کوچہ یار میںآوارہ پھریں گے کب تک

واقعات کو ترتیب وار تحریر کیا جائے تو طوالت کا اندیشہ ہے۔


راؤ سیف الزماں December 02, 2015
[email protected]

واقعات کو ترتیب وار تحریر کیا جائے تو طوالت کا اندیشہ ہے۔ لہٰذا طے کیا کہ جو یاد آئے جب یاد آئے لکھ دینا چاہیے۔ قارئین کرام ملک ان دنوں بھی تناؤ کی زد میں ہے۔ جمہوریت کے سر پر منڈلاتے ہوئے خطرات، آپریشن کراچی کے مستقبل پر کئی ایک سوالیہ نشان، پھر سے سر اٹھاتا دہشت گردی کا فتنہ، بلدیاتی الیکشن کے نتائج میں ملک کے بجائے صوبوں کی یا صوبائیت کی فتح، ہنوز انرجی بحران کا حل نہ ہونا۔ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ کوئی عالم الغیب نہیں۔ لیکن حکمت عملی پر گفتگو ہو سکتی ہے اور غالباً انسان کے پاس اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ عمل درست رکھے۔

سوچ مثبت ہو۔ سمت کا تعین احتیاط سے کیا جائے پھر قسمت اور قدرت پر چھوڑ دے۔ چنانچہ کور کمانڈر کانفرنس کے اعلامیے ''گڈ گورننس بہتر کی جائے'' کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ معاملہ تحمل مزاجی سے حل کیا جانا چاہیے۔ چَھڑی کا استعمال مناسب نہ ہو گا۔ آپ کو اندازہ ضرور ہو گا کہ جمہوری حکومتوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ نظام ملک میں مستقل نہیں رہا لہٰذا پختہ کار نہیں۔ اس سے وابستہ رہنما بھی اس کے عادی نہیں۔ غلطی کا احتمال ہے۔ اگر کسی جانب سے ہوئی تو قابل فراموش ہونی چاہیے اب تک معاملات بحسن و خوبی چل رہے تھے۔

ملک بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہو چلا۔ آگے بھی تسلسل برقرار رہنا چاہیے۔ میرا مشورہ ہے کہ آرمی چیف پہل کرتے ہوئے بڑائی کا ثبوت دیں۔ لیکن سمجھوتہ آپریشن کراچی یا کرپشن کو ہلکا کرنے پر ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ یہاں بھی ملک کا مستقبل مانع ہے۔ بلاشبہ شک و شبہ آپریشن سے ملک میں بڑی حد تک سدھار آیا۔ بلدیاتی الیکشن کا انعقاد خوش آیند ہے۔ لگتا ہے کہ اختیارات ایک مرتبہ پھر نچلی سطح پر منتقل ہونے جا رہے ہیں۔ ایک شخص کو MNA, MPA ملے نہ ملے علاقے کا کونسلر ضرور مل جائے گا۔ اور عوام کے زیادہ تر مسائل ہی Municipal Services سے وابستہ ہیں، لیکن ان الیکشنز کے نتائج اس حوالے سے حوصلہ افزا نہیں کہ مرکز مضبوط ہوتا نظر آتا بلکہ صوبے زیادہ طاقتور دکھائی دیے۔ مثلاً پنجاب میں PML-N فاتح رہی۔ KPK میں PTI، سندھ میں PPP اور بلوچستان میں متفرق قبائل یا سردار جیت گئے۔

میں تفصیل میں جائے بغیر آپ کو احساس دلانا چاہتا ہوں کون کہاں پر جیتا! بہرحال نظام کے جاری رہنے یا نظام کو جاری رکھنے پر امید کی جا سکتی ہے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب مرکز کی فتح ہو گی۔ ملک کی فتح ہو گی۔ ان الیکشنز میں دھاندلی ہوئی۔ لیکن ہمیشہ سے کم۔ دنگے فساد بھی ہوئے۔ معاملات بہت شفاف نہیں رہے لیکن Overall بہتری کا تاثر ضرور ہے۔ انڈیا میں عرصہ دراز سے مذہبی انتہا پسندی عروج پر ہے۔ غالباً تقسیم ہند سے قبل یا اس سے بھی بہت پہلے سے۔ لیکن موجودہ انڈین گورنمنٹ جو BJP کی ہے اور نریندر مودی جس کے وزیر اعظم ہیں کے بعد یہ رجحانات عروج پر ہیں۔ دراصل نریندر مودی خود اپنی ذات میں ایک ایسے انتہا پسند شخص ہیں۔ جن کا دل سے ماننا ہے ہندوستان صرف ہندوؤں کا ملک ہے۔

جہاں رہنے بسنے کا حق بھی صرف انھی کو حاصل ہے۔ جو ہندو نہیں وہ ہندوستان چھوڑ دے۔ یا ہندو مذہب اختیار کر لے۔ اگرچہ وہ اپنے ان خیالات کا برملا اظہار نہیں کرتے لیکن ان کا ایک ایک عمل ان کی انتہا پسندی کا شاخسانہ ہے۔ نریندر مودی وہ بدقسمت وزیر اعظم بھی ہیں جنھوں نے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے انڈیا کو سرعت کے ساتھ روک دیا اور اسے تعصب و تنگ نظری کی دلدل میں دھکیل دیا۔ اب دنیا بھر میں انڈیا کا Image ایک ایسے ملک کا ہے جہاں مذہب کی آڑ لے کر آئے ان اقلیتوں کا قتل عام ہوتا ہے۔ جہاں گائے کا گوشت کھانے پر بہیمانہ ظلم ڈھائے جاتے ہیں۔ وہ انڈیا جو خود کو سیکولر کہہ کر دنیا بھر سے ہمدردیاں سمیٹ رہا تھا۔ بے شمار امداد حاصل کر رہا تھا اب بدترین مذہبی منافرت کا چہرہ رکھتا ہے۔

جہاں ہر قوم ہر مذہب کے لوگ ملک کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے وہاں غیر ہندو خود کو غیر محفوظ سمجھ کر ترک سکونت کا ارادہ رکھتے ہیں۔ معروف اداکار عامر خان کا قصہ کس کے علم میں نہیں۔ دیگر مسلم اداکار جو انڈیا سمیت دنیا بھر میں لیجنڈ مانے جاتے ہیں (دلیپ کمار، شاہ رخ خان) انھیں بھی ایسا سانپ قرار دیا جا رہا ہے جسے BJP کے وزیر رام داس نے دودھ پلایا۔ انڈیا اور انڈین تو سیکڑوں برس سے ایسے ہی تھے۔ جس کا اظہار انھوں نے بالآخر کھل کھلا کر کر دیا لیکن یہ یورپ تھا۔ امریکا اور روس تھے جنھوں نے مل کر انڈیا کے لیے سیکولر ازم کا سوٹ تیار کیا۔

کس نے کاٹا، کس نے سیا اور کس نے اسے انڈیا کو پہنا دیا اس بحث میں الجھے بغیر بس یہ کہا جا سکتا ہے کہ بالآخر پہنا دیا اور اسے سیکولر ماننے لگے۔ خاص طور پر پاکستان اور مسلم دنیا کو یہ جتایا جاتا رہا کہ آپ سب انتہا پسند ہیں۔ قتل و غارت گری آپ کا شوق ہے اور ہم آپ کو انڈیا کی مثال دیتے ہیں۔ دیکھیں کیسا امن پسند ملک ہے۔ کیسی پیار و محبت کرنے والی قوم ہے۔ جہاں مذاہب کو تحفظ اور اقلیتوں کو تمام حقوق مساویانہ حاصل، لیکن کیا کیا جائے۔

ساری دنیا بھی ناکام رہی۔ انڈیا کو سیکولر کہلوانے یا بنانے میں۔ اگر ہم اس کے علاج کی طرف آئیں کہ انڈیا و اہل انڈیا کیسے بہتر ہوں تو یہ لاحاصل کوشش ثابت ہو گی۔ کیونکہ ''ہندوتوا'' کی سوچ نہیں بدلنے والی۔ صرف ہم صرف ہم کا نعرہ نہیں رکنے والا۔ اور اگر کوئی علاج ہے تو یقین کیجیے وہ ہے ''ڈنڈا''۔ آپ شاید مجھے جاہل کہہ کر سرگوشی کریں لیکن میں دعوے سے کہتا ہوں آپ ہزار سالہ بلکہ دو ہزار سالہ تاریخ دیکھ لیجیے۔ ''لودھیوں سے لے کر خلجیوں اور غوریوں تک، غزنوی سے لے کر مغلوں تک یہ قوم اگر سدھری تو صرف ڈنڈے سے ۔ ورنہ ہزار انھیں امن کا درس دیا شانتی کا سبق پڑھایا۔

انھوں نے پڑھ کر نہ دیا۔ پاکستان کو سخت لب و لہجے میں بات کرنی ہو گی۔ ''جیسے کو تیسا'' کے قانون کو اپنانا ہو گا۔انبیائے کرام کی گزر گاہ ''شام'' اب عالمی سیاست کا اکھاڑہ ہے۔ ان دنوں دنیا کی ہر بڑی طاقت، سپرپاور وہاں برسر پیکار ہے۔ بم، راکٹ لانچر، میزائل، ہر پل داغے جا رہے ہیں۔

ہزاروں معصوم شہری شہید ہو چکے۔ 3 سال کے بچے سے 80 سال کے بوڑھے تک اس ظلم و بربریت کی بھینٹ چڑھے۔ ایسا ایسا ظلم ہوا کہ الامان۔ قدرت بھی حیران پریشان کیا تماشا ہے۔ اور حل کیا ہے۔ شامی صدر بشارالاسد کا استعفیٰ؟ یا امریکا و روس کی من پسند حکومت کا قیام۔ یا داعش نامی تنظیم کی مکمل بربادی خاتمہ جس کے خالق بھی امریکا واہل یورپ ہیں۔ بظاہر یہ معاملہ حل طلب نظر نہیں آتا بلکہ ایک ایسی تباہی کا امکان بہت واضح ہے جس کے بعد وہاں نہ انسان بستے ہوں گے نہ جانور۔ اللہ اہل شام پر رحم فرمائے۔( آمین۔)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں