ہم سب کٹھ پتلیاں ہیں

ہمسائے کے بیٹے کی عادتیں دیکھ کر اماں نے صاف پیش گوئی کردی کہ بڑا ہوکر سیاست دان بنے گا۔



ہمسائے کے بیٹے کی عادتیں دیکھ کر اماں نے صاف پیش گوئی کردی کہ بڑا ہوکر سیاست دان بنے گا۔ جھوٹ، دھوکہ، وعدہ خلافی، بدزبانی، مصلحت پسندی، خود غرضی، بہتان تراشی کم بخت میں کوئی ایسی بات نہ تھی کہ جس کی کمی ہو۔

پہلی مرتبہ ہمیں اماں کی بات سے اتفاق ہوا۔ میدان سیاست میں قسمت آزمائی کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا یا پھر اندرونی و بیرونی امور پر ماہرانہ نظر رکھنا ضروری تو نہیں۔ اللہ جمہوریت کو سلامت رکھے پشت پر بھاری ہاتھ ہونا چاہیے۔ جیت گئے تو وارے نیارے۔ بھاڑ میں جائیں وعدے۔ لوگ بے چارے راگ الاپتے رہیں ''ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا وعدہ نہیں بھولے'' اگر آپ نہیں بھولے تو اس میں ہمارا کیا قصور۔ کتنے آئے اور گئے اتنے تجربے کے باوجود اگر عقل نہیں آئی تو اب بھگتو۔ تماشا دکھا کر مداری گیا۔

تجربے کی تو بات ہی نہ کریں تلخ و شیریں تجربات ہماری زندگی کا حصہ ہیں ان کے بغیر حقیقتاً زندگی بدمزہ سی لگتی ہے۔ لیکن اب تو واقعی زندگی بدمزہ سی ہوتی جا رہی ہے۔ تلخ واقعات و تجربات کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے۔ شاید تناسب کے اس بگڑنے میں ہمارا اپنا حصہ یا کردار ہے۔ یا پھر آج کل قدرت ہم پر مہربان نہیں۔ ویسے آپ کو ایک بات بتائیں راز کی۔ توبہ ہے خیال ہی نہیں رہتا۔ میڈیا کی موجودگی میں کوئی راز، راز نہیں رہا۔ ذرا سا طیش آیا یا بات بگڑتی نظر آئی ہم غصے میں تمام راز اگل دیتے ہیں۔

خیر ہمیں کیا ہم تو آپ کو یہ بتا رہے تھے کہ زندگی کے تمام خوشگوار تجربات کا اندراج ہم اپنے ذاتی رجسٹر میں کراتے ہیں اور تمام تر برائیوں کا بوجھ دوسرے کے کاندھے پر ڈال دیتے ہیں۔ خیر یہ کوئی نئی بات نہیں پرانی عادت ہے بلکہ اب تو ہمارے مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔ ویسے قسمت کو دعا دینی چاہیے۔

ہمارے بے عملی کے نتائج بھی قسمت کے کھاتے میں چلے جاتے ہیں۔کھاتے کی تو بات ہی نہ کریں جب بڑے بڑے کھاتے کھلتے ہیں تو لوگ ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور جب کھاتے بند ہونے لگتے ہیں تو واپس آجاتے ہیں عوام کا کیا ہے وہ کر بھی کیا سکتے ہیں سوائے راگ الاپنے کے'' عوامی طاقت عوامی طاقت''لیکن عوامی طاقت کے اصل معنی و مفہوم کا کسی کو پتہ ہی نہیں۔ ہم سب کٹھ پتلیاں ہیں ہماری ڈور تو کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے فیصلے بھی ہمارے نہیں ہوتے۔ ہاں اثرات ہم پر ضرور پڑتے ہیں۔

فیصلوں کا کیا ہے سوچ سمجھ کر ہم کوئی فیصلہ کرتے ہی نہیں ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فیصلوں پر شرمندہ ہوکر ہم انھیں تبدیل کردیتے ہیں۔ ہم نے سنا تھا کہ فیصلہ کرو اور قائم رہو۔ لیکن دانشمندی کے ساتھ اور دوررس نتائج ہمیشہ مدنظر رکھو۔ ایک عزت ہی تو ہوتی ہے وہ بھی ختم ہوجائے تو زندگی مجسم شرمندگی بن کر رہ جاتی ہے۔

لیکن صاحب عزت بھی بڑی عزت والی ہوتی ہے، دور حاضر میں بندوں کے اطوار دیکھ کر چپ چاپ طاق پر اپنے آپ کو رکھ کر سمٹ گئی اور پھر طاق سے طاق نسیاں ہوگئی۔سمٹنے کا کیا ہے اشراف سمیٹتے جا رہے ہیں اور پھیلاؤ بڑھتا جا رہا ہے ۔پھیلاؤ تو اب گندگی کا بھی بڑھتا جا رہا ہے۔پہلے کچرا کنڈی مخصوص ہوتی تھی اب ہر جگہ موجود ہے۔ جہاں جی چاہے تھیلی پھینک دو اور پھر ایسی برکت ہوگی کہ تھیلی سے تھیلیاں اور پھر تھیلے بن جائیں گے۔

مہنگائی کی طرح کچرے میں اضافہ ہوگا آپ جہاں چاہیں کچرا خانہ بنالیں۔ ایسے علاقے جو پڑھے لکھے ہوئے لوگوں کے ہیں وہاں بھی یہی حال ہے تعلیمی ادارے کی دیوار یا ریستوران کھانے پینے کی جگہیں ہر جگہ کچرا ہی کچرا۔ کرلو جو کرنا ہے۔ اگر آپ کے گھر کے باہر کوئی کچرا پھینک جائے تو کیسا لگے گا؟

گندگی کسی کو بھی مہذب معاشرے میں اچھی نہیں لگتی لیکن کیا کیا جائے مہلک بیماری کی طرح گندگی تمام شعبہ زندگی میں پھیلتی جا رہی ہے۔ اب آپ اگر صفائی مہم کا آغاز کر بھی دیں تو اس گندگی کو صاف کرنے اور بدبو و جراثیم سے بچنے میں اتنا وقت لگے گا کہ مزید جراثیم جنم لے چکے ہوں گے یہ سب ہمارا کیا دھرا ہے اگر ہم ابتدا میں ہی خیال رکھیں تو انتہا کی نوبت نہ آئے گی۔ اور جب بات انتہا تک پہنچ جائے تو بات کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے۔

یہاں گھر کا نظام سنبھالنا مشکل ہوتا ہے ناکہ پوری قوم کی کشتی پار لگانے کا دعویٰ۔تاریخ نے ایسے کئی ناخدا دیکھے ہیں۔ جو ساحل پر کھڑے ہوکر ڈوبتی کشتی کا نظارہ دیکھتے ہیں۔ ہمیں تو اس وقت سے ڈر لگتا ہے۔ جب ہر طرف سے اہل کشتی یہ آواز نہ لگانے لگیں کہ ہم تو ڈوبیں گے صنم تمہیں بھی لے ڈوبیں گے۔ اماں کہتی ہیں کہ بیٹی! کبھی کبھی آگ لگانے والے خود بھی آگ کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔لیکن کیا کیا جائے فطرت سے باز نہیں آتے کئی مقامات پر تاریخ نے گواہی دی ہے کہ گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ اس سے بڑا نوحہ اور کیا ہوگا۔

بڑے کہتے تھے کہ گھر بنائے جاتے تھے گھر بسانے کے لیے لیکن صاحب بنانا تو درکنار ہم تو بنے بنائے گھروں کو اجاڑنے میں لگے ہوئے ہیں اللہ جانے کیا مزاج بن گئے قوت برداشت ختم۔ آپس کی محبت ختم۔ رشتوں کی کہانیاں ختم صرف نفسا نفسی۔ گھر کے حصے بندر بانٹ جھگڑا اور گھر کا ساز و سامان کا بٹوارہ اور آخر میں گھر بیچ دو۔ اور پھر کٹی پتنگ کی طرح بے سرو ساماں۔ دربدر۔ بڑے جو کچھ ہمارے لیے کر گئے اس کی حفاظت کے بجائے اس کو برباد کرنے میں لگے ہیں۔ احسان فراموشی کی انتہا ہے۔

انتہا کی تو بات ہی نہ کریں بددیانتی، ناانصافی اور ظلم میں ہم انتہا سے گزر جاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ سورۃ المائدہ۔ 5:87۔ میں آیا ہے کہ ''اور حد سے تجاوز نہ کرو۔ اللہ کو زیادتی کرنے والے سخت ناپسند ہیں۔''

کیا ہم ایک دوسرے کے ساتھ زیادتی نہیں کر رہے ہیں۔ غریب قوم کا مال ہڑپ نہیں کر رہے۔ ملک کے خزانے کو نہیں لوٹ رہے۔ غریبوں کو مزید غربت کی طرف نہیں دھکیل رہے۔ جھوٹے وعدے نہیں کر رہے۔ بے ایمانی، لوٹ مار، چوری اور ڈاکے جیسی لعنتوں کو نہیں اپنا رہے۔ ذاتی مفادات کی خاطر منفی راستوں کو نہیں اپنا رہے۔

اپنا دامن بچانے کے لیے دوسروں کی عیب جوئی نہیں کر رہے۔ دوسروں کی کمزوریوں کی تشہیر نہیں کر رہے اپنے کو بچانے کے لیے دوسروں کو نہیں پھنسا رہے۔ تمام مثبت سوچوں کو فراموش کرکے منفی سوچوں کو اپنے ذہن کی آماجگاہ بنا چکے ہیں اور اتنے مصروف ہوگئے ہیں ان تمام کاموں میں کہ آئینہ دیکھنے کی فرصت بھی نہیں ملتی۔ آئینہ جو کبھی جھوٹ نہیں بولتا جو ہمیں ہمارا اصل چہرہ دکھاتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم میں اپنا اصل چہرہ دیکھنے کا حوصلہ ہے؟ ایک لمحہ ضرور سوچیں کہ اللہ کو زیادتی کرنے والے سخت ناپسند ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں