آپ مجھ سے زیادہ عقل مند ہیں

یہاں ہر شخص اپنے حصے کی آگ جلانے میں مصروف ہے


انیس منصوری October 21, 2015
[email protected]

KARACHI: یہاں ہر شخص اپنے حصے کی آگ جلانے میں مصروف ہے ۔ جسے دیکھو ہاتھ میں پتھر لے کر دوسرے کا سر پھوڑنے کے لیے تیار کھڑا ہے، اگر کسی کے پاس آگ لگانے کے لیے ماچس نہیں تو دوسرا ہاتھ بڑھا کر اپنا جلتا ہوا سگریٹ اُس کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ شعلوں کی شدت میں کمی آنے لگے تو کوئی اپنی گاڑی کا تیل نکال کر اُس آگ میں ڈال دیتا ہے کہ بس کسی طرح یہ آگ بجھنے نا پائے۔ اس آگ میں ہم سب اپنی خوشیاں جلاتے ہیں۔ اس آگ میں ہم اپنی نسلوں کے مستقبل کو بھسم کر دیتے ہیں۔ ہمارے جو ارمان بچ جاتے ہیں، اسے اس کے دھویں میں ڈال دیتے ہیں۔ گھر، گلی، قصبہ، شہر، ملک اور دنیا، ہم لوگ سب کچھ تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

یہ کبھی کسی کے منہ پر کالا رنگ لگا کر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا چہرہ نور برسائے گا؟ تاریخ میں ایسا کبھی بھی نہیں ہوا ہے۔ یہ چند غنڈے یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ لفظ تو ہوا میں پھیل کر ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جاتے ہیں۔ یہ لفظ جو کتابوں میں ہوتے ہیں۔ اگر کسی کے منہ کو برا کرنے سے اُس کے الفاظ دب جاتے تو آج دنیا میں کہیں بھی سچائی کی آواز نہ ہوتی۔

جن کے مذہب میں موسیقی ایک اعلیٰ مقام رکھتی ہو۔ جس دھرتی نے ہمیشہ سُروں کے ذریعے دلوں پر حکومت کی ہو۔ وہاں ایک غلا م علی کو اجازت نہ دینے سے کیا روح کی غذا آنا بند ہو جائے گی؟ یہ لوگ کیوں بھول جاتے ہیں کہ دور جدید میں جب دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ جہاں آپ اپنے موبائل سے بیٹھے بیٹھے غلام علی کو سُن سکتے ہیں۔ وہاں غلام علی کا راستہ کیا یہ چند لفنگے روک سکتے ہیں۔ یہ جو مذہب کے چند سوداگر اپنی دکان چلانے کے لیے نفرت کے بیج سے اپنی دنیا کو آباد کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ اس بات کو کیوں بھول جاتے ہیں کہ آگ کسی کی بھی نہیں ہوتی ہے۔

مان لیتے ہیں کہ آپ کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ آپ کے سامنے گائے کو ذبح کیا جائے تو پہلی فرصت میں اپنی حکومت سے کہہ دیجیے کہ وہ جو کروڑوں روپے گائے کے گوشت سے کما رہی ہے وہ کاروبار بند کر دے۔ دنیا بھر کے اندر انڈیا گائے کا گوشت فراہم کرتا ہے۔ اُسے زندہ جلا دیں۔ کسی ایک بے چارے مسلمان پر غصہ نکالنے سے کیا ہو گا۔ گائے کی نسل کُشی تو انڈیا کے اندر اُن کی حکومت کی مرضی سے ہو رہی ہے۔

اور اگر آپ کے لیے یہ بھی ممکن نہیں ہے تو پورے مشرق وسطی سے لاکھوں ہندوؤں کو انڈیا واپس بلا لیجیے کیونکہ یہ تمام ملک وہ ہیں جہاں گائے کاٹی جا رہی ہے۔ کروڑوں ڈالر انڈیا کے لوگ ان ممالک سے کما کر انڈیا میں بھیجتے ہیں۔ خاص طور پر یورپ اور امریکا جانے والے ہندوؤں پر پابندی عائد کر دی جائے کیونکہ ان سب جگہوں پر سب مذہب کے لوگ گائے کو ذبح کرتے ہیں۔

یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ کوئی کسی کو ختم نہیں کر سکتا ہے۔ یہ حتمی بات ہے کہ انڈیا کے اندر مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں کو ایک ساتھ رہنا ہے۔ خود کو سب سے بڑی جمہوریت کہنے والا انڈیا آج اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وہاں اب جمہوریت صرف کاغذوں میں رہ گئی ہے۔ جہاں جمہوریت کا مطلب یہ ہی ہے کہ ہندوؤں کی اعلیٰ ذات کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ کیا معاشرے میں دیگر تمام آوازوں کو بند کر دینا جمہوریت ہے؟ کیا جمہوریت اس بات کا نام ہے کہ سب لوگوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنا مذہب تبدیل کر دیں۔ کیا جمہوریت کا مطلب یہ ہی ہے کہ اکثریت جو چاہے وہ کرے ۔ وہ جب چاہے کسی کا منہ کالا کر دے ۔ وہ جب چاہے جس کو چاہے جہاں چاہے زندہ جلا دے ۔

لیکن کیا یہ چند لوگوں کی غنڈا گردی کہہ کر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی دعویدار حکومت اپنا دامن بچا سکتی ہے۔ کیا ان چند لوگوں کی پس پردہ انڈیا کی حکومت کی کوئی پالیسی ہے۔ کیا مودی سرکار دنیا کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ ہم اب سب سے بڑے بدمعاش ہیں۔ کیا ہندوتوا کے خواب کے پیچھے سیدھے سادھے لوگوں کو لگا کر اپنا الُو سیدھا کیا جا رہا ہے۔

خود کو سیکولر کہنے والا ہندوستان کیا اب اپنا آئین تبدیل کر چکا ہے۔ جس خطے کی ہزاروں سال کی تاریخ برداشت اور محبت پر رقم ہیں وہاں اب خون کی ہولی کھیلی جانے والی ہے۔ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس خطے میں مسلمان حکمرانوں نے ہزار سال حکومت کی ہے اور جہاں اکبر جیسا بادشاہ بھی گزرا ہے۔ جہاں جنگ آزادی کے بعد جب انگریزوں نے تقسیم کرو اور حکومت کرو کا طریقہ اپنایا۔ کیا مودی سرکار بھی اُسی فارمولے پر عمل پیرا ہے۔ کیا انگریزوں کا خواب مودی پورا کر رہے ہیں کہ جہاں نفرتوں کے بیج اتنے بُو دیے جائیں کہ پھر تقسیم کو کوئی نہ روک سکے۔ سیکولر انڈیا کا مطلب کیا ہے؟ اب یہ مطلب نکالا جائے کہ اونچی ذات کے ہندوؤں کے علاوہ اب کسی کو بھی مذہب کی آزادی حاصل نہیں ہو گی۔

لیکن کیا یہ سب کچھ مودی سرکار کی مرضی سے نہیں ہو رہا۔ کیا ممبئی میں ہونے والے واقعات کے پس پردہ مودی سرکار کا ہاتھ نہیں ہے۔ شیوسینا اُن کی اتحادی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی مخلوط حکومت ہے۔ کیا اُس حکومت کی موجودگی میں مذہب کے نام پر دہشت پھیلانے والوں نے مسلمان رہنماؤں کے چہروں پر کالا رنگ نہیں پھیرا۔ سب کی موجو دگی میں مسلمان رہنماؤں پر تشدد نہیں کیا؟ اب ان سب کے بعد ہو گا کیا۔

وہ جو لوگ آپ کے ظلم سے تنگ آ چکے ہیں۔ ان کے اندر نفرت گہری ہو گی۔ جس کے شعلے آپ پنجاب کے سکھوں کے اندر بھی دیکھ رہے ہیں۔ ہر طرف سے انارکی پھیلے گی۔ میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ بھارت تیزی کے ساتھ اُس دلدل میں پھنسنے جا رہا ہے جہاں تقسیم اس حد تک گہری ہو جائے گی کہ اُسے روکنا مشکل ہو جائے گا۔ مودی کا دور اس خطے کی تاریخ کا سیاہ ترین دور کہلائے گا۔ مودی کا انجام ایسا ہی ہو گا جیسا ہٹلر کا ہوا۔ سیلفی لینے والے مودی کا وہ وقت دور نہیں جب لوگ ان کے ساتھ موجود اپنی تصاویر کو جلا دیں گے ۔ لوگ شرم محسوس کریں گے کہ اُن کی تصویر کس شخص کے ساتھ تھی۔

مگر اس سارے فسانے میں جب انڈیا آگ لگانے پر بضد ہے۔ تو ہم کیوں اس آگ کو اپنی طرف کرنا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں نے تو خود تباہی اپنے گلے میں پہن لی ہے۔ یہ خطہ اس وقت جل رہا ہے۔ ہمارے پڑوس میں انڈیا مذہبی شدت پسندوں کے ہاتھ میں جا چکا ہے۔ مشرق وسطی میں مذہبی تقسیم بڑھ چکی ہے۔ ایسے میں جب دنیا کے اندر مذہب اور فرقوں کی بنیاد پر تقسیم کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ دنیا ایک دلدل میں پھنس چکی ہے ۔

ایسے میں ہمیں کس طرف جانا ہے۔ انڈیا میں جو شدت پھیل رہی ہے ہمیں اُس سے خود کو دور رکھنا ہے، لیکن محسوس یوں ہو رہا ہے کہ کچھ شرپسند اپنی بے وقوفی میں ہمارے یہاں بھی اسی طرح کے جذبات ابھارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ ہمیں اوس پڑوس کی کہانیاں سُنا کر اس بات کی طرف لا رہے ہیں کہ ہمیں بھی شدت پسندی کی طرف جانا چاہیے۔ کسی بھی واقعے کو اس طرح سے نہ ابھارا جائے کہ ہم اُس آگ میں جھلسنے لگیں۔

آپریشن ضرب عضب کے بعد ہمارا ایک نیا سفر شروع ہوا ہے۔ جو ہر جگہ محسوس ہو رہا ہے۔ اس سارے معاملے میں ہمیں وہ غلطیاں نہیں کرنی چاہییں جو ہم نے 80 کی دہائی میں کی ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو تقسیم کی طرف نہیں لے جانا چاہیے۔ ہمیں وہ غلطیاں نہیں کرنیں جو افغان جنگ اور اُس کے بعد ہوئی ہیں۔ لوگ اس بات کو تسلیم کر رہے ہیں کہ آپریشن ضرب عضب نے اس قوم کو اُس سوچ سے نکالا ہے جہاں ہم کئی دہائیوں سے پھنس چکے تھے۔ اس سارے معاملے میں ہمیں اپنے معاشرے کو تقسیم اور شدت پسندی کی طرف نہیں لے جانا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں