عامر خان نے تقسیمِ بھارت کی بنیاد رکھ دی

اگرعامر خان جیسا ہردلعزیز فنکار خود کو بھارت میں غیر محفوظ محسوس کررہا ہے تو تصورکیجیے کہ عام مسلمان کی حالت کیا ہوگی؟


عثمان فاروق December 01, 2015
چونکہ ہندوستان ایک سیکولر جمہوری ملک ہے لہذا صرف تھپٹر مارنے کے اعلان پر ہی اکتفا کیا گیا ہے۔

انٹرنیٹ پر ہندوستان سے ایک ایسی ویب سائیٹ لانچ کی گئی ہے جس میں آپ عامر خان کو تھپٹر مار سکتے ہیں، یاد رہے اس سے پہلے شیو سینا عامر خان کو تھپٹر مارنے پر ایک لاکھ انعام کا بھی اعلان کرچکی ہے۔

یہ بھی ہوسکتا تھا کہ شیو سینا والے عامر خان کا سر لانے پر ایک لاکھ انعام کا اعلان کرتے مگر چونکہ ہندوستان ایک سیکولر جمہوری ملک ہے لہذا صرف تھپٹر مارنے کے اعلان پر ہی اکتفا کیا گیا۔ پاکستان کی طرح ہندوستان کی جمہوریت بھی بہت حسین ہے۔ آجکل وہاں پر بے شمار لکھاری، فلم اداکار، گلوکار اپنے ایوارڈ واپس کرکے بڑھتی ہوئی ہندو انتہا پسندی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں مگر ہندوستانی حکومت اس پر ذرا بھی پریشان نہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب جمہوریت کا حسن ہے بلکہ شاید اگلے سال ہندوستان کی جمہوریت مس یونیورس کا مقابلہ بھی لڑے۔

اگرچہ عورتوں کے ساتھ زیادتی کے حوالے سے بھی ہندوستان سرِفہرست آرہا ہے مگر اِس سے ''جمہوریت'' پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ جمہوریت کو خطرہ صرف مارشل لاء سے ہوتا ہے۔ جو کچھ نریندر مودی حکومت آجکل ہندوستان میں کر رہی ہے یعنی کہ راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ اور ویشو ہندو پریشد جیسی خطرناک انتہا پسند ہندو تنظیموں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ گائے کا گوشت کھانے کے شُبہ میں مسلمان قتل ہورہے ہیں۔ یاد رہے گوشت کھانا ثابت نہیں ہوا صرف ''شبہ'' تھا تو ماردیا جو بھارت کو مقدس نہیں سمجھتا اسے ہندوستان سے نکالنے کی تحریک چلائی جارہی ہے۔ پاکستانی فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد پر سیاہی پھینکی جارہی ہے۔ سینما میں فلم سے پہلے بھارت کے قومی ترانے کے لئے ایک مسلمان خاندان کھڑا نہیں ہوتا تو اسے دھکے مار کر سینما سے نکال دیا جاتا ہے۔

https://twitter.com/sairakhan55/status/669870793048891392

مذہبی اقلیتوں کو زبردستی ہندو بنانے کے لئے ''گھر واپسی'' تحریک چلائی جارہی ہے۔ دھرم جگرن سمیتی Dharam Jagran Samiti جیسے پروگرام کے ذریعے 2021 سے پہلے ہندوستان کو مسلمانوں، عیسائیوں اور دلتوں سے پاک کرنے کا منصوبہ سرعام چل رہا ہے۔ جس کے تحت ایک طرف تمام مذہبی اقلیتوں پر حملے شروع ہوچکے ہیں تو دوسری طرف اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کو زیادہ بچے پیدا کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔ بی جے پی حکومت کی اس ساری مار دھاڑ، آپا دھاپی میں مجھے 1937 کے تقسیم ہند سے پہلے کے وہ انتخابات یاد آگئے جب ہزار سال کے بعد ہندوؤں کو پہلی بار کانگریس کی صورت میں ہندوستان کی حکومت ملتی ہے تب کی ہندو کانگریس بھی ہندوستان میں تقریباً یہی کچھ کرتی ہے جو آج بی جے پی کررہی ہے۔ اُس وقت بھی گائے کے گوشت پر پابندی لگادی گئی، سرکاری ملازمتوں کے دروازے مسلمانوں پر بند کردیئے گئے، اسکولوں میں وندے ماترم لازمی قرار دے دیا گیا۔ بے شمار علاقوں میں اذان دینے پر پابندی لگادی گئی اور نماز کے دوران مساجد پر حملے ہونے لگے۔

درحقیقت کانگریس کا یہی دور پاکستان بننے کا بہت بڑا محرک بنا۔ بالکل جیسے اُس وقت ہندوؤں کی انتہا پسند پالیسیوں نے برصغیر میں ایک واضح تقسیم پیدا کردی اور پاکستان وجود میں آیا۔ ایسی ہی تقسیم بی جے پی حکومت دوبارہ اپنی پالیسیوں سے ایک بار پھر ہندوستان میں پیدا کرچکی ہے۔ اردو کے ایک شعر کا مفہوم ہے کہ حاثہ یک دم نہیں ہوتا، ''وقت'' اس حادثہ کے لئے اس کی برسوں پرورش کرتا ہے۔



عامر خان کو تھپٹر مارنے کی بات اس لئے ہورہی ہے کیونکہ اس نے ہندوستان کی سیکولرازم کی جڑیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔ عامر خان نے کہا تھا کہ اُن کی بیوی نے بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی وجہ سے ہندوستان چھوڑ جانے کی بات کہی ہے۔ ذرا سوچئے اگر عامر خان جیسا معروف اور ہر دلعزیز فنکار خطرہ محسوس کررہا ہے تو وہاں عام مسلمان کی حالت کیا ہوگی اور عامر خان کو تھپٹر مارنے کا کہہ کر گویا عامر خان کی کہی بات کو شیو سینا نے سچ ثابت کردیا۔ یہ حادثہ بھی یک دم نہیں ہوا بلکہ اِس کے پیچھے گجرات کے مسلمانوں کا قتل عام ہے، عیسائیوں کو گرجوں میں زندہ جلا دینے کے واقعات ہیں۔ ہندوستان کے سرکاری اسکولوں کی کتابوں میں پاکستان ہندوستان نیپال بھوٹان کو ''اکھنڈ بھارت'' کے طور پر پڑھائے جانے کی بیمار ذہنیت ہے، گائے کے گوشت کھانے پر موت کی سزا کا اندھا قانون ہے اور سب سے بڑھ کر جب ایک قاتل کرمنل شخص جس پر انسانیت کے خلاف جرائم پر امریکہ اور برظانیہ نے اپنے ملکوں میں داخلے پر پابندی لگائی ہوتی ہے، جب وہی شخص جب ہندوستان کا وزیر اعظم بنتا ہے تو تب ہندوستانی سیکولرازم کی ہمت جواب دے جاتی ہے۔ معاشرہ تقسیم در تقسیم ہونے لگتا ہے اور ہندوستان کی اقلیتیں پھر سے کسی قائداعظم محمد علی جناح کا انتظار کرنے لگتی ہیں۔

اب ماضی کی باتوں سے نکل کر ایک بار پھر اگر عامر خان کے معاملے پر بات کی جائے تو مجھے تو گمان ہوتا ہے کہ جیسے بھارت میں تقسیم کی بنیاد عامر خان نے رکھ دی۔ اگر حیران ہورہے ہیں تو ہرگز مت ہوں کیونکہ ایسا کہنے کے لیے میرے بات وجہ بھی ہے۔ جب عامر خان کو تھپڑ مارنے پر ایک لاکھ کا اعلان ہوا تو یقینی طور پر ہزاروں نہیں لاکھوں لوگوں نے ایسا کرنے کی کوشش کی ہوگی مگر سیکورٹی کے سبب یہ ممکن نہیں ہوسکا۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں کسی دل جلے نے ایک ویب سائٹ تیار کی اور لوگوں کو موقع دیا کہ وہاں عامر خان کو تھپڑ مارکر غصے کی آگ کو ٹھنڈا کریں۔ لوگوں کا غصہ ٹھنڈا ہو بھی رہا تھا لیکن اِسی دوران عامر خان کے چاہنے والے میدان میں آئے۔ پہلے تھپڑ مارنے والی ویب سائٹ کو ہیک کیا اور پھر جہاں تھپڑ لگ رہے تھے وہاں پیار اور محبت کی باتیں ہونے لگیں۔ اب اُسی ویب سائٹ پر لوگوں سے کہا جارہا ہے کہ اگر آپ عامر خان سے محبت کرتے ہیں اور اُن کی بات کو ٹھیک سمجھتے ہیں تو اپنے جذبات کا اظہار کریں اور دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں بھارتیوں نے اپنی حمایت کر وزن عامر خان کے پلڑے میں ڈال کر بہت بڑی تفریق اور تقسیم کی بنیاد رکھ دی۔

اگر بھارتی حکومت چاہتی ہے کہ لوگ پہلے کی طرح مل جل کر رہنا شروع کردیں تو ضروری ہے کہ اُس کو میدان میں آنا ہوگا۔ معاملے کو ٹھنڈا کرنا ہوگا، اگر اُس نے ایسا نہیں کیا تو پھر دیکھتے ہی دیکھتے بھارت کب دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گا کسی کو خبر تک نہیں ہوگی، اور اگر ایک بار بھی ایسا ہوگیا تو کشمیر تو چھوڑیے بھارتی حکمرانوں کو اپنے ملک بچانے کے لالے پڑجائیں گے۔

[poll id="802"]

نوٹ: یکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں