رضا ربانی کا بے وقت بیان اور نپولین
نپولین بونا پارٹ اکثر کہا کرتا کہ اگر دشمن حماقت پر حماقت کرتا چلا جا رہا ہو تو اس کے کام میں مخل نہیں ہونا چاہیے
نپولین بونا پارٹ اکثر کہا کرتا کہ ''اگر دشمن حماقت پر حماقت کرتا چلا جا رہا ہو تو اس کے کام میں مخل نہیں ہونا چاہیے تاکہ وہ جو کچھ کر رہا ہے خوب تسلی کے ساتھ کرے۔'' پیپلزپارٹی والے ہمارے دشمن تو نہیں ہیں مگر اس کے قائدین نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں اس ملک کے ساتھ جو سلوک کیا وہ دشمنی سے بھی چار ہاتھ آگے ہی ہوگا پیچھے نہیں۔ کیا آصف زرداری اور کیا یوسف گیلانی، کیا پرویز اشرف اور کیا ڈاکٹر عاصم، ان تمام سورماؤں نے اس غریب قوم کو بہت بیدردی سے لوٹا ہے۔ چنانچہ ہر سمجھدار اور باشعور پاکستانی ایک طرف تو ان کی سرعام لوٹ مار پر انگشت بادنداں تھااور دوسری طرف اس بات پر حیرت کناں کہ انھیں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ یہ یہاں اس طرح دندناتے پھرتے ہیں جیسے انھیں یقین ہے کہ انھیں کوئی نہیں پوچھ سکتا کہ بھائی صرف 25 سال پہلے تم فُقرے ہوا کرتے تھے مگر آج ارب نہیں کھرب پتی کس طرح بن بیٹھے۔
یار لوگوں کا خیال تھا کہ اس مرتبہ بھی اللہ انھیں اشفاق پرویز کیانی جیسے ہومیوپیتھک سپہ سالار سے نوازے گا کہ جس کا اگر فائدہ نہیں تو نقصان بھی نہیں۔ جس نے اگر اپنے لاڈلے بھائیوں کو کھلی چھٹی دیے رکھی تو روکا کسی اور کو بھی نہیں۔ لیکن شومئی قسمت سے ان کے سروں پر ایک ایسا شخص آن بیٹھا کہ جس نے آتے ہی چبھتے سوالوں کی بھرمار کر ڈالی۔ جس نے پوچھنا شروع کردیا کہ بھائی وطن عزیز کو اس نہج پر کیا سوچ کر لے آئے؟ ملکی معیشت برباد کر کے تم نے خود اربوں ڈالر کما لیے، تمہیں رات کو نیند کس طرح آتی ہے۔ دہشت گرد تمہاری ناک تلے اس ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجانے اور سرعام دندناتے پھرے اور تم نے کبھی ان کی بیخ کنی کرنے کا نہیں سوچا بلکہ تم نے تو انہیں کھلی چھٹی ہی دیئے رکھنے میں عافیت جانی۔ کس مٹی کے بنے لوگ ہو تم؟
ہماری سیاسی حکومتوں نے جو پرفارمنس دی اس کے سامنے پرویز مشرف کا دور باقاعدہ سنہرا دکھائی دیتا ہے۔ صرف پیپلزپارٹی ہی نہیں، نواز لیگ نے بھی جو تیر مار لیا ہے اور کیل اکھاڑ لیا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی، پی آئی اے، واپڈا اور یورو بانڈز بارے جو جو باتیں روز افزوں سامنے آرہی ہیں، لگتا ہے آج بھی مرکز میں حکومت آصف علی زرداری ہی کی ہے۔ نندی پور پراجیکٹ، چشمہ پراجیکٹ ، گڈانی کول پراجیکٹ (جس پر صرف اشتہار بازی میں ہی تقریباً 44کروڑ پھونک ڈالا گیا) شروع ہونے سے پہلے ہی بند کردیا گیاہے۔ صوبہ پنجاب سے اگر کرپشن کی نہیں تو کم از کم نااہلی کی خبریں ضرور آنے لگی ہیں۔ اس حوالے سے راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس، بہاولپور سولر پارک، ساہیوال کول پاور پراجیکٹ، سیلاب کے معاملات، اسپتالوں کی حالت زار، صارف عدالتوں کے نظام کی چیخ و پکار ،جعلی ڈاکٹروں اور ادویات کی بھرمار، الغرض معاملات یہاں بھی جوں کے توں ہیں۔ شہباز شریف ایک باعمل حکمراں ہیں مگر افسوس کہ ان کی سیاسی و غیر سیاسی ٹیم کہیں کرپشن اور کہیں نااہلی کے کیچڑ میں لتھڑی دکھائی دیتی ہے۔
تاہم اس کے مقابلے میں پیپلزپارٹی نے جو کچھ کیا (اور سندھ میں مزید کر رہی ہے) وہ ناقابل بیان ہے۔ چنانچہ جب جنرل راحیل شریف نے ضرب عضب کا جھنڈا گاڑتے ہوئے یہ لرزہ خیز انکشاف کر ڈالا کہ کرپشن کا پہیہ دہشت گردی کی ترویج کے لیے استعمال ہو رہا ہے تو ہر طرف خوف کی لہر دوڑ گئی۔ ماضی قریب کا ہر کرپٹ سیاسی و سرکاری شخص اپنی نیند حرام کر بیٹھا۔ ایم کیو ایم کے بعض عناصر نے بھی خواب آور گولیوں کا استعمال بڑھا دیا مگر جن نیندوں کو قدرت حرام کرتی ہے انھیں دنیا بھر کے ڈاکٹر مل کر بھی بحال نہیں کر سکتے۔
بہرحال، اللہ کو چونکہ پاکستان کی بہتری مطلوب ہے، اس لیے تقریباً تمام کرپٹ عناصر یکایک لسانی ہیضے کا شکار نظر آنے لگے۔ کسی نے براہ راست فوج کے خلاف بات کی تو کوئی علامت نگاری سے کام لینے لگا۔ کسی نے دبے لفظوں میں طالبان کی حمد و ثنا کی تو کوئی سیدھا سیدھا بھارت سے ہی مدد مانگتا نظر آیا۔ آصف علی زرداری صاحب کے کم و بیش ایک درجن قریبی ساتھی سلطانی گواہ بن چکے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم جیسے اعلیٰ قسم کے ''بھارو'' ان کے علاوہ ہیں۔ زرداری صاحب نے سندھ کارڈ کھیلنے کی خطرناک کوشش بار بار کی مگر انھیں منہ کی ہی کھانی پڑی۔ آخر بلبلاہٹ کا شکار پیپلز پارٹی ہائی کمان نے چیئرمین سینیٹ رضا علی ربانی کے منہ سے ایک ایسا بیان دلوا دیا کہ جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ احباب کس قدر اذیت کا شکار ہیں۔
ربانی صاحب فرماتے ہیں کہ سول اور ملٹری بیورو کریٹس کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ بات بہت اچھی مگر اس کی ٹائمنگ بہت بری ہے۔ ربانی صاحب خود خاصے نیک نام ہیں اور ان کی پارٹی میں لے دے کے جو ڈیڑھ دو نیک نام بچے ہیں، آپ کا شمار انہی میں ہوتا ہے۔ آپ شاید بقائمی ہوش و حواص ایسی بات اس موقع پر نہ کرتے مگر پارٹی ڈسپلن کی پابندی بہرحال ان جیسے شریف آدمی کے پاؤں کی زنجیر ضرور ہے۔ حماقتوں اور مزید حماقتوں کا یہ سلسلہ جاری و ساری ہے جبکہ ایم کیو ایم والے وسیم اختر صاحب کے خلاف اسی حوالے سے ایک نیا مقدمہ بھی قائم ہوچکا ہے۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ کرپٹ عناصر کے گرد گھیرا جس قدر تنگ ہو چکا ہے، اب کوئی معجزہ ہی ان کی گلو خلاصی کرائے تو کرائے ، یہ کسی انسان کے بس کا روگ نہیں رہا ۔
عنقریب چند بڑی شخصیات جنھیں عرف عام میں مگرمچھ کہا جاتا ہے، بہت برے حال میں ہوں گے۔ کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں سے چیخ و پکار سنائی دے گا، مرکز اور پنجاب والے جو اندر واندری خود بھی خاصے خوفزدہ ہیں ،پھیکی سی مسکراہٹ اور ہلکی سی کلیپ دیں گے مگر پھر کچھ دیر اسی تنخواہ پر کام کرتے رہنے کے بعد یہ بھی فارغ ہو جائیں گے اور تب ایک نئے سیاسی سفر کا آغاز ہوگا اور بہت سے قومی خواب شرمندہ تعبیر ہوں گے۔
اہل وطن سے گزارش ہے کہ اس وقت کے آنے تک ان کرپٹ وطن دشمنوں کی حماقتوں میں مخل نہ ہوں اور انھیں اپنا کام تسلی اور دل جمعی سے کرنے دیں۔ اللہ اس ملک کے لیے جو بھی کرے گا بہتر ہی کرے گا!