مضبوط اپوزیشن مضبوط جمہوریت

کم از کم دو صوبوں میں ہونے والی سیاست اس حقیقت کی غمازی کررہی ہے کہ وہاں اس کا رجحان صحت مند ہے


راؤ سیف الزماں October 20, 2015
[email protected]

کم از کم دو صوبوں میں ہونے والی سیاست اس حقیقت کی غمازی کررہی ہے کہ وہاں اس کا رجحان صحت مند ہے۔ میں پنجاب اور KPKکی بات کر رہا ہوں۔ جہاں PML-N اور PTIدو بڑی جماعتوں کی صورت ایک دوسرے کا مقابلہ بڑی عمدگی سے کر رہی ہیں۔ KPK جہاں ایک بڑی جماعت PTI ہے جب کہ حریف جماعتوں میں ANP،PML-N، PPP، JUI ودیگر جماعتیں بالترتیب سیاسی میدان میں برسر پیکار ہیں اور اس صورتحال کا فائدہ واضح ہے۔

جو عوام کو مل رہا ہے۔ کیونکہ Competition جہاں جس میدان میں بھی ہوگا وہ فریقین کو عوام کی خدمت پر مجبور کردے گا۔ حلقہ NA-122 لاہور کی سیٹ پر ہونے والے الیکشن کو جمہوریت کی بہترین مثال قرار دے سکتے ہیں۔

اس حلقے میں ہر دو جماعتوں نے بڑھ چڑھ کر عوامی خدمت کے دعوے ہی نہیں بلکہ عملاً کام بھی کیا، کیونکہ مقابلہ کانٹے کا تھا اور اپوزیشن فرینڈلی نہیں۔ سو۔ اس کے علاوہ چارہ نہیں کہ جو وعدہ آپ لوگوں سے کریں گے۔ اسے پورا کرنا ہوگا۔ وہ انرجی بحران سے متعلق ہو۔ سڑکوں، پلوں کی تعمیر یا تعلیم و صحت میں بہتری کا ہو۔ اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا ہوگا۔ گویا جمہوریت کے ثمرات رفتہ رفتہ عوام تک پہنچنے لگے۔

مثلاً عمران خان کے ایک تازہ بیان میں اتفاق فاؤنڈریز پر دو نئی شوگر ملز لگانے کا الزام عائد کیا۔ جواب میں ترجمان وزیر اعظم کو اس کی تردید کرنی پڑی اور یہ تردید عمران خان کی پریس کانفرنس کے فوراً بعد میڈیا کے کئی چینلز پر دیکھنے کو ملی۔ قارئین کرام! آپ اسے کم نہ سمجھیے۔ یہ واقعہ عام نہیں۔ بہت خاص ہے۔ یہ دراصل ایک تبدیلی ہے جو بتدریج ہونے جا رہی ہے۔ یہ وہ انقلاب ہے جس کی چاپوں کی آواز اب آنے لگی ہے۔

مجھے یقین ہوچلا ہے کہ آنے والا وقت جانے والے سے بہت مختلف ہوگا، لیکن جمہوریت کی ریل گاڑی پٹڑی پر موجود رہی تو۔ ہم پڑوسی ممالک سے انشاء اللہ بدرجہا ترقی پر ہوں گے۔ ہمیں سسٹم ہی تو درکار تھا اور اس کا تسلسل۔ وہ بفضل تعالیٰ مل گیا۔ حلقہ NA-122 لاہور کے نتیجے نے یہ بات ثابت کردی ہے بلکہ خوشی اس بات پر ہے کہ ہم اہم ہوگئے۔

ہمارے رہنما ہمیں اہمیت دینے لگے۔ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ 3 لاکھ یا 5 لاکھ لوگوں پر مشتمل یہ علاقہ اس کی آبائی جاگیر ہے۔ کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ یہ عوام اس کی ملکیت ہیں۔ ان کے دل و دماغ ان کی شخصیت کے سحر میں جکڑے ہیں۔ اب تو بھائی میٹرو بس بھی چلانی ہوگی، میٹرو ٹرین بھی۔ پٹرول بھی سستا کرنا پڑے گا، بجلی بھی۔ ڈیمز بھی بنانے ہوں گے، یونیورسٹیاں بھی۔ کیونکہ آپ یہ سب نہیں کریں گے تو آپ سے بہتر دوسرا موجود۔ گویا دکانیں جتنی مال اتنا سستا۔

باقی دو صوبے سندھ اور بلوچستان! وہاں البتہ یہ صورت حال یا تو نہیں یا کہہ لیجیے بہت مدھم ہے۔ وہاں جاگیرداری، وڈیرہ شاہی، پیری فقیری، سردار، نواب ورنہ شہید تو موجود ہیں ہی۔ ان دو صوبوں میں بدقسمتی سے جمہوریت موجود ہے۔ صوبائی حکومتیں بھی جو الیکشن ہی سے وجود میں آئی ہیں ، لیکن یہاں ابھی بہت کام ہونا باقی ہے اور ہو بھی رہا ہے۔

آپریشن کی صورت میں۔ ان Barriers کو توڑا جارہا ہے۔ مثلاً ان دنوں بلدیاتی الیکشن کی جو صورتحال میرے پیش نظر ہے وہ پنجاب میں یکسر مختلف ہے سندھ سے۔ پنجاب میں یہ الیکشن کارکردگی کی بنیاد پر ہو رہے ہیں، جب کہ سندھ میں جوڑ توڑکی۔ مثلاً فلاں نے فلاں کو بٹھادیا اور بلامقابلہ جیت گیا یا صوبائی مشنری کو حرکت میں لاکر کسی مخالف سے جبراً پارٹی میں شمولیت کروالی گئی۔گویا کارکردگی کوئی نہیں البتہ طاقت کا استعمال عام۔ میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی جیسی وفاقی اور بڑی جماعت حقائق سے آنکھیں کیوں چرا رہی ہے۔ وہ اسی روایتی سیاست کا شکارکیوں ہے جس نے اسے Shrinks کر کے صرف سندھ تک محدودکردیا؟ اس نے الیکشن 2013 کی ناکامی سے کوئی سبق کیوں نہیں سیکھا۔

میں چند دن بیشتر نواب شاہ میں بلاول بھٹو زرداری کی ایک ایسی میٹنگ میں موجود تھا جو انھوں نے معززین شہر سے ملاقات کے لیے بلائی تھی۔خیر معززین میں شامل کرنے پر میں ان کا مشکور ہوں، لیکن وہاں جس طرح کی گفتگو سننے کو ملی، ضلع بھر سے آئے ہوئے ان کے پارٹی عہدیدار و ایم پی اے، ایم این اے، بلدیاتی الیکشن میں کامیابی سے متعلق جو دعوے کر رہے تھے وہ بھی حیران کن تھے۔

اگرچہ وہ غلط نہیں کہہ رہے تھے۔ صورتحال یہی ہے۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ انھیں جماعتی نقصان کی پرواہ رتی برابر نہ تھی بلکہ وہ محض خوشامد درآمد میں لگے بلاول بھٹو کو یہ باور کروانے میں مصروف رہے کہ وہ ان کے جانثار ہیں اور جدی پشتی ہیں۔ زیادہ افسوسناک صورتحال سے دوچار جب ہونا پڑا جب میں نے دیکھا کہ بلاول بھٹو خود بھی اس صورتحال سے خاصے خوش اور مطمئن نظر آئے۔ مجھے اس بات کا بھی ملال ہوا کہ بلاول بھٹو میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی فہم و فراست نہیں۔

کچھ ایسی ہی صورتحال بلوچستان کی ہے۔ جہاں عبدالمالک بلوچ وزیر اعلیٰ ہیں۔ ویسے ان کی مقبولیت اور بردباری میں شک نہیں، لیکن بات اگر طرز حکومت کی ہو تو ان کا 3 سالہ دور حکومت بلوچستان میں کوئی خاطر خواہ یا محسوس ہونے والی تبدیلی نہیں لاسکا۔ نہ بڑی تعداد میں ناراض بلوچ اپنی ضد سے پیچھے ہٹے۔ سرداری اور سردار دونوں آج بھی اتنے ہی مضبوط جتنے پہلے تھے۔

عوام کو بہکانا آج بھی زیادہ مشکل نہیں۔سادہ الفاظ میں یا سیدھے الفاظ میں اس طرز معاشرت کو دور غلامانہ سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے۔ لیکن وہاں پر سکیورٹی فورسز کی شبانہ روز محنت سے برف کچھ پگھلی اور معاملات میں کم ازکم اس حد تک سدھار ضرور آیا کہ وہاں اب امن و امان کی صورتحال پہلے سے خاصی بہتر ہے۔

روز مرہ کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی کمی ہے۔ نیز اس صوبے کوکچھ بیرونی طاقتوں نے بھی اپنی غیر قانونی سرگرمیوں کی آماجگاہ بنایا ہوا تھا۔ جس میں مقامی سردار معاون ومددگار رہے۔ انھیں بھی وہاں سے نکال دیا گیا۔ مختصراً کہا جائے تو بلوچستان میں بھی بہت کام کرنا باقی ہے۔ بہت کچھ ٹھیک کرنا ہوگا۔ جس کے لیے بنیادی ضرورت تعلیم کی ہے۔ جس پر ہم اپنے بجٹ کا ایک مختصر سا حصہ مختص کرتے ہیں۔ حالانکہ پوری انسانی تاریخ اسی ایک نقطے پرکھڑی ہے کہ جہاں تعلیم عام ہوئی اور اس کا حصول آسان وہاں ترقی کی رفتار میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا۔ تعلیم دراصل شعورکی نشوونما ہے اور جب شعور پختہ ہوا تو اس نے بہترین معاشروں کی بنیاد رکھی۔

بہ الفاظ دیگرکسی معاشرے میں بہترین قدروں کو فروغ دیا۔ اگرچہ یہ عمل دیر آید ہوگا۔ لیکن جب بھی مکمل ہوگا ہماری نسلیں اس سے فیضیاب ہوتی رہیں گی۔ انقلاب فرانس کے داعی ''روسو'' کے اس قول کو عام کرنے کی ضرورت ہے کہ ''انسان غلام بننے کے لیے پیدا نہیں ہوا ۔ ایک نومولود بچے کا مذہب کیا ہے؟ اس کی قوم، حسب نسب کیا ہیں؟ وہ آزاد پیدا ہوتا ہے تو پھر بالغ ہونے پر غلامی اس کی منتظر کیوں؟''

بہرحال امیدکے درودریچے وا رکھنے چاہئیں۔ اس دعا کے ساتھ کہ ملک کے ان باقی دو صوبوں میں بھی جمہوریت، جمہوری روایات اپنی جڑیں مضبوط کرلیں۔ایک عام آدمی کو یہ یقین ہو کہ کسی کو سردار، راجہ مہاراجہ، اس کا انتخاب بناتا ہے۔ اس کا ووٹ وہ سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر یہ سب ملک کے دو فیصد بنتے ہیں۔

اور پھر ہمیشہ حکمران رہتے ہیں۔ ایسے حکمران جو ملیں بناتے ہیں، بیرون ملک اربوں کھربوں کی جائیدادیں خریدتے ہیں ، لیکن انھیں خبر تک نہیں ہوتی کہ جس سیڑھی پر چڑھ کر وہ یہاں تک پہنچے تھے، وہ ٹوٹ رہی ہے۔کسی غریب کی سانس اکھڑ رہی ہے، اس کے پاس مرض کی دوائی تو دورکی بات گھر میں ایک وقت کی روٹی تک نہیں۔ قارئین کرام! وقت آگیا ہے کہ اپنے کاندھوں کی اس سیڑھی کو ہٹالیا جائے جو کچھ لوگوں کو ظالم، سفاک، کرپٹ، غدار بنا دیتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اپنا انتخاب خود اپنی صفوں میں سے کیجیے۔ کیونکہ ایک غریب کے مسائل سے کون واقف ہوگا؟ اس کے دکھ کون جانتا ہوگا؟ صرف ایک دوسرا غریب۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں