جہلم میں آ کر فیل ہو گیا

اپنا بوریا بستر اُٹھائیں اور یہاں سے چلے جائیں۔ جس کو دیکھیں وہ ہمیں یہ ہی کہہ رہا ہے


انیس منصوری November 25, 2015
[email protected]

لاہور: اپنا بوریا بستر اُٹھائیں اور یہاں سے چلے جائیں۔ جس کو دیکھیں وہ ہمیں یہ ہی کہہ رہا ہے۔ اب ایک سراج الحق صاحب کی ہی کمی تھی انھوں نے بھی یہ فرمان جاری کر دیا۔ یورپ والے کہتے ہیں کہ کوئی ہمارے یہاں اب نہیں آئے گا۔ سب اپنے اپنے ملکوں میں ہی مر جائیں۔ جہاں انھوں نے لوگوں کے مرنے کا بھرپور انتظام کیا ہوا ہے۔ افغانستان میں انھوں نے جہنم بنایا۔

شام، عراق اور لیبیا کو انھوں نے موت کا کنواں بنا دیا۔ اب فرمان جاری کر دیا کہ کوئی بھی ہماری پرامن جگہ میں نہیں آ سکتا۔ بھارت والے یہ فرماتے ہیں کہ سارے مسلمان یہاں سے چلے جائیں۔ اور محترم سراج الحق صاحب کے جاننے والے یہ کہتے رہتے ہیں کہ بھارت اپنے سیکولر ہونے کا پاس رکھے اور مسلمانوں کو برابری کا حق دے۔ لیکن کیا کیجیے کہ سراج الحق صاحب بھی اب لوگوں کو یہاں سے بھیجنے لگے ہیں۔ اب پتہ نہیں اُن لوگوں نے سراج الحق کی بات سُن لی ہے جو اس وقت یورپ کی سرحد پر مظاہر ہ کر رہے ہیں۔ اور کہہ رہے ہیں کہ ہم پاکستانی ہیں ہمیں یورپ قبول کر لے۔ اخبارات میں جو تصویر شایع ہوئی ہے اس میں انھوں نے ہاتھ میں بینر پکڑا ہوا ہے۔ جس میں لکھا ہوا ہے کہ ہم وہیں سے آئے ہیں جہاں ہمارے بچوں کو مارا جا رہا ہے۔

کاش سراج الحق صاحب اپنی تقریر میں یہ بھی فرما دیتے کہ جہلم میں جو کچھ ہوا ہے اس میں امریکا اور بھارت کا ہاتھ ہے۔ اس میں کوئی پاکستانی کبھی ملوث ہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ پاکستان ایک لبرل اور جمہوری ملک نہیں ہے۔

اور جو یہاں لبرل اور جمہوریت کی بات کرتا ہے اُسے اس ملک میں ہم رہنے نہیں دیتے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم ہمیشہ جمہوریت کا نام لے کر الیکشن لڑتے ہیں۔ اور ترازو کے دونوں پلڑوں کو برابر برابر رکھتے ہیں۔ جہاں ہمیں جمہوریت کو چومنا ہو، وہاں ہم سر آنکھوں پر رکھتے ہیں اور جہاں ہمیں تھوڑی سی ٹھیس پہنچے تو ہم جمہور کا گلہ پکڑ لیتے ہیں۔ سراج الحق صاحب کا فرمان تھا کہ جناب اگر قائد اعظم اور علامہ اقبال زندہ ہوتے تو وہ جماعت کا ہی حصہ ہوتے۔ یہ الگ بحث ہے کہ مولانا مودودی انھیں قبول کرتے یا نہیں کرتے۔ لیکن خیر ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ اب سراج الحق صاحب نے جو گزارشات دی ہیں اُس پر نواز شریف صاحب کیا سوچ رہے ہیں؟

شاید مجھے لگتا ہے کہ سراج صاحب کا یہ مشورہ آج سے سولہ سال پہلے پرویز مشرف صاحب نے مان لیا تھا۔ اور ایسی سوچ رکھنے والے نواز شریف کو یہاں سے جانے کے لیے کہا تھا۔ مگر ایسے شخص کو جس کی سوچ لبرل اور جمہوریت والی ہو اُسے سعودی عرب نے کیسے مہمان رکھ لیا تھا؟ اس بار بڑا گیم پلان کرنا ہو گا۔ اور اُن تمام ملکوں کو بھی منع کرنا ہو گا جو اسلام کے سب سے بڑے علمبردار ہیں۔ ایک سفارتی مہم شروع کرنا بہت زیادہ ضروری ہے۔

جو یہ بتا سکے کہ آخر انھیں جانا کہاں چاہیے۔ سراج الحق صاحب نے جس جوش سے کہا ہے کہ انھیں بھارت جانا چاہیے تو پہلے اُن سے تو پوچھ لیں کہ وہ لبرل اور جمہوری سوچ کے آدمی کو لینگے یا نہیں۔ کیونکہ انڈیا کی حکمران جماعت نے تو اعلان کر دیا ہے کہ وہاں ہندوؤں کے علاوہ کسی اور کو برداشت نہیں کیا جائیگا۔ اب آپ کا مشورہ اُن لوگوں کے لیے کیا ہو گا جنھوں نے یہ لبرل جمہوریت کا نعرہ لگایا ہے۔ یورپ انھیں لے نہیں رہا۔ اب لے دے کر سعودیہ رہ گیا ہے۔

ہمارے ایک دوست اکثر مجھ سے پوچھتے ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح یا پھر ان کے رفقاء میں سے کسی نے یہ کیوں نہیں کہا کہ جس کسی نے پاکستان بننے کی مخالفت کی تھی وہ پاکستان نہیں آئیگا یا پھر جس جو اُس خطے میں رہتے ہیں جہاں پاکستان بننے جا رہا ہے وہ لوگ یہاں سے چلے جائیں؟ میرے لیے یہ سوال اہم ہے۔ الٹا انھوں نے یہ کہہ دیا کہ یہاں سب لوگ رہ سکتے ہیں۔ چاہے وہ ہندو ہوں یا سکھ۔ اب انھوں نے یہ کیوں نہیں کہا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جہلم میں لگی آگ کہ ابتدا بھی وہی سے ہوتی ہے جو آج کل یہاں سے سب کو بھیجنے کی بات کر رہے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ جماعت اسلامی کے محترم امیر کافی سیاسی شعور رکھتے ہیں۔ اور کتابوں کا مطالعہ بھی کرتے ہیں۔ ان کی میں اُس دن سے بہت زیادہ عزت کرتا ہوں جب بحران کی حالت میں انھوں نے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا۔ عمران خان اور موجودہ حکومت کے علاوہ اعلی حلقوں کو بھی میز پر لاتے رہے۔ لیکن کیا اُس دوران انھوں اپنے قریبی اتحادی عمران خان صاحب سے یہ پوچھنا مناسب سمجھا تھا کہ نواز شریف تو لبرل ازم اور جمہوریت کی باتیں کر رہے ہیں مگر ڈی چوک پر آپ عملی مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے آپ کو فورا پاکستان چھوڑ کر انڈیا چلا جانا چاہیے۔ کیونکہ ہم آپ کے اتحادی ہو کر یہ سب برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔ کراچی میں آج کل ترازو اور بلا ایک ساتھ مارچ کر رہے ہیں اُس میں موسیقی کا بھرپور استعمال ہو رہا ہے تو کسی نے یہ ہمت کی ہے کہ اس دوغلے پن سے تحریک انصاف کو باز رکھا جائے۔ اور انھیں کہا جائے کہ الیکشن ختم ہونے کے بعد آپ شرافت سے یہاں سے چلے جائیے گا۔

انھیں چاہیے کہ اب اپنی تقریر میں اس بات کو بار بار دہرایں کہ ہم جیسے ہی حکومت میں آ گئے تو ہم مودی کا بھرپور مقابلہ کرینگے۔ اگر وہ ایک بار کہے گا کہ گائے کا گوشت کوئی نہیں کھائے گا تو ہم یہاں ساری گائیں ذبح کر دینگے۔ اگر اس بار شیو سینا نے کوئی بدتمیزی کی تو ہم اُس کا منہ توڑ جواب دینگے۔

اور اس عزم کا اظہار بار بار کیجیے کہ ہم تم سے کم نہیں ہے۔ اگر تم تھوڑا کرو گے تو بہت زیادہ کرینگے۔ انڈیا میں اگر وزیر اعلی یا آسام کا گورنر یہ کہے گا کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کے لیے ہے تو آپ یہ کہہ دیجیے کہ پاکستان صرف ہمارا ہے۔ اور اس رو سے تو آپ کے سوا یہاں کوئی رہنے کے قابل نہیں ہو گا۔ وہاں کوئی کرکٹ کا دشمن بنا پھرتا ہے تو آپ بھی پیچھے مت رہیے اور فورا پاکستان کرکٹ بورڈ کے سامنے مظاہرہ کیجیے کہ ہم سری لنکا جیسی غیر مسلم جگہ پر کرکٹ نہیں کھیلیں گے۔ اُن سے صاف اور واضح الفاظ میں کہہ دیجیے کہ ہم کرکٹ کی سخت مخالفت کرتے ہیں وہ چاہے لڑکیوں کی ہو یا پھر لڑکوں کی۔

ہمیں تو یہ بتایا گیا تھا کہ لبرل ہونے کا مطلب صرف اتنا ہوتا ہے کہ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو اور سامنے والوں کا کوئی بھی عقیدہ ہو کوئی ایک دوسرے کو چھیڑے گا نہیں۔ سب اپنے اپنے عقیدے اور عبادت میں آزاد ہونگے۔ کیا کسی کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور تعریف ہے تو براہ مہربانی مجھ جیسے کم علم شخص پر نگاہ کرم کیجیے کہ کہیں میں نے جوش جذبات میں کوئی غلط بات تو نہیں لکھ دی ہے۔ ہم پوری دنیا سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اپنے اندر برداشت لائیے۔

جس طرح سے مسلمانوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ اس سے نفرتیں بڑھ رہی ہیں۔ کوئی ایک گروہ دہشت گرد ہو سکتا ہے۔ لیکن امت مسلمہ مجموعی طور پر امن پسند ہے۔ وہ لوگ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ایسے دہشت گرد گروہ تو ابھی 50 سال پہلے یہودیوں میں بھی تھے جو دوسرے مذاہب پر حملہ کر کے فخر محسوس کرتے تھے۔ ایسے تو اب بھی امریکا کے اندر عیسائی موجود ہیں۔ جب ہم یہ بات کرتے ہیں کہ دنیا برداشت کا مظاہرہ کرے اور ہم سب مسلمانوں کو ایک ہی قطار میں کھڑا نہ کرے۔

جب ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ایک عام مسلمان کے لیے مغرب انتہا پسندی کا مظاہرہ مت کرے۔ تو میری خطا کو بچہ سمجھ کر معاف کر دیجیے اور بتا دیجیے کہ جو درس ہم دنیا کو دیتے ہیں وہ اپنے اوپر استعمال کرتے ہوئے کیوں ڈرتے ہیں۔ اب اس کا سیاسی حل بھی دیکھ لیجیے کہ جب ہم دنیا کو یہ بتا رہے ہیں کہ انڈیا انتہا پسند ہندوؤں کے نرغے میں چلا گیا ہے۔ وہ اب سیکولر ملک نہیں رہا۔ وہاں مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ زندہ جلایا جا رہا ہے۔ تو اس صورت میں ہم دنیا کو اپنا کون سا چہرہ دکھائیں؟ وہ جو نواز شریف صاحب نے کہا ہے یا پھر جس کا پرچار سراج الحق صاحب کر رہے ہیں۔ مقامی نہیں بلکہ خطے اور بین الاقوامی سیاست پر وزیر اعظم صاحب نے ایک کارڈ کھیلا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ یہ کارڈ جہلم میں آ کر فیل ہو گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں