کلام فنِ کلام اور حسنِ کلام

گفتگو کرنا بھی ایک فن ہے۔ اچھی گفتگو کی صلاحیت ایک نعمت خداوندی ہے۔


[email protected]

گفتگو کرنا بھی ایک فن ہے۔ اچھی گفتگو کی صلاحیت ایک نعمت خداوندی ہے۔ اس نعمت کی قدر ان افراد سے پوچھیے جو سننے اور بولنے کی قوت سے محروم ہیں۔ مگر یہ بھی کہا گیا ہے کہ غیر ضروری گفتگو سے خاموشی بہتر ہے اور خاموشی سے ذکر الٰہی بہتر ہے۔

ایک مشہور مقولہ ہے ''پہلے تولو، پھر بولو۔''

اگر ہم اپنی معاشرتی زندگی کا مطالعہ کریں تو ہمیں اکثریت ایسے افراد کی نظر آئے گی جو اس اصول کے بالکل برعکس ہیں۔ ان کا وتیرہ ہے کہ وہ پہلے بولتے، پھر تولتے ہیں، بات بات پر قسمیں اٹھانا، گھٹیا ہنسی مذاق، گفتگو کم مغلظات زیادہ، فحش گوئی اب ہمارے معاشرے میں ایک عام سی بات ہو گئی ہے، اکثر گلی محلے، ہوٹلوں، محفلوں اور دفتروں میں ایسے مناظر عام نظر آتے ہیں، بے ہودہ گوئی اور بے جا مذاق اکثر لڑائی کا سبب بنتے ہیں، معاشرتی بگاڑ اور فساد کو جنم دیتے ہیں۔

اگر فضول گوئی سے بچا جائے اور احکام شریعت و اخلاقیات کو سامنے رکھ کر زبان کی حفاظت کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ان عیوب سے بچ جائیں جو معاشرے میں بگاڑ اور فساد کا باعث بنتے ہیں اور ہمارا معاشرہ حسن اخلاق و حسن گفتگو کی بدولت امن و سکون اور اطمینان کا گہوارہ بن کر، محبت و اخوت کی دولت سے مالامال ہو کر گل و گلزار بن جائے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب بھی کسی سے ہم کلام ہوتے تو آپؐ کا لب و لہجہ درمیانی نوعیت کا ہوتا تھا۔ گفتگو میں اعتدال ہوتا یعنی آواز زیادہ بلند ہوتی اور نہ اتنی پست کہ مخاطب سن ہی نہ سکے، بیان انتہائی سادہ، عام فہم اور واضح ہوتا کہ ہر سننے والا خوب واضح طور پر سمجھ لیتا۔ ضرورتاً ایک ایک بات کو تین تین مرتبہ بھی دہراتے تا کہ مخاطب کی سمجھ میں آ جائے۔ نبی برحقؐ ہمیشہ بامقصد اور ضروری گفتگو فرماتے اور ہمیشہ مخاطب کے ظرف اور اس کی نفسیات کے مطابق بات کرے۔ آپؐ کا کلام لوگوں کی عقل کے مطابق ہوا کرتا تھا کلام اتنا واضح ہوتا تھا کہ ہر سننے والا اسے بخوبی سمجھ لیتا تھا۔

دیگر صحابہؓ اور اولیائے کرام نے بھی کلام، فن کلام اور حسن کلام کے حوالے سے ارشادات فرمائے ہیں۔

حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرمؐ جب کوئی بات فرماتے تو اس کو تین مرتبہ دہراتے تا کہ سننے والے کی سمجھ میں آ جائے۔ حضرت حسنؓ فرماتے ہیں ''جو زیادہ بولتا ہے وہ زیادہ جھوٹا ہوتا ہے اور جس کے پاس زیادہ مال ہوتا ہے، وہ گناہ بھی زیادہ کرتا ہے اور جو بدخلق ہوتا ہے وہ جان پر عذاب لیتا ہے۔ صرف ان ہی امور کے بارے میں بات کرنی چاہیے جو دین و دنیا سے متعلق ہے۔''

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ''بے ہودہ گو پر جنت حرام ہے۔'' ایمان کی پختگی اور عبادات کی ادائیگی کے ساتھ ایک مسلمان کے لیے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ وہ اپنے اخلاق و عادات کو درست کرے اور خوش اخلاقی و خوش گفتاری سے کام لے کر ہمیشہ اچھی اور حق بات کہے، ورنہ خاموشی اختیار کرے۔ ایمان اور اخلاق کے درمیان کیا تعلق ہے، اس سے متعلق ارشادات نبویؐ ملاحظہ فرمائیے۔

آپؐ نے فرمایا بے شک مسلمانوں میں سب سے زیادہ کامل ایمان اس کا ہے، جس کے اخلاق اچھے ہیں، فرمایا، میں اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ اچھے اخلاق اور حسن اعمال کی تکمیل کروں، اللہ کی جانب سے انسان کو جو سب سے بڑا عطیہ ملا ہے، وہ اس کے اچھے اخلاق ہیں، بے شک تم میں سے مجھے سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن میرے نزدیک وہ ہوں گے جو تم میں زیادہ اچھے اخلاق کے مالک ہوں گے اور سب سے زیادہ ناپسند اور دور وہ لوگ ہوں گے جو زیادہ باتیں کرنے والے، بانچھیں کھول کر اور منہ بھر کر باتیں کرنے والے ہیں۔

فرمایا نجات اس میں ہے کہ اپنی زبان کو بری باتوں سے روک رکھو، غیر ضروری باتوں کا ترک کر دینا بھی حسن اسلام ہے، فرمایا جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ سودمند اور بہتر بات کہے یا خاموش رہے، فرمایا سکوت پر قائم رہنا ساٹھ برس کی عبادت سے بہتر ہے، فرمایا طویل سکوت (جو تفکر کے ساتھ ہو) اور خوش اخلاقی مخلوق کے اعمال میں ان دو خصلتوں سے بہتر کوئی عمل نہیں۔ اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ بھی ملاحظہ فرمائیے ''بے شک! مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں اور وہ جو کسی بے ہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے۔'' (پ۔18۔ع۔1)

اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسان کو اخلاق کی وہ بنیادی تعلیم دیتا ہے جس کی بدولت انسان اپنے شرف کی انتہائی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے۔ وہ اس کے نفس کو خود غرضی، نفسانیت، ظلم اور بے حیائی سے پاک کر دیتا ہے۔ اس میں کریم النفسی، تقویٰ، پرہیزگاری اور حق کی پہچان پیدا کر دیتا ہے۔ اس کے اندر اخلاقی ذمے داریوں کا شعور اجاگر کرتا ہے۔

اسے ضبط نفس کا خوگر بناتا ہے۔ اسے تمام مخلوقات کے لیے کریم، فیاض، رحیم، شفیق، ہمدرد، امین، بے غرض، خیر خواہ، بے لوث، منصف اور ہر حال میں صادق، امین، راست باز اور حق گو بنا دیتا ہے۔ ان عوامل سے اس میں ایک ایسی بلند پایہ سیرت اور تہذیب پرورش پاتی ہے جس سے صرف بھلائی کی امید ہو اور برائی کا کوئی اندیشہ نہ ہو۔ اسلام کے تہذیبی اور اخلاقی نظام میں کسی شخص کے طرز عمل کے اخلاص کو جانچنے کے لیے حد معیار ''تقویٰ'' ہے۔

ہر شعبہ زندگی میں اللہ کی مکمل اطاعت اور اعمال کا محاسبہ کرتے ہوئے مزید نیکی کرنے کی مسلسل کوشش تقویٰ ہے۔ خوش اخلاقی و خوش گفتاری تقویٰ کی علامت ہے اور ''تقویٰ'' دین و ایمان کی اصل بنیاد اور حقیقی روح ہے، یہی وجہ ہے کہ کتب احادیث میں متعدد فرمودات میں آپؐ نے خوش اخلاقی، خوش گفتاری اور سکوت کی اہمیت، فوائد اور ثمرات بیان فرمائے اور کثرت کلامی، بد زبانی اور بد اخلاقی کے نقصانات اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے مفاسد کی طرف ہماری توجہ فرمائی۔

آج کل بدزبانی و بداخلاقی اور ان سے پیدا ہونے والے مفاسد کا عجیب و غریب مظاہرہ آپ بخوبی ہمارے سیاسی رہنماؤں کے طرز گفتگو اور بالخصوص طرز تقاریر میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں، بڑی بڑی انتخابی مہمات اور سیاسی جلسوں میں جس طرح ایک دوسرے کو مخاطب کیا جاتا ہے اور بہتان تراشی کی جاتی ہے، طرز تخاطب میں حدت و شدت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، ایسی مثالیں تو ہمیں کبھی مغربی و یورپی معاشرے کی انتخابی مہمات یا سیاسی رہنماؤں کے طرز گفتگو یا طرز تقریر سے بھی نہیں ملتیں، ہم اسلام سے نا سہی کچھ غیر مسلموں ہی سے سیکھ لیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں