پھر زیرو سے شروع

جب بات بنتے بنتے بگڑ جائے تو پھر دوسروں کے عیب ڈھونڈھنے سے بہتر ہے


انیس منصوری December 06, 2015
[email protected]

جب بات بنتے بنتے بگڑ جائے تو پھر دوسروں کے عیب ڈھونڈھنے سے بہتر ہے اپنی کمزوریوں کو تلاش کیا جائے۔ جب خوشیاں دروازے سے واپس لوٹ جائیں تو اپنے دل کو دیکھنا چاہیے کہ کہیں اس میں تو خرابی نہیں ہوگئی۔ بار بار کے تجربات کے بعد بھی اگر نتیجہ ایک جیسا ہی نکل رہا ہو تو پھر اپنی روش کو پرکھنا چاہیے کہ کہیں ہمارے ذہنوں پر تالے تو نہیں لگ گئے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ اتنی زیادہ میڈیا کوریج کے باوجود ہمیشہ گاڑی کو ریورس گیئر لگ جاتا ہے۔

دوسروں پر الزامات لگانے سے اپنے چہرے پر دھول تو کم نہیں ہوسکتی۔ کب تک اس دھول کا الزام آئینے کو دیتے رہیں گے۔ غور سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آخر اتنی زیادہ پوشیدہ اور نادیدہ حمایت کے باوجود کامیابی پیروں کو چھو کر لوٹ جاتی ہے۔ جتنے بڑے بڑے جلسے تحریک انصاف کرتی ہے کراچی میں اس سے بڑے جلسے مولانا فضل الرحمان کرتے ہیں، مگر میڈیا میں ان کی اتنی کوریج نہیں ہوتی۔ مولانا کے جلسے بھی بڑے ہوتے ہیں مگر ووٹ انھیں بھی اتنے نہیں ملتے۔ حالیہ انتخابی نتائج سے اس بات کو اخذ کرلیا جائے کہ پنجاب اور خصوصاً سندھ میں لوگوں کو نیا پاکستان بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے یا پھر وہ نئے کو جلد آزما کر واپس پرانے کی طرف لوٹ گئے ہیں۔ نئے کو آزمانے سے مراد یہ ہے کہ انھوں نے 2013 میں اپنی روایت سے ہٹ کر بڑے پیمانے پر ووٹ دیے۔ ایسی کیا بات ہوئی ہے کہ لوگ اتنی جلدی ہی نئے سے دور ہوگئے۔

جب کہ کراچی اور سندھ کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں کہ لوگ اپنی سیاسی سوچ میں بہت پختہ ہیں۔ سوالات بہت زیادہ ہیں، مگر اس کے جواب بھی ضروری ہیں۔ اس انتخابات سے بہت سارے سوالات نے جنم لیا ہے۔ پہلا سوال اس عمومی پروپیگنڈے کا ہے جو پیپلز پارٹی کے متعلق کیا جاتا ہے۔ جتنے تبصرے اور جتنے کالم پیپلز پارٹی کے خلاف لکھے گئے شاید اتنی مخالفت تو طالبان کی بھی نہیں کی گئی۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ سندھ کے عوام نے ان سارے سوالات کا جواب ناں میں دیا ہے۔ پیپلز پارٹی پر یہ الزامات لگتے رہے کہ وہ کرپشن میں ملوث ہے، یہ کہا جاتا رہا کہ سائیں سرکار اب تک بہتر کارکردگی نہیں دکھا سکی ہے۔

ان تمام الزمات کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی نے کوئی بڑی سیٹ نہیں گنوائی ہے۔ آخر کیوں؟ کیا میڈیا جس نظر سے سندھ حکومت کو دیکھ رہا ہے، عوام اس کے بالکل برخلاف سوچ رہے ہیں؟ یقینی طور پر اپوزیشن کی جانب سے یہ الزام عائد کیا جاتا رہا کہ سندھ اور پنجاب کی حکومتوں نے سرکاری مشینری کا استعمال کیا، اور یہی الزام خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف پر لگتا ہے۔ لیکن اس کے باجود پیپلز پارٹی کے حلقوں میں کوئی بھی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ ایسی ہی کچھ صورتحال پنجاب میں رہی۔

یہ خبریں آتی رہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی گورننس اچھی نہیں ہے۔ لیکن اگر 2013 کے الیکشن اور بلدیاتی الیکشن کو دیکھا جائے تو اس میں سب سے بڑا نقصان تحریک انصاف کو ہوا ہے اور کچھ جگہوں پر پیپلز پارٹی کو فائدہ ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی خاموشی کے ساتھ پنجاب میں واپس آئی ہے۔ یہ بات اگر سچ مان لی جائے کہ ضمنی الیکشن میں حکومتی جماعتوں کو فائدہ ہوتا ہے، تو یہ فارمولا پیپلز پارٹی کے لیے پنجاب اور دیر میں نظر نہیں آیا، جہاں ان کی حکومتیں نہیں ہیں، لیکن انھیں ضمنی الیکشن اور بلدیاتی الیکشن میں اپنی موجودگی ظاہر کرنے کا موقع ملا ہے۔

سوشل میڈیا پر اتنی مخالف مہم کے باوجود انھیں کامیابیاں کیسے مل رہی ہیں۔ کیا سماجی رابطے کے ذرائع پر عوام کو اعتبار نہیں ہے؟دوسرا سوال تحریک انصاف کا ہے۔ یقینی طور پر میڈیا کے تمام ذرائع یہ بات شدت کے ساتھ بتاتے رہے کہ کرپشن اور بری حکومتوں کی بہ نسبت نیا پاکستان تحریک انصاف بنائے گی۔ مگر انھیں وہ کامیابیاں حاصل نہیں ہورہی ہیں۔ کیا عمران خان کی سیاست دان کی حیثیت سے پچھلی کامیابی مصنوعی تھی؟ میں یا کوئی بھی اس بات کو ماننے کے لیے شاید تیار نا ہو کہ لاہور کے بلدیاتی الیکشن سے قبل شادی کا ٹوٹنا نقصان دہ تھا۔ کیونکہ عموماً ووٹر کو اس حوالے سے دلچسپی کم ہی ہوتی ہے اور ووٹ ایسے ٹوٹتے نہیں ہیں۔ یہ بات بھی مانی جاسکتی ہے کہ مضبوط تنظیمی ڈھانچہ نہ ہونے کی وجہ سے شکست ہوئی۔

لیکن سیاسی جماعتیں تو ہوتی ہی اپنے مضبوط ڈھانچہ پر ہیں۔ کیا اب اس بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ بڑے جلسوں اور بڑی پبلسٹی کے ذریعے ووٹر کو قائل کرنا مشکل ہے؟ کیا اس بات کو مان لیا جائے کہ میڈیا جس طرح چیزیں پیش کرتا ہے عام آدمی اس کے بالکل مخالف جانا پسند کرتا ہے۔ یا پھر یہ بات حتمی ہے کہ سوشل میڈیا ایک حد تک اسکرین پر ہلچل مچاتا ہے مگر گلیوں اور محلوں پر اس کا بالکل الٹا اثر ہوتا ہے۔ عمران خان 2013 کی کامیابیوں کا تسلسل برقرار نہیں رکھ سکے ہیں؟ ان کی شخصیت اب تک سیاسی ماحول اور عوامی سوچ کو چھو نہیں سکی ہے؟

تیسری بات جماعت اسلامی کے متعلق ہے۔ جماعت اپنے مضبوط پاؤں رکھتی تھی اور اسی بنا پر ایم کیو ایم کا عروج ہو یا پھر مسلم لیگ کی تین چوتھائی اکثریت، جماعت نے کبھی اپنی زمین نہیں چھوڑی۔ لیکن حالیہ دنوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ جماعت نے اپنی زمین پر دوسروں کے پیر مضبوط کردیے ہیں۔ یا پھر ہم تو ڈوبے صنم تمھیں بھی لے چلے، والی صورتحال ہے۔ اس ماحول میں جماعت اسلامی کیا ایک ایسی لبرل جماعت کے ساتھ الیکشن کی کیمپین چلا سکتی تھی۔ تھوڑا سا دھیان دینے کی ضرورت تھی کہ ایک جماعت کا مہم چلانا بالکل مختلف تھا اور دوسرے کی مقبولیت کسی اور وجہ سے تھی۔

دونوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ سمجھنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ آیا انتہائی مختلف نظریات کے دو لوگ ایک ساتھ چل سکتے تھے یا نہیں؟ جماعت میں دو طرح کی سوچیں تھیں۔ ایک کا کہنا یہ تھا کہ کراچی میں ہم زیادہ مضبوط ہیں اس لیے ہمیں الگ مہم چلانی چاہیے اور انتخاب کے بعد تحریک انصاف سے اتحاد ہونا چاہیے۔ ان لوگوں کو یہ کہہ کر خاموش کرادیا گیا کہ NA246 میں ہم نے یہ کرکے دیکھ لیا۔ اس کا اچھا نتیجہ نہیں نکلا۔ اس لیے اب ساتھ مل کر لڑتے ہیں۔

اسی اختلاف کی وجہ سے اندرونی طور پر بھی مہم تیز نہیں ہوسکی۔ کیا جماعت آئندہ کوئی مہم تحریک انصاف کے ساتھ چلائے گی؟میڈیا میں ایم کیو ایم کے متعلق ہر طرح کی مہم چلائی گئی۔ مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ اس کے ذریعے مہاجر قومی موومنٹ جو خود کو متحدہ میں تبدیل کرنا چاہتی تھی ایک بار پھر اسے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ کیا لوگوں کے سوچنے کے انداز اتنے مختلف ہیں کہ جسے غدار کہا جارہا ہو اسے دوسری طرف ہیرو کا درجہ دیا جارہا ہے۔ کیا یہ سب ایک اتفاق ہے یا پھرکچھ اور ہے۔ متحدہ کے رہنما کے بیانات اور تصاویر پر مکمل پابندی رہی۔ لیکن ایم کیو ایم کے انتظامی معاملات اور الیکشن کی مکمل مہم وہ خود چلاتے رہے۔ ان کی مرضی سے ہی ایک ایسی ریلی نکالی گئی جس میں ان کی تصویر شامل نہیں تھی، تاکہ میڈیا کوریج حاصل کی جاسکے۔ ایک اچھا سیاست دان جتنی اچھی تقریر کرتا ہو وہ عدالت میں آکر جج کی کرسی نہیں سنبھال سکتا۔

ایک اچھا کھلاڑی بہت اچھی گیند کراتا ہو لیکن وہ فوج کی وردی پہن کر بندوق چلانے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ مختصراً یہ ہے کہ ان بلدیاتی الیکشن نے کچھ سوالات کے جواب دے دیے ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ پروپیگنڈے اور خبر میں فرق ہونا چاہیے۔ جو تاثر سوشل میڈیا پر پھیلایا جاتا ہے وہ عوام کی سوچ کی عکاسی نہیں کرتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے ہر شخص اور ادارے کو اپنا کام کرنا چاہیے، جب کبھی اس نے دوسروں کا کام کرنے کی کوشش کی ہے تو اس کے نتیجے میں بگاڑ ہی ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے کراچی سمیت پورے سندھ میں جو سوچ دم توڑ رہی تھی اس میں ایک نئی جان ڈال دی گئی۔ تفریق بڑھی ہے یا بڑھائی گئی ہے؟ سارے حساب کتاب کے بعد اسی زیرو پر لاکر کھڑا کردیا گیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں