سیکولرازم عیاشی نہیں بھارت کی ضرورت ہے

پچھلے بارہ ماہ کے دوران مجھے بھارت میں تین مختلف اجتماعات سے خطاب کا موقع ملا


Babar Ayaz November 20, 2015
[email protected]

لاہور: عدم برداشت، انتہا پسندی کا نتیجہ ہوتا ہے۔مذہبی انتہا پسندی ، حد سے زیادہ قوم پرستی ، اورکسی نظریے یا نسلی برتری کے بارے میں انتہا پسندانہ سوچ ایسے عارضے ہیں ، جو دوسروں کے بارے میں عدم رواداری کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ بھارت میں ان دنوں عدم تحمل میں اضافہ باعث ِ حیرت نہیں ہے۔مودی کی انتخابی مہم کے دوران یہ نظر آرہا تھا کہ انتہا پسندانہ نظریات اور فرقہ وارانہ سیاست بازی، تحمل سے عاری BJP کے پیروکاروںکو گنجائش مہیا کرے گی۔مودی مذہبی شدت پسند قوم پرستوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اپنی تقریروں میں بلاوجہ پاکستان کوگھسیٹتے رہے۔

پچھلے بارہ ماہ کے دوران مجھے بھارت میں تین مختلف اجتماعات سے خطاب کا موقع ملا جہاں میں نے اس بات کی وضاحت کی کہ پاکستان میں1970 کے بعد ہونے والے انتخابات میں کسی بھی اہم سیاسی رہنما نے بھارت کے خلاف منافرت پھیلانے کی کوشش نہیں کی ۔ میںنے یہ بھی کہا کہ پاکستان نے شروع میں مذہب کو سیاست کے ساتھ ملا کر غلطی کی اور اب وہ اس مہلک سیاسی ترکیب کی خون خرابے کی صورت میں بھاری قیمت ادا کر رہا ہے۔ میں نے گزارش کی تھی کہ بھارت کو ہماری غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے کیونکہ مذہب کو سیاست میں لانے سے معاشرے میں عدم برداشت کو فروغ ملے گا، مگر میں ہمیشہ سے پُرامید رہا ہوں کہ مودی کی ہندووتا سے دور ایک سیکولر انڈیا ہے جیسا کہ حافظ سعید کے جہاد سے دور ایک امن پسند پاکستان ہے۔

آج پوری دنیا میں سیکولر قوتیں تشویش بھری نظروں کے ساتھ بھارت میں عدم برداشت کی ابھرتی ہوئی لہرکو دیکھ رہی ہیں۔بھارت میں سیکولر قوتیںمتحد ہو رہی ہیں اور RSS اور BJP کی طرف سے جو ہندوتوا اقدار کو آگے بڑھانا چاہتی ہیں شروع کی جانے والی عدم برداشت کا مقابلہ کر رہی ہیں ۔یہ ان سیکولر اقدارکے بر عکس ہے جن کی بھارت کو 21 صدی کی جمہوریت کی حیثیت سے آگے بڑھنے کے لیے ضرورت ہے۔

رومیلا تھاپر اور ارون دھتی رائے جیسے ممتاز دانشوروں اور متعدد دوسرے فنکاروں نے معاشرے میں عدم برداشت کو فروغ دینے پرکھل کر حکومت کی مذمت کی۔ بہار میں سیکولر قوتوں کی کامیابی بھی مودی کی ہندوتوا اور الیکشن کے دوران قوم پرستی کی آخری حدوں کو چھوتی ہوئی تقریروں کی نفی ہے۔اس کے علاوہ یہ نتیش کمار اور لالو کے سیاسی اتحاد MY(Muslim-Yadav)کی پالیسیوں کی بہترکارکردگی کا بھی اظہار ہے۔مودی کے نظریاتی دوست جس بات کو سمجھ نہیں پا رہے وہ یہ ہے کہ سیکولر ازم بھارت کی ضرورت ہے، سیاسی عیاشی نہیں ہے، کیونکہ یہ کوئی بند معاشرہ نہیں ہے۔

آئیے بھارت میں مذہبی لحاظ سے آبادی کی ترتیب پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔2001 کی مردم شماری کے مطابق 1028 ملین کی آبادی میں سے 80.5 فیصد ہندو،13.4 فیصد مسلمان (تازہ ترین سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی بڑھ کر 14.6 فیصد ہوچکی ہے) اور2.3 فیصد عیسائی ہیں۔ جب کہ 1.9 فیصد سِکھ،0.80 فیصد بودھ اور0.4 فیصد جین مت کے پیروکار ہیں۔اس کے علاوہ 6 ملین سے زیادہ لوگ ایسے ہیں جو قبائلی مذاہب سمیت دیگر مذاہب اور عقائد کے ماننے والے ہیں ۔یہ مذہب ہندوستان کے چھ بڑے مذاہب سے مختلف ہیں۔یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ بھارت کی آبادی کی اکثریت ہندومذہب پرکار بند ہے۔

اگرچہ بھارت کی کل آبادی میں مسلمانوں کا تناسب 14 فیصد سے اوپر ہے، مگر بیشتر ریاستوں(صوبوں) میں ان کی شرح ِاوسط قومی شرح سے زیادہ ہے۔آسام میں ان کی شرح اوسط 30.9 فیصد،مغربی بنگال میں25.2 فیصد،کیرالا میں24.7 فیصد، اتر پردیش میں18.5 فیصد، بہار میں16.5 فیصد اور جموں وکشمیر میں 64 فیصد سے زیادہ ہے۔چنانچہ یونین کے زیر انتظام چھوٹے سے جزیرے Lakshadweep سے لے کر جہاں مسلمانوں کی آبادی 90 فیصد ہے، کشمیر تک مسلمانوں کی بڑی بڑی آبادیاں ہیں جنھیں ختم نہیں کیا جا سکتا۔

اس کے ساتھ ہی تین شمال مشرقی ریاستوں ناگا لینڈ، میزو رام اور میگھالیا میں عیسائیت ایک بڑا مذہب بن کے ابھری ہے۔دوسرے صوبوں اوریونین کے زیرانتظام علاقوں میں بھی عیسائیت کے پیرو کار ہیں، مثلاً منی پور میں ان کی آبادی 34.0 فیصد، گوا میں 26.7 فیصد انڈیمان اور نیکوبارجزائر میں 21.7 فیصد،کیرالا میں19.0 فیصد اور ارونا چل پردیش میں 18.7 فیصد ہے۔یہ کل آبادی کی خاصی بڑی تعداد ہے۔اسی طرح پنجاب سکھ مذہب کا مضبوط گڑھ ہے۔ پنجاب میں سکھوں کی آبادی، ملک کی مجموعی سکھ آبادی کا 75 فیصد ہے۔

بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ بھارتی دلت مختلف گروپوں پر مشتمل لوگوں کی ملی جلی آبادی ہے جو مختلف زبانیں بولتے ہیں اورمختلف مذاہب کے ماننے والے ہیں۔سرکاری طور پر انھیں شیڈول کاسٹ کہا جاتا ہے ان کی شرح اوسط16.6فیصد ہے اور 8فیصد شیڈول قبائل کے ساتھ ملا کر یہ بھارت کی آبادی کا25 فیصد بنتے ہیں۔اگر چہ بھارت کی سرکاری دستاویزات میںدلت یا شیڈول کاسٹ کو ہندو شمارکیا گیا ہے ،مگر بھارتی آئین کے معمار ڈاکٹر بی آر امبیکر سے لے کر Kancha Ilaiah تک جو"Why I am not a Hindu"کے مصنف ہیں، دلت دانش وروں نے واضح طور پر کہا ہے کہ ''دلت ہندو نہیں ہیں یہاں تک کہ وہ جن دیوتاؤں کی پوجا کرتے ہیںان کا تعلق بھی برہمن ازم سے نہیں ہے۔''

میں صرف اس وجہ سے ہندو پیدا نہیں ہوا تھا کہ میرے والدین کو معلوم نہیں تھا کہ وہ ہندو ہیں۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں مسلمان، بودھ، سکھ یا پارسی پیدا ہوا.... میرے ماں باپ کی صرف ایک شناخت تھی اور وہ ان کی ذات تھی، وہ Kurumass تھے۔ان کے تہوار بھی مقامی تھے،ان کے دیوی دیوتا بھی مقامی تھے اوربعض اوقات تو وہ صرف ایک ہی گاؤں تک محدود ہوتے تھے ۔'' (Kancha 2006)

اب اگر ہم 20 فیصد غیرہندو آبادی اور25 فیصد دلت اور دوسروں کو الگ کردیں تو بھارت کی لگ بھگ45 فیصد آبادی کو برہمن ازم/ہندوتوا کی بھینٹ نہیں چڑھایا جا سکتا۔چنانچہ آر ایس ایس، وی ایچ پی، بی جے پی اور بجرنگ دَل جو سب ہندو انتہاپسندی کا ورثہ ہے، مقبول بیانیہ نہیں ہے۔دل کھول کر پیسہ خرچ کرنے کے باوجود پچھلے انتخابات میں بی جے پی صرف31 فیصد ووٹ حاصل کر پائی۔ی جے پی کے تمام ووٹرز نے اُس کے سیکولر دشمن ایجنڈے کی حمایت نہیں کی۔ بی جے پی کی جیت میں کانگریس کی غلطیوں اور پچھلے پانچ سال کے دوران اس کی ناقص کارکردگی کا بھی عمل دخل تھا۔بھارت کے صاحب بصیرت لیڈر جواہر لعل نہرو نے اس بات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے کہ بھارت کا آئین سیکولر ہونا چاہیے.

ملک کے تین سو سے زیادہ شہروں اورگاؤں دیہات کا سفرکیا تھا۔'' نہرو: (سیکولر ازم)کا مطلب مذہب اورضمیرکی آزادی ہے بشمول ان لوگوں کی آزادی جن کا کوئی مذہب نہیں ہے۔اس کا مطلب ہے تمام مذاہب پر عمل کی آزادی، مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ ایک دوسرے میں مداخلت نہیں کریں گے اور نہ ہماری ریاست کے بنیادی تصور میں کسی مذہب کا عمل دخل ہو گا۔''سیکولر بنیاد پرست مانی شنکرآئر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ'' بھارتی سیکولر ازم مذہب دشمن یا لا مذہب نہیں ہوسکتا، کیونکہ ہمارے عوام کی اکثریت انتہائی مذہبی ہے ۔یہ پاپائیت کی طرح نہیں ہے جہاں سے یہ لفظ نکلا، بھارت میں سیکولر ازم کا مطلب ریاست کو مذہبی اتھارٹی کے مقابل کھڑا کرنا نہیں ہے بلکہ عقیدے کے معاملات کو ذاتی حدود اور ریاستی معاملات کو سرکاری حدود کے اندر رکھنا ہے۔''

(Aiyar 2004: Confessions of a secular fundamentalist)

(کالم نگارWhat's Wrong with Pakistan کے مصنف بھی ہیں۔)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں