کا عندیہ دیتے رہے، مجرمین سے نمٹنے کے لیے آہنی ہاتھوں کے استعمال کا اعلان کرتے رہے۔

ان کی دعوت پر جب پاک فوج، ایجنسیز، قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئے، کراچی آپریشن شروع ہوا، امن و امان کی صورتحال بہتر، بلکہ بہت بہتر ہونے لگی تو میاں صاحب کو اندیشے لاحق ہونے لگے وسوسے ستانے لگے۔ انھیں کراچی پاکستان تحریک انصاف کی سمت بڑھتا دکھائی دیا۔ اب میاں صاحب آپریشن میں نرمی چاہتے تھے، کچھ قدم پیچھے ہٹنا ان کے نزدیک سیاسی مصلحت کا تقاضا تھا۔ لہٰذا جب وہ پیچھے ہٹے تو انھوں نے دیکھا سامنے ایک سپاہی سینہ تانے کھڑا ہے جو سیاسی عزائم سے کوسوں دور لیکن حب الوطنی رکھتا ہے، اس نے میاں صاحب کو حکمت عملی کی تبدیلی سے متعلق صاف جواب دے دیا۔

اس نے میاں صاحب کو بتایا کہ آپریشن سے فرار ممکن نہیں۔ کیوں کہ پیچھے دیوار ہے، کرپشن، دہشت گردی، بھتہ مافیا، قابل برداشت نہیں اور فوج کو، پولیس کی طرح اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا، میاں صاحب کے لیے موجودہ صورتحال سابقہ سے اس لیے مختلف ہے کہ اب فوج اقتدار نہیں چاہتی۔ لیکن انتشار بھی نہیں، اب اس کی منزل ملک کو جمہوری، فلاحی اور ترقی کے راستے پر گامزن کرنا ہے۔ سپاہی نے بتا دیا کہ ایک قدم تو دور کی بات وہ ایک انچ پیچھے ہٹنے کی گنجائش بھی نہیں رکھتا۔ چنانچہ ملک میں ان دنوں کھنچاؤ کی صورتحال محسوس کی جا رہی ہے۔

میرا مشورہ PML(N) کی حکومت کو ہے کہ وہ معاملات کو فطرت کے حوالے سے دیکھیں۔ محض سیاسی جوڑ توڑ اب حکومت چلانے کے لیے ناکافی ہوں گے۔ کراچی میں اگر صاف صفائی کے بعد PTI آ جاتی ہے تو آنے دیں۔ اس میں ڈر کیسا۔ خوف کس بات کا، کیا ابھی تازہ تازہ صوبہ بہار سے BJP نہیں ہاری؟ لیکن نریندر مودی تو اس قدر ہراساں دکھائی نہیں دیے۔ آپ کو چاہیے کہ اپنی کارکردگی پر نظر رکھیں۔ اس میں بہتری کے راستے تلاش کریں۔

آپ کے پاس اب صرف ڈھائی سال مزید بچے ہیں جب کہ آپ کے وعدے ابھی زیر تکمیل ہیں۔ انرجی بحران حل نہیں ہوا۔ فی الحال کوئی بہتری لوڈ شیڈنگ میں نہیں، ملک دن بدن مہنگائی کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے، قوم بری طرح پس چکی۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی موجودہ حکومت ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے میں اب تک ناکام ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر ایسی طفل تسلی ہے جسے معمولی بہتری گردانا جا سکتا ہے۔

آپ کے لیے ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ، کرپشن کا سدباب ایسے اقدامات ہو سکتے ہیں جنھیں آپ اگلے الیکشن میں فخریہ بیان کر سکتے ہیں تو پھر سیاسی مصلحت کا شکار نہ ہوں اور فوج کو، قانون نافذ کرنے والوں کو اپنا کام آزادی سے کرنے دیں۔ آیندہ حکومت میں آنے کا لالچ آپ کی موجودہ کارکردگی پر اثر انداز ہو رہا ہے، آپ شاید اسے جانتے ہوں لیکن جائزہ لیجیے تو اپ پر یہ حقیقت آشکار ہو گی کہ آپ کے بہت سے کام ایسی عجلت کا شکار دکھائی دیتے ہیں، جن کا فائدہ سردست مصائب کی ماری ہوئی قوم کو نہیں۔ بقول شاعر

نوید سر خوشی جب آئے گی اس وقت تک شاید
ہمیں زہرِ غم ہستی گوارا ہو چکا ہو گا

میں محترم عمران خان و دیگر جماعتی قائدین سے بھی مطمئن ہوں کہ اپنی حکمت عملی کا رخ بجائے انتخابات جیت کر حکومت میں آنے کے، ملکی ترقی، ملکی فلاح و بہبود کی سمت موڑ دیجیے۔ یقین کیجیے قوم کی حالت اس قدر پتلی ہو چکی ہے کہ وہ کسی نئے پاکستان، پرانے پاکستان، مرمت شدہ پاکستان کے نعرے میں نہیں آنیوالی۔ وہ اس قابل ہی نہیں کہ آپ کی ایمان افروز تقاریر سن سکے، وہ تو ایسے مردہ ڈھانچوں کے مانند ہے جو کسی الیکشن کے دن قطار میں لگ کر ووٹ دے آتے ہیں۔

لیکن آتے ہوئے جملہ سیاسی جماعتوں کو کوستے ضرور ہیں، میں اکثر سنتا ہوں، وہ کہتے ہیں 70 سالوں میں کوئی ان کا خیر خواہ ثابت نہ ہوا جو آیا ملک کو لوٹ کر، انھیں پہلے سے زیادہ غربت دیکر چلا گیا۔ اپنے محل بنا گیا ان کی جھونپڑیاں گرا گیا۔ آپ کو شاید علم نہیں جسے آپ قوم کہہ کر مخاطب کرتے ہیں اس کی حالت کیا ہے۔ خدارا کبھی یہ جاننے کی کوشش ضرور فرمایئے آپ اپنے جلسوں میں، ریلیوں میں TV چینلز پر جس سے خطاب کرتے ہیں وہ ہے کیا؟ میرے بھائیو وہ اب کوئی قوم نہیں رہی۔ وہ مسلسل، مستقل دھوکے کھانے والا ایک ایسا گروہ ہے جو تقسیم در تقسیم ہے تعصبات و طبقات، فرقہ بندی اور کمزور عقائد رکھنے والے مارے پکارے لوگ، جو اب اپنے مسائل کا حل تعویز گنڈوں میں تلاش کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا درست ہے بالکل بجا ہے ملک بنے، آزاد ہوئے 70 برس ہو گئے دنیا بھر میں بہتری آئی، بہت سے پڑوسی ممالک کہاں سے کہاں جا پہنچے، لیکن نہ بدلا تو پاکستان۔ جمہوریت، مارشل لا، بلدیاتی نظام، کنٹرولڈ جمہوریت، غیر جماعتی پارلیمانی نظام۔وہ سارے دور دیکھ چکے، تمام تجربات بھگت لیے، اب کوئی نعرہ نہیں بچا، کوئی نظام، نیا تجربہ ان کے لیے نیا نہیں، اب تو ان کی حالت زار پر ترس کھانے کی ضرورت ہے یہ قوم کب تک جلسوں، جلوسوں، ریلیوں میں بھٹکتی رہے؟ کون آیا کون آیا، کوئی کہتا فون آیا۔ کسی کا نعرہ ہے شیر آیا۔ یا آئی آئی ۔ PTI یا آئی آئی پھر نئی مصیبت آئی۔

آپ اہل اقتدار، اپوزیشن، حکومتی ادارے سب مل کر خلوص نیت کے ساتھ ایک تو یہ طے کر لیں کہ جمہوریت کو جیسے بھی جس حال میں بھی چلتے رہنے دینا ہے، اسے Derail نہیں کرنا، مارشل لا نہیں لگانا۔ کسی قیمت پر کسی صورت میں۔ دوسرا جس جماعت کی بھی حکومت ہو اسے اپنی مدت حکومت کو بہتر سے بہترین بنانے کے لیے تگ و دو کرنی چاہیے۔ نہ کہ کوئی آنے والے 50 سال حکومت میں رہنے کی خواہش رکھے، از راہ خدا اب ملک کے لیے سوچیں۔ اﷲ کے واسطے اب اس قوم پر رحم کریں، اگر یہ قسمت، قدرت سے اس ملک میں پیدا ہو ہی گئے ہیں تو ان کے اس قصور سے صرف نظر فرمائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں