18برس سے قتل کے مقدمے میں ملوث ملزم کو انصاف نہ مل سکا مدعی کا بھی انتقال ہوچکا

تفتیشی افسر نے بھی انکار کردیا کہ یہ وہ ملزم نہیں جسے اس نے گرفتار کیا تھا.


Arshad Baig October 22, 2012
زمان قتل کیس میں ایک ملزم کوسزائے موت ہوئی،فیاض کیخلاف گواہ پیش نہیں ہوا،عدالت کا متعدد بار اظہاربرہمی،وکیل نے گواہ کومدعی قراردے دیا۔ فوٹو: فائل

SUKKUR: 18برس سے قتل کے مقدمے میں ملوث ملزم گواہوں کی عدم حاضری کے باعث دھکے کھانے پر مجبور ہے۔

7برس قبل عدالت میں ملزم کی موجودگی کے باوجود تفتیشی افسر نے اپنے بیان میں بتایا تھا کہ جس ملزم کو اس نے گرفتار کیا تھا ،وہ عدالت میں موجود نہیں ہے ، مدعی کا انتقال ہوچکا ہے ، عدالت نے ایک برس کیلیے بری کردیا تھا، وکیل نے گواہ کو مدعی قرار دیکر گواہوں کو عدالت میں پیش کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن ایک برس مزید گزر جانے کے باجود کسی بھی گواہ کو پیش نہیں کیا جا سکا۔

دوران اسیری ملزم فیاض احمدکوجیل میں دل کا دورہ (ہارٹ اٹیک) بھی ہوا اس دوران اہلیہ کا بھی انتقال ہوگیا ، شدید علالت کے باوجود عدالت کے چکر کاٹ رہا ہے ،تین جج تبدیل ہو چکے ہیں، تفصیلات کے مطابق 1994کو مدعی مرحوم محمد واثق نے تھانہ کلری میں ملزمان سرفراز اور ملک فیاض پر الزام عائد کیا تھا کہ انھوں نے اپنے والد کے قتل کا بدلہ لینے کی غرض سے اس کے بھتیجے محمد زمان کو فائرنگ کرکے قتل اور اسے زخمی کردیا تھا۔

پولیس نے مذکورہ ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا تھا، 21 جنوری 1996کو سی آئی ڈی جمشید کوراٹر نے ملزم فیاض کو اسلحہ ایکٹ کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور اسے مذکورہ مقدمے میں بھی ملوث کردیا تھا، 15 ستمبر 1996کو فردجرم عائد ہوئی جس پر ملزم نے انکار کردیا تھا، اس دوران پولیس نے دوسرے ملزم کو بھی گرفتار کیا تھا اور 22 نومبر 1997 کو دونوں ملزمان پردوبارہ فرد جرم عائد ہوئی ،اس وقت بھی ملزمان نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے روبرو انکار کیا ، مقدمے کے التوا پر 1999کو عدالت نے ملک فیاض کو ضمانت پر رہا کردیا تھا۔

بعدازاں 31جنوری 2006کو عدالتی کارروائی مکمل ہونے پر دوسرے ملزم سرفراز کو جرم ثابت ہونے پر ایڈیشنل سیشن جج منور سلطانہ نے سزائے موت کا حکم دیا تھا، ملزم نے عدالت عالیہ میں سزا کیخلاف اپیل دائر کر دی تھی جو کہ تاحال زیر سماعت ہے،2005میں ملزم فیاض ملک کو مدعی کے بھائی محمد افضل جو کہ ایکسائز پولیس میں افسر ہے اسے منشیات کے مقدمے میں ملوث کرکے جیل بھیج دیا تھا، 29نومبر 2005کو اس مقدمے کی سماعت کے موقع پر دوسرے تفتیشی افسر انسپکٹراصغر علی شاہ تھانہ کلری نے ملزم کی موجودگی میں اپنے بیان میں بتایا کہ جس ملزم کو اس نے گرفتار کیا تھا وہ عدالت میں موجود نہیں ہے۔

عدالت نے مزید گواہوں کو طلب کیا لیکن کوئی گواہ پیش نہیں ہوا ،مسلسل جیل میں پابند سلاسل رہنے پر ملزم کو جیل میں دل کادورہ پڑا جسے فوری طور پر اسپتال منتقل کردیا گیا، 14روز کے بعد اسپتال نے فارغ کر کے دوبارہ جیل بھیج دیا، 2007 کو دوبارہ اٹیک ہوا بار بار اسپتال منتقل ہونے اور میڈیکل بنیاد پر10مارچ 2008 کو سیشن جج نے ضمانت پر رہا کردیا تھا ،اس دوران مدعی کا بھی انتقال ہوگیا اور کوئی گواہ عدالت میں پیش نہیں ہوا ،پراسیکیوٹر نے بھی سائیڈ کلوز کردی تھی اور عدالت کو بتایا کہ استغاثہ کے گواہوں کو وہ پیش نہیں کرسکتے۔

30نومبر2010 کو اس وقت کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج صغیر احمد نے ملزم کو ایک برس کیلیے بری کردیا اور فیصلے میں کہاکہ اس دوران گواہوں کو پیش نہ کیا گیا تو ملزم کو مقدمے سے بری سمجھا جائے ایک برس بعد مدعی کے وکیل نے مدعی کے انتقال ہونے کے باجود گواہ کو مدعی ظاہر کرتے ہوئے مدت ختم ہونے کے چار ماہ بعد23 اپریل 2012کو کیس ری اوپن کرنے کی استدعا کی اور تمام گواہوں کو عدالت میں پیش کرنے کی یقین دہانی کرائی اس وقت کے سیشن جج جاوید احمد کیریو نے ملزم کو دوبارہ نوٹس جاری کیے عدالت میں طلب کرلیا اور موقع پر ضمانت بحال کردی۔

ملزم کے وکیل عطااﷲ عباسی ایڈووکیٹ نے بریت کی استدعا کی ، موجودہ سیشن جج طارق کھوسو نے متعدد نوٹس جاری کیے اور گواہوں کو طلب کیا لیکن کوئی گواہ عدالت میں پیش نہیں ہوا، فاضل عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور 19اکتوبر کو تمام گواہوں کو پیش کرنے کا حکم دیا تھا ،اس موقع پر استغاثہ کے وکیل نے درخواست دائر کی کہ وہ دوسری عدالت میں مصروف ہیں اور سماعت ملتوی کی استدعا کی، عدالت نے14نومبر تک سماعت ملتوی کردی ہے ،ملزم کے مطابق کہ وہ علالت کے باعث لاغر ہوچکا ہے لیکن عدالت کے چکر ختم نہیں ہوئے، نہ جانے کب تک مذید آنا ہوگا جبکہ اس مقدمے سے اس کا کوئی واسطہ نہیں، اصل ملزم کو عدالت نے سزا دے دی ہے جبکہ تفتیشی افسر نے بھی انکار کردیا ہے کہ وہ ملزم نہیں جسے اس نے گرفتار کیا تھا لیکن نام کی مماثلت کے باعث اب تک عدالتوں کے چکر کاٹنے پر مجبور ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔