ننھے فرشتے
دن نکلنے سے پیشتر فہمی<br />
کچھ نہ کچھ سوچنا‘ چراغوں کا
مجید امجد مرحوم کی ایک نظم کا عنوان ہے ''پھولوں کی پلٹن'' جس کا بنیادی منظر اور محرک اسکول کو جاتے ہوئے بچے ہیں ایک جیسی یونی فارمز میں ملبوس ہنستے مسکراتے اور مستقبل کے اندیشوں سے بے خبر ان بچوں کو دیکھنا میرے لیے بھی ہمیشہ ایک بہت خوشگوار اور روح پرور تجربہ رہا ہے لیکن غور سے دیکھا جائے تو ہمارے اپنے اور ہمارے بچوں کے بچپن سے بھی خوبصورت بچپن ہماری تیسری نسل یعنی بچوں کے بچوں کا ہوتا ہے کہ اس کا ماضی ٹی ایس ایلیٹ کے اس مصرعے کی طرح سہ گونا ہے کہ
Time past and time present are both present in the time future.
گزشتہ صبح ڈیفنس کے ایک اسکول میں مجھے میرے پوتے ابراہیم علی ذی شان کی خدمت میں مدعو کیا گیا تھا کہ وہاں ایک grand parents day کا اہتمام کیا گیا تھا جس کے مہمانان خصوصی پریپ اے اور بی کے بچے اور ان کے دادا دادی اور نانا نانی تھے باری باری ہر بچہ مائیک کے سامنے آتا اور اپنے grand parents کے حوالے سے پہلے سے یاد کرایا گیا۔ کوئی جملہ بولتا تھا ان بچوں کو دیکھنا اور سننا ایک ایسا بے مثال تجربہ تھا جس کو لفظوں میں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔
میں اسکول کی پرنسپل اور نامور شاعرہ یاسمین حمید کو اس خوب صورت پروگرام کی داد دینا چاہتا تھا لیکن انھیں کہیں جانا تھا سو وہ کچھ دیر ہمارے ساتھ بیٹھ کر درمیان میں اٹھ کر چلی گئیں۔ پروگرام میں بچوں کی کچھ معروف انگریزی کہانیوں کی ڈرامائی پیش کش بھی شامل تھی اتنی چھوٹی عمر کے بچوں کا اعتماد دیکھ کر بار بار خیال آتا رہا کہ کاش ہمارے بڑے بھی اپنے حصے کی بات اسی اعتماد اور خوب صورتی سے کہنے کی صلاحیت کے حامل ہوتے۔
ایک بات جو ہمیشہ مجھے انگلش میڈیم اسکولوں کی تقریبات میں کھٹکتی ہے یہاں بھی کھٹکی اور وہ یہ کہ ہم کیوں ان تقریبات کو اگر اردو میں نہیں تو کم از کم Bi lingualکیوں نہیں کرتے بلکہ اگر کہیں کہیں حسب ضرورت متعلقہ علاقوں میں بولی جانے والی مادری زبانوں کو بھی جگہ دی جائے تو مزید مناسب ہو گا کہ جب تک ہم ابتدائی سطح پر اپنے بچوں کے دل و دماغ میں اپنی زبان اور تہذیب کی اہمیت اجاگر نہیں کریں گے آگے چل کر یہ مسئلہ مزید مشکل اور گمبھیر ہوتا چلا جائے گا۔
ان بچوں کو مستقبل کے حوالے سے چراغوں سے بھی تشبیہہ دی جا سکتی ہے سو اس وقت مجھے برادرم شوکت فہمی کی ایک تازہ غزل یاد آ رہی ہے جو کل ہی انھوں نے مسعود عثمانی کی ادبی تنظیم ''حرف کار'' کے زیر اہتمام خالد سجاد اور نورین طلعت عرویہ کے اعزاز میں منعقد کی گئی ایک تقریب میں سنائی تھی اس غزل کے ''چراغ'' ہیں تو بڑوں کی انجمن کے لیکن بچوں کے حوالے سے اس کی معنویت یہ بنتی ہے کہ کسی بھی اصیل اور اچھے انسان کی ایک پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کے اندر ایک بچہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے یہاں اس لافانی اور خیال افروز کوٹیشن کو یادکرنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ ''دنیا میں پیدا ہونے والا ہر بچہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا'' تو آئیے ان ننھے فرشتوں کے پروں کی آواز شوکت فہمی کے ان اشعار میں سنتے اور محسوس کرتے ہیں۔
صبر مت آزما چراغوں کا
فیصلہ کر 'ہوا' چراغوں کا
چند جگنو کہیں سے آ نکلے
حوصلہ بڑھ گیا چراغوں کا
ہم نے تو شب گذار لی لیکن
دوستو! کیا بنا چراغوں کا!
میں اسی سلسلے میں بیعت ہوں
وہ جو ہے سلسلہ چراغوں کا
وہ جو ان آندھیوں کا مالک ہے
ہاں وہی ہے خدا چراغوں کا
تم ہو سورج کو پوجنے والے
تم سے کیا واسطہ چراغوں کا
خود میں چپ چاپ جل رہا ہوں میں
دیکھ کر حوصلہ چراغوں کا
دن نکلنے سے پیشتر فہمی
کچھ نہ کچھ سوچنا' چراغوں کا