عالم چنہ جسے ہم نے بھلا دیا

میڈیکل تحقیق کے مطابق جو لوگ ابنارمل ہوتے ہیں ان کو صحت کے مسائل ہوتے ہیں


لیاقت راجپر October 19, 2015

ISLAMABAD: ہم بڑی جلدی اپنے قومی ہیروز کو بھلا دیتے ہیں اور جب وہ زندہ ہوتے ہیں تو ان کی مدح سرائی کرتے رہتے ہیں۔ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں نام کمانے والی شخصیت محمد عالم چنہ تھے جس کو ہم سے بچھڑے ہوئے تقریباً 17 سال سے زیادہ ہوگئے ہیں، مگر اس بین الاقوامی شہرت یافتہ شخصیت کوکسی نے بھی یاد نہیں کیا۔

ایک دن ایک اخبار میں خبر چھپی کہ ایک بڑے لمبے قد کا آدمی قلندر شہباز کے مزار سیہون شریف پر دیکھا گیا ہے جو مزار پر آنے اور جانے والے کی نگاہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ پھر عالم چنہ کی زندگی کے بارے میں اخبارات میں انٹرویو چھپنے لگے اور اس کی زندگی سے متعلق معلومات عام آدمی تک پہنچتی رہیں پھر ایک دن یہ شہرت گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ والوں تک جا پہنچی، یوں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہونے والا عالم چنہ پوری دنیا میں مشہور ہوچکا تھا۔

سیہون شریف سے کچھ دور بچل چنہ گاؤں میں عالم چنہ 1953 میں پیدا ہوئے تھے، جہاں سے وہ صرف پرائمری تعلیم حاصل کرسکے۔ عالم چنہ کی عمر 13برس ہوچکی تھی، ایک دن صبح اسے بخار محسوس ہوا اور اس نے ہرے رنگ کی قے کی جس نے والدین کو پریشان کردیا اور عالم چنہ کو ڈاکٹر کے پاس لے گئے جس نے بتایا کہ عالم چنہ کا قد بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے اسے بخار ہوا ہے اور اس نے سبز رنگ کی قے کی ہے۔ جب وہ 16 سال کی عمرکو پہنچے تو اس کا قد اور تیزی کے ساتھ بڑھنے لگا۔ اب گھر والوں نے عالم کے لیے چارپائی کے بجائے ایک لکڑی کا صندل بنوایا جس پر وہ سوتے تھے اور اس کے لیے کپڑوں اور جوتوں کے سائز بڑھتے چلے گے جب کہ کھانے پینے میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا بلکہ والدین کو کہا گیا کہ وہ اسے قوت بخشنے والے پھل اور دوسری اشیا کھلائیں۔

اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے عالم چنہ کے ایک رشتے دار جو ان کا دوست بھی تھا اس نے پاکستان میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے دفتر سے رابطہ کیا جس نے عالم چنہ کی معلومات لے کر لندن بھیج دیں اب عالم چنہ کا قد 7 فٹ 8 انچ تک پہنچ چکا تھا اور وہ 16 میٹر والی شلوار قمیض بنواتے تھے اور پاؤں کے لیے 22 انچ کا جوتا آرڈر دے کر تیار کرواتے تھے جس کی وجہ سے نہ صرف اس کا خرچہ بڑھ گیا بلکہ لوگ بھی اسے بڑی توجہ سے دیکھتے تھے۔ اس کے علاوہ اسے سفر کرنے میں بھی دشواری ہوتی تھی۔ جب اسے سیہون شریف کے مزار پر نوکری ملی تھی تو اس کی تنخواہ صرف 2500 روپے تھی۔

1981 میں عالم چنہ کو دنیا کا لمبا شخص قرار دینے کے لیے اس کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہوگیا تھا جس کی وجہ سے وہ شہرت کی بلندیوں تک پہنچ گیا اور اسے دیکھنے کے لیے دنیا کے مختلف ملکوں سے اسے آنے کی دعوتیں ملنے لگیں۔ مگر 1985 میں بنگلہ دیش کے شخص کو دنیا کا لمبا ترین آدمی قرار دے دیا گیا۔ تاہم اس کے مرنے کے بعد پھر دوبارہ عالم چنہ 1998 میں ایک بار پھر دنیا کا لمبا ترین آدمی قرار دے دیا گیا۔ عالم چنہ دنیا کے کئی ممالک دیکھ چکا تھا اور اسے تقریباً 18 سو سے زیادہ ایوارڈز، شیلڈز اور انعامات مل چکے تھے۔ بہت بڑے قد کی وجہ سے وہ اکثر پبلک ٹرانسپورٹ جس میں بس شامل تھی سفر کرتے تھے یا پھر ٹرین میں آتے جاتے تھے۔ اس صورتحال کو دیکھ کر صدر ضیا الحق نے انھیں ایک کار کا تحفہ دیا جس میں بیٹھنے کے لیے دو آدمی اسے کار میں بٹھاتے تھے اور کار کی آگے والی سیٹ نکال دی گئی تھی۔

اب عالم چنہ کے لیے شادی کرنا ایک بڑا مسئلہ تھا کیونکہ بڑے قد کی وجہ سے اس کی شادی میں رکاوٹ تھی بہر حال پشاور سے تعلق رکھنے والی ایک پٹھان خاندان کی لڑکی سے اس کی شادی ہوگئی مگر اس سے شاید ذہنی ہم آہنگی نہیں ہوسکی اور کچھ ہی عرصے کے بعد طلاق ہوگئی، عالم چنہ کو کوئی اولاد نہیں ہوسکی۔ اب دوبارہ شادی کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا اور آخر کار 1989 میں ان کی شادی نسیم عرف نصیبو سے ہوگئی جس کی کوکھ سے ایک بیٹے کی ولادت 14 جولائی 1990 میں ہوئی جس کا نام عابد رکھا گیا۔ عالم چنہ کے لیے حکومت کی طرف سے ایک مکان بنا کے دیا گیا تھا جس کے دروازے کی لمبائی دس فٹ تھی اور جس پلنگ پر وہ سوتے تھے وہ بھی 10 فٹ کا تھا۔ عالم چنہ کے پانچ بھائی اور تین بہنیں تھیں جن کا وہ بڑا خیال رکھتے تھے اور ان سب کے قد نارمل تھے۔ شادی کے چار سال بعد ایک روڈ حادثے میں اس کی کولہے اور ریڑھ کی ہڈی کو بڑا نقصان ہوا تھا جس کی وجہ سے انھیں گھومنے پھرنے میں بڑی دشواری ہوتی تھی۔

ڈاکٹر جوکھیو نے کراچی میں ان کا علاج کیاتھا۔دنیا کے لمبے ترین قد کی شہرت کی وجہ سے وہ اپنی بیوی اور بیٹے کو صحیح وقت نہیں دے سکا تھا اس لیے اس کی یہ خواہش تھی کہ وہ اپنی بیوی اور بچے کو دنیا کی ہر خوشی دینے کے خواہاں تھے۔ عابد چنہ کہتے ہیں کہ اس کی یادیں اپنے والد کے ساتھ کچھ دھندلی سی ہیں کیونکہ ایک تو ان کے والد ملک سے باہر رہتے تھے اور دوسرا یہ کہ جب وہ انتقال کرگئے تو عابد کی عمر 8 سال تھی۔ بہرحال پھر بھی اپنی ماں کے حوالے سے بتایا کہ ان کے والد کو کھانے میں مچھلی بہت زیادہ پسند تھی اور کھیلوں میں وہ فٹ بال، کرکٹ، ہاکی اور بیس بال پسند تھے جب کہ ٹی وی آرٹسٹوں میں شفیع محمد شاہ اس کے فیوریٹ تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ ایک ٹرسٹ بنائیں جو اس کی بیوی چلائیں اور وہ غریب اور نادار لوگوں کو صحت اور تعلیم کی سہولتیں مفت پہنچائیں۔

اپنی شہرت کی وجہ سے پریشان بھی تھے کیونکہ ایک مرتبہ اسے ڈاکوؤں کی طرف سے ایک خط ملا کہ وہ انھیں کچھ لاکھ روپے دیں ورنہ وہ اسے اغوا کرلیں گے جس کی وجہ سے وہ سیہون شریف چھوڑ کر کراچی منتقل ہوگئے۔ انھیں اکثر و بیشتر پاکستان کے آزادی کی تقریبات کے سلسلے میں کبھی امریکا، کبھی لندن اور کئی دیگر ملکوں میں پاکستان کے سفارت خانے کی طرف سے بلوایا جاتا تھا۔ عالم چنہ ایک امریکن کمپنی کی تشہیری مہم میں بھی کام کرچکے تھے۔ ان کے Visiting کارڈ پر موبائل Ambassador لکھا ہوتا تھا۔ انھیں جب کسی تنظیم کی طرف سے موئن جو دڑو یا کوئی اور آرکیولاجیکل جگہ کو بچانے کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے بلایا جاتا تو وہ اس میں شریک ہوتے تھے اور ایک مرتبہ خاص طور پر جاپان کی طرف سے موئن جو دڑو کو بچانے والی مہم میں انھوں نے شرکت کی تھی۔

میڈیکل تحقیق کے مطابق جو لوگ ابنارمل ہوتے ہیں ان کو صحت کے مسائل ہوتے ہیں، اسی طرح عالم چنہ میں بھی کڈنی پرابلم پیدا ہوگئے تھے اور پاکستان میں ڈاکٹروں نے انھیں یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنا علاج باہر ممالک کے کسی بڑے اسپتال میں کروائیں جہاں پر جدید سہولتیں موجود ہوں۔ اس سلسلے میں عالم چنہ نے حکومت کو علاج کے لیے اپیل کی مگر افسوس کہ 6 مہینے گزرنے کے باوجود کچھ نہ ہوسکا۔ جب انھیں امریکا کے شہر نیویارک کے ایک بڑے اسپتال میں داخل کروایا گیا اور ان کے ساتھ ان کی بیوی اور بچے کو بھی ساتھ بھیجا گیا۔ مگر اب دیر ہوچکی تھی۔ ہائی بلڈ پریشر اور شوگر جیسی بیماریوں کی وجہ سے اس کی طبیعت بہت خراب رہنے لگی جب کہ زیر علاج ہوتے ہوئے اسے چار ہارٹ اٹیک ہوئے، جس کی وجہ سے اس نے 3 جولائی 1998 میں نیویارک کے اسپتال میں دم توڑ دیا۔ ان کی موت سے ہم پاکستان کا نام پیدا کرنے والے لمبا ترین قد رکھنے والے بین الاقوامی شہرت یافتہ شخصیت سے محروم ہوگئے۔

عالم چنہ کی میت دس جولائی 1998 کو کراچی لائی گئی ، اس کے لیے اسپیشل تابوت بنایا گیا تھا۔ کراچی سے ان کی باڈی کو سیہون شریف پہنچایا گیا جہاں پر اس کی نماز جنازہ کے بعد انھیں قلندر شہباز کے مزار کے مسجد والے حصے کے برابر دفن کیا گیا جہاں اب کوئی شاید ہی جاتا ہو۔ ان کے مزار کا کام 50 فیصد مکمل ہے مگر عدم توجہ کی وجہ سے اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے۔ اس بین الاقوامی شخصیت کے لیے ایک لائبریری بنائی جائے جہاں پر اس کی تصاویر، ویڈیوز اور دوسری ان سے منسلک اشیا رکھی جائیں۔ جب کہ اس سلسلے میں ان کے نام سے کوئی یادگار سیہون شریف میں بنائی جائے اور حکومت کی طرف سے انھیں یاد کرنے کے لیے برسی ہر سال منائی جائے اور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا انھیں یاد رکھنے کے لیے پروگرام مرتب کرے۔ کبھی وہ بھی تھا عالم میں انتخاب!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں