نمک
یہ عظمت فیروز شہاب کون ہے، میں نہیں جانتا، میری ان سے کوئی بھی ملاقات نہیں ہوئ
یہ عظمت فیروز شہاب کون ہے، میں نہیں جانتا، میری ان سے کوئی بھی ملاقات نہیں ہوئی، پھر یوں ہوا کہ اچانک ایک دن میرے دوست رانا صاحب نے مجھے نمک تھمایا اور بولے ''تھوڑا تھوڑا لیتے رہیے گا۔'' میں گھر آیا اور نمک اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا۔ یہ ٹوٹکے بھی ہمارے ہاں برسوں سے چلے آرہے ہیں۔ مجھے یاد ہے ابھی آٹھ دس سال پہلے شوگر کے مریضوں میں ایک پیر صاحب نے چینی کی پڑیاں تقسیم کرنا شروع کردی تھیں۔ یہ بڑا عجیب علاج تھا، مگر دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں کا مجمع لگنے لگا،کہیں لمبی لمبی قطاریں،کراچی کے بعد پیر صاحب نے حیدرآباد میں ڈیرے ڈال دیے اور پھر وہ حکیم نما پیر غائب ہوگئے۔
ہمارے دوست رانا صاحب کا دیا ہوا نمک گھر میں پڑا تھا، ایک صبح میں نے نمک اٹھایا ہی تھا کہ بیل بجی میں دروازے پرگیا ایک صاحب کھڑے تھے۔بولے میرا نام عظمت فیروزشہاب ہے اور پھر پوچھا ''نمک سے کچھ افاقہ ہوا؟'' میں نے کہا ''میں نے تو ابھی تک نہیں کھایا'' پھر میں نے کہا ''یہ دیکھیے نمک میرے ہاتھ میں ہے۔آج ہی کھانے کا ارادہ کیا تھا''عظمت صاحب بولے ''صبح کا وقت چہل قدمی کے لیے اچھا ہوتا ہے۔اگر آپ کہیے تو ہم روزانہ واک کرلیا کریں؟ رانا صاحب کے ذریعے عظمت صاحب سے غائبانہ تعارف تو ہوچکا تھا۔ یوں بھی مجھے وہ دیکھنے میں اچھے لگے۔ نمک کی کشش کی طرح وہ مجھ تک کھنچے چلے آئے۔
اب ہم روزانہ صبح چہل قدمی کرنے لگے۔عظمت صاحب تو بڑے کمال کے آدمی نکلے، میرے خیال سے کہیں زیادہ پرکشش اور دلچسپ۔ باہرکے بڑے ممالک بھی دیکھ رکھے تھے اور اپنے وطن کی گلیاں، کوچے، بازار، کچے رستے، تنگ و تاریک سیم زدہ محلے سب جانتے تھے اور بلا کے داستان گو۔ اب میں اور عظمت روزانہ صبح ملتے کبھی کسی چائے خانے میں بیٹھ جاتے۔ کبھی میری لائبریری یا کبھی رستے گلیاں بازار عظمت روزانہ مجھے ایک نئی داستان سناتے۔ بعض قصے دو دو تین تین دنوں تک چلتے رہتے۔ عظمت ، اشفاق احمد کی طرح بہت ہی اچھے داستان گو تھے۔ جو قصے کئی دن چلتے۔ ان کے لیے میں اگلی صبح کا بے چینی سے انتظار کرتا۔
پہلا ذکر چھڑا تو بولے: ''میں 1970 میں ٹورنٹو گیا تھا، 70 کا ٹورنٹو آج کے ٹورنٹو سے بالکل مختلف تھا۔ ان دنوں ایشیائی باشندوں کی تعداد وہاں کم تھی۔ بس کبھی کبھی کوئی مانوس چہرہ کہیں نظر آجاتا تھا۔ پھر وہاں ایشیائیوں کی تعداد بڑھتی گئی، پھر عظمت ٹورنٹو کی سڑکوں، ٹریفک سگنلوں، کافی شاپوں اور اٹھلاتی گوریوں کے قصے سناتے ہوئے یہ بھی بتا گئے کہ رشید انھیں وہاں ملا۔ اپنے بڑے بھائی کے حوالے سے انھیں بہت کچھ یاد آیا۔ پھر انھیں ریاض ملا۔ ان کا دوست، ساتھی، مگر جانے کیوں ریاض نے انھیں پہچاننے سے انکارکردیا، اپنے وطن سے ہزاروں کوس دور جاکر ترجیحات یکسر بدل جاتی ہیں۔
ایک دن ہم صبح صبح واک کر کے آرہے تھے۔ صبح کے نو بج چکے تھے۔ علی مکینک کی دکان کھل چکی تھی اور چھوٹا جھاڑو لگا رہا تھا۔ عظمت نے چھوٹے کو دیکھا اور بولے ''چھوٹا اپنے معصوم آرزوؤں پر جھاڑو پھیر رہا ہے۔'' پھر انھوں نے ایک چھوٹے کا قصہ چھیڑ دیا۔ چھوٹے کی ماں، چھوٹے کا باپ، تنگ و تاریک گندی گلی میں بوسیدہ کواڑ پر لٹکتا بوری کا پردہ اور اندر بکھرے مسائل۔ ایک دن میں نے عظمت سے پوچھا ''یہ آپ نے تین ناموں والا نام کیوں رکھا ہوا ہے عظمت فیروز شہاب ؟'' تو وہ بولے ''اسے چھوڑو۔ آج میں تمہیں ''ساکے'' کی کہانی سناؤں گا۔ میں اور ساکا 60 کی دہائی میں بینک میں ملازم تھے۔ میں کلرک تھا۔ اور باؤ اسحاق (ساکا) چپڑاسی تھا۔ باؤ اسحاق کی داستان لہروں کی طرح کبھی اس شہر میں،کبھی اس شہر میں پھیلتی گئی۔عظمت پہلے اپنی داستان کو پھیلاتے ہیں، پھر انھیں سمیٹنے کا سلیقہ بھی خوب آتا ہے۔ عظمت نے مجھے جتنی بھی کہانیاں سنائیں ، وہ سب بڑی ہی دلچسپ تھیں۔ ان کا کہانی پھیلانا اور سمیٹنا، یہی بات ان کی بڑی خوبی ہے۔ ان کی کہانیاں سنتے ہوئے میں ان کے ساتھ ساتھ ہر اس جگہ سے گزرتا ہوں جہاں جہاں وہ کہانی کو لے جاتے ہیں۔ باؤ اسحاق کی کہانی میں جنرل ایوب کا ذکر بھی آیا، کیا کیا بیتی، کیسے کیسے ''سبز باغ'' قوم کو دکھائے گئے اور بعد کو وہ سب ''کالے باغ'' نکلے۔
اور ایک دن تو عظمت نے ایسی کہانی سنائی کہ بس کچھ مت پوچھیں۔ اللہ ہی جانے کہ یہ عظمت بھائی کیا شے ہیں۔ یہ ''دتو'' تھی۔ بلا کی خوبصورت لڑکی، مگر تھی کمیوں کی بیٹی، گاؤں میں پہلی بار اس چودہ پندرہ سال کی اٹھتی جوانی کو دھوبیوں کے لڑکے نے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ پھر شہر میں شاہوں کی حویلی کے سامنے بنی ہوئی کٹری میں اپنی خالہ کے ہاں آگئی۔ وہاں توقیر شاہ کے بڑے لڑکے حسن نے اس کی بیحرمتی کی ۔ طبیعت خراب ہونے لگی تو حسن نے چھوٹے بھائی فرزند علی کو کہا کہ دتو کا علاج کراؤ، حسن کا چھوٹا بھائی فرزند علی دل کا بڑا اچھا تھا۔ وہ دتو کے ساتھ ہونے والے مظالم پر اس کے ساتھ ہولیا، ماں باپ نے بچپن کی منگ سے شادی کردی۔ فرزند علی منع کرتا رہا، آخر نویلی دلہن کو طلاق دے کر باہر ملک چلا گیا۔ کئی سال بعد واپس آیا، دوستوں نے فرزند علی کی مدارات میں ہلہ گلہ کیا۔ فرزند علی کو یہ سب اچھا نہیں لگتا تھا، ایک رات دوست اسے دل بہار بیگم کے بنگلے پر لے گئے۔ فرزند علی نے دیکھا وہ دل بہار بیگم نہیں دتو تھی۔''دتو'' عظمت کی نمبر ون کہانی ہے جسے میں چھیڑ دیتا تھا اور وہ مزے لے لے کر سناتے تھے۔
عظمت کی ''نمک'' بھی غضب کی کہانی ہے۔ ایک جاگیردار نے ضرورتاً اپنے کارندے ''جمالے'' پر فائرکرکے اس کا بھیجا باہر نکال دیا اور قتل کا ملبہ اپنے دشمنوں پر ڈال دیا۔ اگلے روز چوہدری فرمان علی پولیس کو بیان دے رہا تھا۔ ''جمالا میرا انتہائی وفادار نمک حلال ملازم تھا، میرے خلاف کھڑے ہونے والے محمد دین نے میرا وفادار ساتھی مجھ سے چھین لیا۔ جمالے کا بیٹا شیربہادر باپ کے قتل کی کہانی کے ساتھ ساتھ بڑا ہوا تھا، کہ ''ملبہ کیسے ڈالنا ہوتا ہے۔'' ایک بار پھر حویلی کو ملبے کی ضرورت پڑ گئی۔ جمالے نمک حلال کا بیٹا شیربہادر بھی اپنے باپ کی طرح نمک حلال تھا۔ شیر بہادر نے اپنی ریشمی سرخ دھوتی کے 'ڈب' کو ٹٹولا اور چوہدری سے بولا ''ملبہ! یہ تو معمولی بات ہے۔چوہدری صاحب! میں نے ساری عمر آپ ہی کا نمک کھایا ہے۔'' پھر انتہائی پھرتی سے اس نے ڈب سے پستول نکال کر چوہدری کے بیٹے دلاور کے بھیجے پر رکھ دی اور گھوڑے کو دبا دیا۔
''بات اونچی تھی، لہٰذا ملبہ بھی اونچا چاہیے تھا۔''
عظمت کی کہانیاں ''کہاں تک سنو گے' کہاں تک سناؤں'' ان کی ہر کہانی نے مجھے مضبوط حصار میں لیا اور پھر نکلنے نہیں دیا اور جب چھوڑا تو اپنی مرضی سے چھوڑا۔ اب اگر آپ کو بھی عظمت فیروز شہاب کی کہانیاں سنائیں تو عظمت اور ہمارے مشترکہ دوست رانا عبدالرحمن نے اس کا اہتمام کردیا ہے۔ ''نمک'' کے نام سے ان کی کہانیاں کتابی شکل میں چھاپ دی ہیں۔ 312 صفحات پر پھیلی 13 کہانیاں، میرے علاوہ خواجہ ذکریا، اصغر ندیم سید، امجد اسلام امجد، نیلم احمد بشیر اور اسلم کولسری بھی سن چکے ہیں۔ میں کہہ چکا ہوں کہ عظمت صاحب بلا کے داستان گو ہیں جو بھی ان کے ہتھے چڑھ جائے پھر اسے جانے نہیں دیتے۔ یقین نہیں تو آزما لیں۔ عظمت صاحب سے رابطہ کرلیں۔اشاعتی ادارہ بک ہوم 46 مزنگ روڈ لاہور۔ یہیں عظمت فیروز شہاب ملتے ہیں۔
یہ تو میں نے چند کہانیاں آپ کے ساتھ ''حصہ داری'' کی ہیں۔ شگفتہ، کسک، دھواں، ڈڈا، چنگا نئیوں کیتا اوئے حسین، گوگا، گوگاجی، سکون اور منظور۔ ان میں بھی شگفتہ، ڈڈا، گوگا، گوگاجی کمال کی کہانیاں ہیں۔
نمک کے ملاپ سے گندھے ہوئے ہمارے عین ارد گرد موجود کرداروں کی کہانیاں جن کی سرسراہٹ مہینوں محسوس ہوتی رہتی ہے۔
عظمت فیروز شہاب کون ہے! میں نہیں جانتا، میں ان سے کبھی نہیں ملا۔ بس جب ''نمک'' اٹھاتا ہوں، وہ آ دھمکتے ہیں اور دیر تک ساتھ رہتے ہیں۔