غلامی کی تین زنجیروں میں قیدی عوام پہلا حصہ

عوام کو تین طرح کی زنجیروں میں عالمی سامراج اور ملکی اشرافیہ نے جکڑا ہوا ہے۔


خالد گورایا November 28, 2015
[email protected]

HOCKENHEIM: عوام کو تین طرح کی زنجیروں میں عالمی سامراج اور ملکی اشرافیہ نے جکڑا ہوا ہے۔(1) اشرافیہ کی معاشی غلامی (2) اشرافیہ کی جمہوری غلامی (3) سامراج کی معاشی غلامی۔ اشرافیہ (جاگیردار+سرمایہ دار+اعلیٰ بیوروکریسی) عوام کو جمہوریت کے نام پر اپنا غلام بنا لیتی ہے۔ اشرافیائی جمہوریت میں عام شہری حصہ نہیں لے سکتا، کیونکہ الیکشن میں کروڑوں روپے سیاسی دھندلے میں لگائے جاتے ہیں،جاگیردار ذاتی ملکیت ''زرعی زمین'' کی طاقت پر اپنا اثرو رسوخ تھانہ، کچہری اور انتظامیہ پر رکھتا ہے۔

زرعی غلام اس کے اثرورسوخ کے سامنے بے بس ہوکر جاگیردار کے حکم پر وہی کچھ کرتے ہیں جوجاگیردار چاہتا ہے۔جاگیرداروں کی طرح سرمایہ دار شہروں میں اپنا دباؤ ''سرمائے'' کی بنیاد پر استعمال کرکے الیکشن جیتتا ہے۔ عام شہری اور دیہی آبادیوں کے کسان جاگیرداروں، سرمایہ داروں کی طاقت کے خوف سے وہی کچھ کرنے پر مجبور ہیں۔ جو اشرافیائی طبقہ چاہتا پاکستان بننے سے قبل اور بعد میں جتنے الیکشن ہوئے تمام الیکشنوں میں اشرافیہ ہی اقتدار اور اسمبلیوں پر قابض چلی آرہی ہے۔

سامراجی امریکا اشرافیائی جمہوریت کو طاقت اور مردہ ڈالر (1914 کے بعد آج تک امریکا نے کئی ہزار کھربوں ڈالر چھاپ کر پوری دنیا میں پھیلائے ہوئے ہیں۔ اگر ساری دنیا کے مردہ ڈالر اکٹھے کرکے امریکا سے کہا جائے کہ ان کے بدلے ہمیں سونا یا اشیا دے دو تو امریکا نہیں دے سکے گا۔ امریکا 15 اگست 1971 کو ڈیفالٹر ہوگیا تھا۔ تمام ممالک کے پاس 1971 میں فارن ایکسچینج ریزرو ، 80 ارب 82 کروڑ 56 لاکھ 30 ہزار ڈالر تھا اور دیگر تمام ممالک کے مقابلے میں امریکا کے پاس سونے کی مقدار 291.60 ملین اونس سونا تھا۔ جس کی ڈالر میں قیمت 43.63 ڈالر فی اونس کے حساب سے 12 ارب 72 کروڑ25 لاکھ 8 ہزار ڈالر بنتی تھی۔ امریکا 68 ارب 10 کروڑ31 لاکھ 22 ہزار ڈالر سے ڈیفالٹر ہوچکا تھا۔

فارن ایکسچینج رکھنے والے ممالک اگر ڈالر اپنی معیشت سے نکال دیتے تو انھیں اس کا بڑا نقصان ہوتا اور پھر یورپی ممالک نے آزادانہ مارکیٹ میں ڈالر اور اپنی کرنسیوں کو سامنے رکھ کر سونے کے مقابلے میں طلب ورسد کی بنیاد پر لندن گولڈ پول میں ڈالر کی قیمت سونے کی بنیاد مقرر شروع کردی، جو اب تک ایسے ہی جاری ہے۔ جس ملک کے پاس جتنے مردہ ڈالر تھے انھوں نے مردہ ڈالر کو جعلی و تصوری گولڈ سے جوڑکرکاروباری دنیا میں مردہ ڈالر کو سہارا دیا ہوا ہے۔ سال 2014 میں پوری دنیا کے پاس فارن ایکسچینج ریزرو 121 کھرب77 ارب 80 کروڑ 17 لاکھ 30 ہزار ڈالر تھے اور ترقی یافتہ یورپی ممالک تجارتی لین دین مردہ ڈالر میں کر رہے ہیں اگر مردہ ڈالرکو معیشت سے نکال دیا جاتا ہے تو یورپی ممالک مردہ ڈالر کی ضمانت نہیں دیں گے بلکہ سارا ملبہ امریکا پر گرے گا۔

یہ اعداد و شمار کتاب IFS May 2015 کے صفحے 20 سے لیے گئے ہیں۔امریکا اور ترقی یافتہ ممالک معاشی غلام ملکوں کے حکمرانوں کو مردہ ڈالر کے قرضے دے کر اشرافیائی جمہوریت کو تقویت دیتے ہیں۔ پاکستانی اشرافیہ امریکی حکومت کے حکم پر بجٹ سازی کرتی آرہی ہے۔ مالی سال 1947-48 کو حکومت نے عوام پر ٹیکس لگا کر 206.097 ملین روپے ریونیو لیا تھا۔ اور مالی سال 2013-14 کو حکومت نے پورے ملک کے عوام سے 36 کھرب 37 ارب 29 کروڑ 70 لاکھ روپے کا ریونیو لیا تھا۔ 1947-48 سے 2013-14 یعنی 68 سالوں کے دوران 17 لاکھ 64 ہزار 7 سو 47 فیصد ریونیو میں اضافہ کیا گیا اور عوام کا معیار زندگی اسی نسبت سے آگے نہیں بڑھا بلکہ الٹا پیچھے دھکیل دیا گیا۔اگر اشرافیائی حکمران عوام کے خیرخواہ ہوتے تو آج اشرافیہ کے پاس افراط زر نہ ہوتا اورعوام قلت زرکا شکار نہ ہوتے حکمران عوام سے ہر شے پر ٹیکس وصول کر رہے ہیں اگر آپ ماچس خریدتے ہیں تو اس ایک ماچس کی قیمت ٹیکس سمیت دو روپے ہے۔ جو 1947-48 میں ایک پیسے کی چار ملتی تھیں۔

اشرافیہ کے لیے ''عوامی خزانے'' پر قبضے کے لیے اشرافیائی الیکشن ہونا ضروری ہے۔ اگر ''عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے کی عوامی جمہوریت'' ہوتی تو آج اشرافیہ کے طبقے کا جنت نما معیار زندگی نہ ہوتا۔ اور عوام کی زندگی دوزخ جیسی نہ ہوتی۔ عوام کو ''جمہوری غلام'' اور ''معاشی غلام'' بنائے رکھنے کے لیے اشرافیہ نے سیاسی سجادہ نشینی کو مضبوط کیا ہوا ہے، وڈیروں، چوہدریوں، خانقاہوں کے متولیوں، مذہبی ٹھیکیداروں نے ہمیشہ عوام کو جمہوری، معاشی قیدی بنانے کے لیے قانون سازی کی ہے۔ 68 سالوں میں کسی بھی اسمبلی میں عوام کی غربت ختم کرنے پر بحث نہیں ہوئی ہے۔ اسمبلیاں ایسا اسٹیج ہیں جہاں حزب اختلاف اور بااقتدار ٹولے ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا ان سیاسی اداکاروں کو عوام کے سامنے سجا کر پیش کرتے ہیں۔

سامراج کی معاشی غلامی کا آغاز قائم مقام گورنر جنرل سکندرمرزا نے جولائی 1955 کو پاکستانی کرنسی روپے کی قیمت 3.340 روپے سے 4.762 روپے فی ڈالر کرنے سے کیا تھا اور 43 فیصد روپے کی قیمت میں کمی کا منفی اثر ملکی تمام اداروں پر پڑا۔ عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم 1955-56 میں 1.93 ڈالر کا ایک بیرل تھا۔ پاکستان پہلے 5.45 روپے کافی بیرل پٹرولیم لے رہا تھا۔ Curruncy Devaluation Minus Economic Development کے نافذ ہونے کے بعد پاکستان نے وہی پٹرولیم 9.19 روپے کا خریدا۔ ایکسپورٹرز اور امپورٹرز ہمیشہ اپنا نفع ہر حالت میں وصول کرکے عوام کو مہنگائی منتقل کردیتے ہیں۔ CDMEDسڈ مڈ لگنے کے بعد ایکسپورٹرز کے لیے ''ڈالرٹریڈنگ'' نفع بخش کاروبار ثابت ہوتا گیا۔

بیرونی منڈی مقابلے ایکسپورٹرز سے کم ڈالر ریٹ پر اشیا فروخت کرکے ان ڈالروں پر ملک میں ڈالر کا نفع روپے سستے ہوجانے پر حاصل کرتے ہیں۔ جولائی 1955 کے سڈ مڈ کا منفی اثر تجارت پر مالی سال 1956-57 میں کھل کر سامنے آگیا۔ امپورٹ کا بل 2334.6 ملین روپے اور ایکسپورٹ کا بل 1607.6 ملین روپے ہوگیا۔ تجارت 727.0 ملین روپے سے خسارے میں چلی گئی۔ اس سے قبل 1952-53 سے 1955-56 تک تجارت سرپلس تھی۔ مالی سال 1956-57 کا بجٹ سڈ مڈ CDMED لگنے کے بعد 24.886 ملین روپے سے خسارے میں چلا گیا۔ اس سے قبل کے بجٹ سرپلس تھے۔ ایسا کیوں ہوا؟ امریکا کی یہ مالیاتی پالیسی تھی کہ آئی ایم ایف کے ممبر ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں کو ڈالر کے مقابلے کم کیا جائے کیونکہ ''عالمی کرنسی ڈالر'' میں تمام لین دین کا طریقہ رائج تھا۔ اور ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسیوں کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ سامراجی بلاک کو ہونے لگا۔ پسماندہ ملکوں کے لیے صنعتی کلچر کو آگے بڑھانا مشکل کردیا گیا۔ کیونکہ مقامی صنعتکاروں کے لیے مقامی کرنسی میں ڈالروں کے بدلے ادائیگی بڑھتی گئی۔ جس سے لاگتیں جوں جوں بڑھتی گئیں۔ توں توں مقامی صنعت کی تیار کردہ اشیاؤں کے مقابلے میں غیر ملکی اشیاؤں کی قیمتیں کم ہوتی گئیں۔

مئی 1972 میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی روپے کی قیمت 4.762 روپے سے 11.031 روپے فی ڈالر کردی گئی۔ یہ کمی 132 فیصد تھی۔ اس کا منفی اثر ملکی پوری معیشت پر ابھر کر آیا۔ کتاب International Financial Statistics (IFS) 1995 IMF. کے صفحے 180 پر پٹرولیم کی عالمی منڈی میں قیمت1971 میں 2.57 ڈالر فی بیرل تھی۔ پاکستان پٹرولیم 1971 میں 4.762 روپے فی ڈالر کے حساب سے 12.238 روپے کا فی بیرل لے رہا تھا۔ جولائی 1972 میں سڈ مڈ CDMED لگنے کے بعد عالمی منڈی میں 1972 میں پٹرولیم کی قیمت اوسطاً 2.80 ڈالر فی بیرل ہوگئی تھی۔ پاکستان نے یہ پٹرولیم 11.031 روپے فی ڈالر ہوجانے کے بعد 30.89 روپے کا فی بیرل خریدا۔ (ایک بیرل میں 36 گیلن امپریل اور ایک گیلن میں 4.546 لیٹر ہوتے ہیں) حکومت یا پرائیویٹ کمپنیوں نے 5.30 روپے فی لیٹر پٹرولیم خریدا اور اس میں ٹیکس لگا کر عوام پر مزید بوجھ ڈال گیا تھا۔

ایک طرف اشرافیائی حکومت کے اخراجات کا بوجھ عوام کی قوت خرید پر ڈالا گیا دوسری طرف سامراجی مردہ ڈالر کے استعمال کرنے کا ''مردہ ڈالر'' کا ٹیکس CDMED سڈمڈ لگا کر عوام کی قوت خرید پر ڈال دیا گیا۔ اس طرح عوام باہر سے آنے والی اشیا کی عالمی حالات و منڈیوں میں بڑھتی قیمتوں کی بھی ادائیگیاں کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ان مہنگی اشیا پر مزید ''مردہ ٹیکس'' CDMED کی وجہ سے ادا کر رہے ہیں تیسرا عوام ان اشیا پر مزید اشرافیائی حکمرانوں کے اخراجات کی ادائیگی کے لیے ریونیو کی شکل میں ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ (جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں