اگر تماشے سے دل بھر گیا ہو

اگر آپ کا دل تماشہ دیکھ دیکھ کر بھر گیا ہے تو ایک لمحے کے لیے اپنے پڑوس میں دیکھ لیں کہ کیا ہو رہا ہے۔


انیس منصوری October 14, 2015
[email protected]

اگر آپ کا دل تماشہ دیکھ دیکھ کر بھر گیا ہے تو ایک لمحے کے لیے اپنے پڑوس میں دیکھ لیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ نیپال کی حکومت بار بار کہہ رہی ہے کہ یہاں ہونے والے کئی احتجاجی مظاہروں کے پیچھے انڈیا کا ہاتھ ہے۔

ایک نظر اٹھا کر دیکھ لیجیے کہ اب ایک چھوٹے سے ملک مالدیپ نے بھی کھلے عام یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ بھارت اس کے ملک میں مداخلت بند کرے اور یہاں کہ سیاسی معاملات کو مالدیپ کے لوگوں پر چھوڑ دیں۔ ایک سیکنڈ روک کر میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ بلوچستان کے حوالے سے انڈیا شور زیادہ مچا رہا ہے یا پھر ہماری رگوں میں زہر گھول رہا ہے؟

اگر تماشے میں تھوڑا سا بریک لگا ہے اور آپ پانی پی رہے ہیں تو میں آپ سے پوچھنے کی زحمت کر سکتا ہوں کہ کشمیر سے آتا ہوا پانی اب کس رخ پر ہے۔ جہاں ہر روز ایک ماں کا لعل کسی ان دیکھی گولی سے لال ہو رہا ہے۔ میں آپ مجھے بتانے کی زحمت کر سکتا ہوں کہ کیا ہمارے سارے دُکھ آپ کی ضد ختم ہونے تک جاری رہیں گے؟

اس سے پہلے کے آپ پرانے تماشے کو نئے نام سے مارکیٹ میں بیچنے جائیں گے ہمیں یہ بتا سکتے ہیں کہ روس اور امریکا کے درمیان بڑھتی ہوئی آگ ہمارے سینے پر کب رقص کرے گی؟ میں جانتا ہوں کہ آپ کے پاس بہت سارا کام ہے اور آپ کے پاس اتنا وقت نہیں ہو گا کہ آپ مجھے بتا سکیں کہ شام میں گرتا ہوئے بموں کا دھواں ہمارے گھر تک تو نہیں پہنچے گا۔ آپ میں یہ صلاحیت ہے کہ آپ کنٹینر پر کھڑے ہو کر پورے ملک کو مجبور کر سکتے ہیں کہ کوئی اور تماشہ نہ دیکھا جائے۔

تو آپ مجھے یہ بتا سکتے ہیں کہ روس کے طاقتور صدر نے ایران، شام اور کچھ حد تک چین کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے ہم کون سے کنٹینر پر کھڑے ہوئے ہیں۔ بہت چپکے سے اسی روسی صدر نے اپنے ملک میں ہونے والی ایک ریس کے دوران سعودیہ کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کی ہے۔ اُس میں انھوں نے سعودیہ کو اپنے کھیل میں کردار دینے کا کہا ہے یا پھر امریکا کا اسٹیج چھوڑ دینے کی آفر کی ہے۔ حکومتوں کو پیسہ ہم اپنے ٹیکس سے دیتے ہیں۔

کوئی حاتم طائی مجھے یہ بتا سکتا ہے کہ ہمارے پیسے سے ہمیں دیے جانے والے پراجیکٹ گنوا گنوا کر ہم پر احسان کیوں کیا جا رہا ہے اور اگر آپ کو انگلیوں میں یہ پراجیکٹ گن کر فرصت مل چکی ہو تو ہمیں بتایا جا سکتا ہے کہ ہم کس کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔

آپ مجھے بتا دیجیے کہ ایسے وقت میں جب آپ ترکی کی مثالیں دیتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں اور وہاں کے قیمتی پیسے کو بسوں میں بھر کر میٹرو میں گُھما رہے ہیں۔ ایسے میں وہاں ایک خونی کھیل کا آغاز ہو چکا ہے۔ کیا ایک فون کال کر کے بات ختم ہو جائے گی اور ہمیں کچھ معلوم بھی نا ہو سکے گا کہ جن کئی بڑے پراجیکٹ کے اندر ہم نے ترکی کو شامل کیا ہوا ہے۔

آیندہ دنوں میں وہاں بدلتی صورتحال کے باعث ہمارا قدم کیا ہو گا۔ اس خطے میں طاقت کے نئے محور بن رہے ہیں۔ نئے اتحاد تشکیل پا رہے ہیں، سرحدوں میں تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ نظریات دم توڑ رہے ہیں اور جہالت پروان چڑھ رہی ہے۔ ایسے میں ہمیں کبھی کنٹینر، کبھی کراچی اور کبھی لاہور کو امتحان کے لیے تیار کرنا ہے یا پھر یہ بتانا ہے کہ اگلی نسلوں کے لیے اس دنیا میں ہماری پہچان کیا ہو گی۔

روز کی بنیادوں پر یہاں دنیا میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ہر گھڑی بڑے بڑے فیصلے ہو رہے ہیں۔ حکمت عملیاں بن رہی ہیں۔ خزانوں کے منہ کھولے جا رہے ہیں۔ کئی طاقتور لوگ اپنے پیسے کو ڈبوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ ایسے میں ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ایک حلقے کا الیکشن ہے یا پھر بدلتی ہوئی ہوا؟

کوئی مجھ سے کیوں یہ نہیں کہتا کہ آؤ تعلیم پر بات کرتے ہیں۔ جہاں ہمارے آدھے سے زیادہ بچے پرائمری تعلیم تک مکمل نہیں کر سکتے۔ ایک دھرنا، ایک احتجاج ایک جلسہ، ایک میٹنگ ایک مظاہرہ ایک آل پارٹیز کانفرنس اُس کے نام بھی ہو جائے۔ کیونکہ اس دنیا میں جب سب کچھ بدل رہا ہے تو ہم صرف اپنی آنے والی نسلوں کی بنیاد پر ہی آگے بڑھ سکتے ہیں اور آنے والی نسلوں کو تعلیم، شعور کی ضرورت ہے۔ اس خطے میں جہالت نے اپنے پاؤں پھیلا لیے ہیں، شام سے لے کر عراق تک ایک انتشار پھیلا ہوا ہے۔ ہمارا پڑوسی ملک بھارت، انتہا پسندی اور رجعت پسندی کے نرغے میں پھنس چکا ہے۔

ایسے میں ہمیں اپنے معاشرے کو جہالت سے نکال کر آگے کی طرف لے جانا ہے۔ اس خطے میں بڑھتی ہوئی تشدد کی لہر سے ہمیں خود کو کیسے دور رکھنا ہے، لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں تو ہر وقت ایک تماشہ چاہیے، جس کے پیچھے ساری قوم کو دیوانہ کر دیا جاتا ہے۔

یقینی طور پر ہم جمہوری ملک ہیں اور اس ملک کے باسیوں کو فخر ہونا چاہیے کہ اس قوم نے ہر حال میں جمہوری قدروں کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ درمیان میں اونچ نیچ آتی رہی، لیکن اس قوم کو جب موقعہ ملا اسُ نے پوری طاقت سے اپنا جمہوری کردار ادا کیا اور اُن کی رائے کو کبھی بھی دبانے یا چرانے کی کوشش کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ اس قوم نے تمام سیاسی جماعتوں کو موقع دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہاں پیسے کا بھرپور استعمال ہوتا ہے، لیکن جب اس قوم نے اکثریت سے ایک کو منتخب کر لیا تو بار بار اُن سے امتحان کیوں لیا جاتا ہے۔ یہ ایک کمزور حکومت ہو سکتی ہے۔

ہو سکتا ہے اس میں انتظامی خامیاں ہوں۔ ہو سکتا ہے اس کے پاس اتنی طاقت نا ہو کہ یہ اپنے فیصلوں پر عمل کرا سکتی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ اسے ایک متوازی حکومت کا بھی سامنا ہو، لیکن یہ اپنی مدت آدھی گزار چکے ہیں۔ براہِ مہربانی آپ کو جو زور آزمائی کرنی ہے تھوڑے دنوں بعد کر لیں۔ قوم کا پیسہ اور وقت مت ضایع ہونے دیں۔ ابھی بہت سے مسئلے موجود ہیں۔

میں اپنی اُسی بات پر قائم ہوں کہ اس خطے میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ براہِ مہربانی تمام سیاست دان اور طاقت کے منبعے ایک نقطے پر جمع ہو کر اس ملک کے لیے کوئی ایسی پالیسی دیدیں کہ جس کے بعد ہماری آنے والی نسلیں اس دنیا میں فخر سے چل سکیں۔ ہمیں قومی طور پر ذہنی مریض بنانے کا عمل بند کیا جائے۔ روز ایک جیسے تماشے دیکھ دیکھ کر ہم تھک چکے ہیں۔ مجھے لگتا یوں ہے کہ اوپر سے لے کر نیچے تک ہم ایک دلدل میں پھنس چکے ہیں۔

یہاں پیسے کی بنیاد پر لوگوں کو مجبور کیا جانے لگا ہے کہ وہ اپنی رائے تبدیل کر لیں۔ یقینی طور پر آپ اپنا موقف پیش کیجیے، رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے اپنی مارکیٹینگ بھی کیجیے۔ مگر خدا کے لیے یہ تماشے بند کیجیے۔ اپنی انا کے لیے لوگوں کو خرید کر دل جیتنے کا ڈراما مت کیجیے۔

یہ بات کیوں بڑی عقل کے گھوڑوں کو سمجھ نہیں آتی کہ میڈیا کی سوچ اور حلقے کی سوچ میں فرق ہوتا ہے۔ ترکی کا طاقتور میڈیا کردوں کے متعلق کچھ بھی کہتا رہے لیکن کردوں کی اکثریت قومی جماعتوں کا انتخاب نہیں کرتی ہے۔ بھارت کا دوغلا میڈیا کچھ بھی کہتا رہے لیکن وہ کشمیر کی آواز نہیں ہے۔ کسی خطے اور حلقے کے لوگوں کی سوچ دوسرے خطے سے مختلف ہوتی ہے۔ ان کے مفادات وہ ہوتے ہیں جو دوسروں کے لیے شاید خبر نہ ہو۔

یہی بات ہم نے کراچی کے الیکشن کے وقت کہی تھی اور یہی رائے لاہور کے حلقے کے متعلق تھی۔ جو لوگ چند گھنٹوں میں بیٹھ کر یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ کون جیتے گا اور کون ہارے گا انھیں کسی حلقے کی 100 سال کی تاریخ کی الف ب بھی نہیں معلوم ہوتی۔ بھوک کا اندازہ اُسی کو ہو سکتا ہے جس کے گھر میں بچے فاقوں سے مر رہے ہوں۔ انھیں دو وقت کی روٹی چاہیے ہوتی ہے۔ دو گھنٹوں کی تقریر نہیں۔ وہ دو گھنٹے اس لیے چپ بیٹھے ہوتے ہیں کہ انھیں اس کے بعد روٹی ملنے کی امید ہوتی ہے۔ اس لیے اب تھوڑا وقت رہ چکا ہے۔ آئیے جب تک تماشے میں وقفہ ہے تھوڑا سا گھوم لیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں