بلوچستان جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا

جب یہ بلوچ نسل لاہور، کراچی یا اسلام آباد میں میڑو بسوں کے اڈے، اونچی عمارتیں اور فلائی اووز دیکھے گی تو کیا سوچے گی؟


عثمان فاروق November 22, 2015
بلوچستان کے لوگ بہت مہمان نواز ہیں اور وہ جو ایک تاثر پایا جاتا ہے کہ بلوچ پاکستان سے نفرت کرتے ہیں وہ کہیں پر بھی نظر نہیں آیا۔

پچھلے دنوں بلوچستان کے سفر کا موقع ملا جس میں کوئٹہ میں اڑک، ہنا جھیل، مندر سدھ پانی ناتھ جی اور قلعہ کوئٹہ دیکھنے کا موقع میسر آیا۔ پھر کوئٹہ سے زیارت بذریعہ سنجاوی تک کا سفر ہوا۔ زیارت سے آگے لورالائی تک بھی پہنچے اور پھر سفر کے دوسرے مرحلے میں کوئٹہ سے قلات اور خضدار بھی گئے۔

اس طویل سفر میں بے شمار لوگوں سے ملاقات ہوئی اور بلوچستان کی سیاسی، ثقافتی اور امن و امان کی صورتحال کو نہایت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جس کو نہایت مختصر مگر جامع انداز میں اپنے قارئین تک پہنچانا چاہوں گا۔ اس سفر میں جو بھی سنا اور دیکھا بنا کسی ردو بدل کے ایمانتداری سے لکھ دیا ہے کسی کو کوئی بات بُری لگے تو پیشگی معذرت خواں ہوں۔
سیاسی صورتحال

کوئٹہ میں جابجا محمود خان اچکزئی کی پختونخواہ عوامی پارٹی کے جھنڈے لگے نظر آتے ہیں، وہاں کے ایک مقامی آدمی سے دریافت کیا کہ محمود خان اچکزئی کی کوئٹہ میں مقبولیت کی وجہ کیا ہے تو وہ کہنے لگے، مقبولیت کوئی نہیں ہے انہوں نے غیر قانونی طور پر مقیم افغانیوں کو لاتعداد جعلی شناختی کارڈ بنوا کر دیئے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے الیکشن جیت جاتے ہیں۔ بلوچستان کے طول و عرض میں سفر کرتے وقت اگر دیواروں پر لکھے نعروں کی بنیاد پر بلوچستان کے مقبول ترین لیڈر کا فیصلہ کریں تو وہ مولانا فضل الرحمن ہیں کیونکہ جابجا دیواروں پر مولانا فضل الرحمن سے پاکستان اور اسلام بچانے کی اپیل کی گئی ہے۔ دوسرے نمبر پر (دیواروں پر لکھے نعروں کے حساب سے) پاکستان تحریکِ انصاف بلوچستان میں کافی مقبول ہے کیونکہ اکثر نعروں میں عمران خان کو یہودیوں کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا گیا تھا۔ تیسرے نمبر پر مسلم لیگ نون کے نعرے درج تھے اور کافی تلاش کے بعد ایک دیوار پر جماعت اسلامی بھی نظر آئی، جبکہ پیپلز پارٹی اور انقلاب کے دعویدار علامہ قادری کسی دیوار پر نظر نہ آسکے۔
لوگوں کا عمومی مزاج

بلوچستان کے لوگ بہت مہمان نواز ہیں اور وہ جو ایک تاثر پایا جاتا ہے کہ بلوچ پاکستان سے نفرت کرتے ہیں وہ کہیں پر بھی نظر نہیں آیا بلکہ جتنے پاکستانی جھنڈے ہم نے بلوچستان کی گلیوں، گھروں اور دکانوں پر دیکھتے اتنے پاکستانی جھنڈے تو یوم آزادی کے موقع پر پنجاب، سندھ یا خیبر پختونخواہ میں دیکھنے کو نہیں ملتے۔ ایک نعرہ بلوچی زبان میں پورے بلوچستان کی دیواروں پر لکھا ہوا دیکھا اور وہ تھا ''ننا جان نما جان پاکستان پاکستان'' جب ایک مقامی آدمی سے اس کا مطلب پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ اس کا مطلب ہے'' تیری جان میری جان پاکستان پاکستان ''۔






امن و امان کی صورتحال

امن وامان کی صورتحال کی ذمہ داری بلوچستان میں ایف سی کی ہے جو کہ بلاشبہ ایک بہت کٹھن ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں۔ پچھلے چند سال پہلے بلوچستان کے اسکولوں میں قومی ترانہ پڑھنا بھی ممنوع تھا، مگر اب ایف سی کی قربانیوں سے اس پر قابو پا لیا گیا ہے۔ ایک تو مجموعی سیکیورٹی ایف سی کی ذمہ داری ہے پھر دوسری طرف اسمگلنگ کو روکنا، ایران جانے والے زائرین کو تحفظ دینا، ریل کی پٹریوں اور سوئی گیس کی تنصیبات کی رکھوالی جیسے مشکل کاموں کی ذمہ داری بھی ان کے ذمہ آتی ہے۔ بلوچستان میں سیکیورٹی کے حوالے سے بلوچستان پولیس کا کوئی کردار نہیں بلکہ وہاں جاکر تو یہ محسوس ہوا کہ بلوچستان میں پولیس کا محکمہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
اسکولوں کا معیار تعلیم

بلوچستان میں فرنٹئیر کور بلوچستان کے تحت چلنے والے اسکول اور کالجز کا معیار کافی اچھا ہے جبکہ گورنمنٹ اسکولوں کا معیار جنوبی پنجاب کے اسکولوں سے مختلف نہیں ہے۔ بلوچستان کی نئی نسل آگے بڑھنا اور پاکستان کی خدمت کرنا چاہتی ہے اور وہاں کے ابتدائی جماعتوں کے بچے بھی چاہتے ہیں کہ ان کے اسکول میں کمپیوٹر لیب ہوں، جدید اسکول بلڈنگز اور فزکس، کیمسٹری کے طالبعلموں کے لئے معیاری سائنسی لیبارٹریاں ہوں۔ حکومت اگر ذرا سی توجہ دے تو بلوچستان کی اس ننھی سی طالبعلم آبادی کی اس معصوم سی خواہش کو پورا کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔


بلوچستان وزارت داخلہ کا کردار

بلوچستان میں امن و امان کے حوالے سے وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی اور ان کے والد میرغلام قادر بگٹی کا کردار نہایت اہم رہا ہے، بہت سارے باغیوں کو جن کو وہاں کی زبان میں فراری کہا جاتا ہے انہیں ہتھیار ڈالنے پر آماد ہ کرنے میں انکا کردار تاریخ ساز رہا ہے۔ اب آئے روز فراریوں کی بڑی تعداد ہتھیار ڈال کر پُرامن شہری بن رہے ہیں جو کہ ہمارے دشمن ملک ہندوستان کے لئے ایک بڑی خبر ہے جس پر سرفراز بگٹی اور ان کے والد غلام قادر بگٹی بلاشبہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
آخری بات

بلوچستان میں ایک چیز کی کمی شدت سے محسوس ہوئی اور وہ تھی بلوچستان میں جدید انفراسڑکچر کی کمی۔ بد قسمتی سے آج جو لوگ پاکستان سے باہر یا اندر بیٹھ کر بلوچوں کے حقوق کے نام پر علیحدگی کی بات کررہے ہیں وہ سب یا اُن کے بڑے بلوچستان میں صاحب اقتدار رہے، پھر اُن کو اربوں روپے کے فنڈز ملتے رہے مگر انہوں نے بلوچستان میں اسپتال سڑکیں اور اسکولز کیوں تعمیر نہ کروائے؟ میں قلات سے بھی گذرا۔ وہاں کے لوگوں سے ملا ہوں اور اُن پر ترس آتا ہے کہ کدھر ہے وہ خان آف قلات؟ آخر قلات کے بادشاہوں نے قلات میں کوئی بڑا اسپتال، کوئی اچھی یونیورسٹی کیوں نہ بنوائی؟ میں سوچ رہا تھا کل کو یہ بلوچ نسل جب لاہور کراچی یا اسلام آباد آئے گی وہاں پر میڑو بسوں کے اڈے، اونچی عمارتیں، انڈر پاسسز اور فلائی اووز دیکھیں گے تو وہ کیا سوچیں گے؟ بلوچستان کے وزیراعلی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ صاحب اکا آبائی علاقہ بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ میں اُن سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وزیراعلی آپ ڈھائی سال سے بلوچستان کے وزیراعلیٰ ہیں کیا آپکو ڈھائی سالوں میں اتنے فنڈز بھی نہیں ملے کہ آپ اپنے آبائی علاقے کی حالت ہی درست کروالیں، نہ وہاں پر کوئی ڈھنگ کی سڑک ہے نہ اسکولوں کی حالت بہتر ہے اور نہ ہی وہاں لوگوں کو صحت کی سہولیات میسر ہیں۔

میاں نواز شریف صاحب مانا کہ بلوچستان کا ووٹ بینک بہت کم ہے مگر خدارا بلوچستان کو بھی آپ کی ضرورت ہے۔ بلوچ لوگ دل و جان سے پاکستان کو چاہتے ہیں۔ آپ ضرور لاہور میں اورنج ٹرین بنائیں مگر بلوچستان میں بھی کوئی میٹرو بنادیں، وہاں بھی کوئی دانش اسکول پراجیکٹ شروع کریں یا کم ازکم ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے اتنا ہی پوچھ لیجئے کہ بلوچستان کے حصے میں جو فنڈز آتے ہیں وہ کہاں جاتے ہیں؟

[poll id="765"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں