شیوسینا کے ملک کی کچھ باتیں

اب پاکستان کو جواب دیدینا چاہیے کہ وہ اُس وقت تک بھارت کیخلاف سیریز نہیں کھیلے گا جب تک وہ خود کھیلنے کی خواہش نہ کرے۔


عثمان فاروق October 20, 2015
پاکستانی کرکٹ بورڈ کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ انہوں نے پاکستان کو مزید رسوا کروانا ہے یا ہندوستان کو مناسب جواب دینا ہے۔

یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا مرکزی شہر ممبئی ہے۔ ہندوستان کی درخواست پر پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان اور ایگزیکٹیو کمیٹی کے رکن نجم سیٹھی بی سی سی آئی کے دفتر پہنچتے ہیں تو ہندو انتہا پسند تنظیم شیوسینا کے بلوائی حملہ کر دیتے ہیں۔ اس سارے واقعے کی ویڈیو موجود ہے۔ بی سی سی آئی کے دفتر میں جس طرح ہندو بلوائی داخل ہورہے ہیں، ایسے تو کوئی کسی عام آدمی کے گھر میں بھی داخل نہیں ہوسکتا۔



سوال تو یہ ہے کہ آخر بھارتی پولیس یا سیکیورٹی اداروں نے ان بلوائیوں کو روکا کیوں نہیں؟ کیا یہ حملہ ہندوستانی سرکار کی مرضی سے کیا گیا تھا؟ اس سے پہلے شیوسینا کے بلوائی پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی کتاب کی تقریبِ رونمائی کو بھی تہس نہس کرچکے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ پاکستانی گلوکار غلام علی کے کنسرٹ کی منسوخی بھی اِسی شیو سینا کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ پھر صرف گائے کا گوشت کھانے کے شبہ میں مسلمان شہید کیے جارہے ہوں اور ممبئی شہر کی پولیس کی جانب سے بے گناہ مسلم نوجوانوں کو پاکستانی ایجنٹ قرار دے کر قتل کرنے کا سلسلہ جاری ہو۔ اسطرح کے بے شمار واقعات دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے کریڈٹ پر ہیں۔ ایسے حالات میں آخر وہ کونسی مجبوری تھی کہ شہریار خان پاکستان اور پوری قوم کو رسوا کرنے ہندوستان پہنچ گئے۔

https://twitter.com/salsalarman/status/656340609121193984

پاکستانی کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کو آخر کس چیز نے ہندوستان جانے پر مجبور کردیا؟ اگر ہندوستان سے کرکٹ کھیلنے کے لیے مذاکرات کرنا اتنا ہی ضروری تھا تو یہ مذاکرات یا بات چیت کسی نیوٹرل مقام پر بھی تو ہوسکتے تھے۔ غور کیجئے گا پاکستان نے کرکٹ ٹیم کیوں بنائی ہے؟ ایک تو بنیادی مقصد پاکستان میں کھیل کا فروغ ہے اور دوسرا سب سے بڑا بنیادی مقصد یہ ہے کہ جب پاکستانی ٹیم میچ جیتے گی تو دنیا میں پاکستان کا نام روشن ہوگا، مگر یہاں پر الٹ ہو رہا ہے، ایک ملک مسلسل کہہ رہا ہے ہم نے آپکے ساتھ کرکٹ نہیں کھیلنی اور دوسری طرف ہمارا پاکستانی کرکٹ بورڈ ہندوستان کے قدموں میں گرا ہوا ہے۔ آخر ہندوستان سے توہین آمیز شرائط پر کرکٹ کھیل کر پاکستان کا وہ کونسا فائدہ ہوجائے گا جو اب نہیں ہورہا؟ ایسے حالات میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین اعجاز بٹ کا بیان بہت غور طلب ہے کہ اگر ہندوستان پاکستان سے کرکٹ کھیلنا نہیں چاہتا تو، پاکستان کو بھی کہہ دینا چاہیئے کہ جہنم میں جاؤ ہم نہیں کھیلتے۔



اگر مجھ سے پوچھا جائے تو اعجاز بٹ کی بات بالکل درست ہے کیونکہ کھیلوں کے معاملات کا تعلق ملکی معیشت سے نہیں ہوتا کہ فلاں ملک سے میچ نہ ہوا تو ملک کی معیشت رک جائے گی۔ کھیل کا تعلق عزت سے ہوتا ہے، یہ بالکل واضح ہوچکا ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل بھی اس وقت ہندوستان کی مٹھی میں ہے، پاکستانی امپائر علیم ڈار کو بھی شیو سینا کی دھمکیوں کی وجہ سے بھارت افریقا سیریز سے باہر کیا جاچکا ہے۔ ایسے حالات میں پاکستانی کرکٹ بورڈ کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ انہوں نے پاکستان کو مزید رسوا کروانا ہے یا ہندوستان کو مناسب جواب دینا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہیئے کہ واضح طور پر اعلان کردے کہ ہندوستان کی غیر جمہوری پالیسیوں کی وجہ سے اب پاکستانی کرکٹ ٹیم ہندوستان کے ساتھ کوئی میچ نہیں کھیلے گی۔



ہوسکتا ہے اس بات پر کچھ لوگ کہیں کہ اسطرح تو پاکستانی کرکٹ بورڈ کو معاشی نقصان ہوگا تو جناب جو کچھ ہندوستان ہمارے ساتھ کررہا ہے اور خدشہ ہے کہ مستقبل میں اِس سے بھی بڑھ کر تضحیک آمیر رویہ اپنائے گا، اُس کا کیا کیا جائے؟ اگر ہمیں جانتے بوجھتے معاشی طور پر نقصان پہنچایا جارہا ہے تو پھر ہمیں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے سابق سربراہ احسان مانی کے مشورے پر عمل کرنا چاہیے۔ احسان مانی کا کہنا تھا کہ اگر بھارت دسمبر میں طے شدہ سیریز کھیلنے سے انکار کردے تو پاکستان کو چاہیے کہ آئی سی سی کو خط لکھے اور واضح طور پر کہے کہ وہ آئی سی سی کے کسی بھی ایونٹ کے راونڈ میچ میں بھارت کے خلاف احتجاجاً کوئی میچ نہیں کھیلے گا۔ مانی کا مزید کہنا تھا کہ پاک بھارت میچ سب سے زیادہ منافع دیتا ہے اور اگر یہ میچ نہیں ہوا تو آئی سی سی کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے مجبور کرے گا۔

لہذا اب یہ فیصلہ پاکستانی کرکٹ بورڈ کو کرنا ہے کہ وہ اِسی طرح سیریز کی اُمید لگائے رکھے گا یا پھر اپنی عزت نفس کو بحال کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بھارت کو منہ توڑ جواب دے گا کہ آج سے اُس وقت تک پاکستان بھارت کے خلاف کوئی سیریز نہیں کھیلے گا جب تک بھارت خود ہم سے کھیلنے کی خواہش کا اظہار نہ کرے۔

[poll id="724"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں