چند سوال اور کچھ مشورے

کسی نے کہا ’’زمانے کے نشیب و فراز کی بات نہ کریں‘‘ میں نے جواب دیا تو پھرکیا بات کریں؟ بات تو یہی ہے۔


راؤ سیف الزماں October 04, 2015
[email protected]

کسی نے کہا ''زمانے کے نشیب و فراز کی بات نہ کریں'' میں نے جواب دیا تو پھرکیا بات کریں؟ بات تو یہی ہے۔ جوکل کے بادشاہ تھے آج کے فقیر ہیں۔ انھوں نے سوال کیا اور جوکل فقیر تھے؟ وہ آج کیا ہیں؟ جو عوام تھے کیا آج وہ بادشاہ ہیں۔ میں نے ان کے سوال پرغورکیا تو یہ حقیقت مجھ پرکھلی کہ ان کا ابتدائی جملہ ہی درست تھا۔ واقعی عوام کی حالت میں توکوئی سدھار نہ آیا، گویا مثال اپنے وجود میں اب تک نا مکمل ہے۔ میں نے پھر بھی ہار نہ مانتے ہوئے اصرار جاری رکھا اور کہاکہ عوام کی حالت بھی رفتہ رفتہ بہتری کی جانب ہے، لیکن یہ کہتے کہتے مجھے احساس تھا کہ میں لفظیہ شطرنج ہار رہا ہوں۔ بہر حال قارئین کرام آپریشن اب بھی جاری ہے۔ نیب،ایف آئی اے متحرک ہیں۔

پاک فوج آپریشن ''ضرب عضب'' میں مصروف ہے اور دہشت گردوں کے خلاف مسلسل کامیابیاں سمیٹ رہی ہے، لیکن دہشت گردی بھی جاری ہے اور نیب یا ایف آئی اے جن سیاسی وغیر سیاسی شخصیات کوکرپشن میں گرفتارکررہی ہیں۔عدالت سے انھیں با آسانی ضمانت مل جاتی ہے۔ حالانکہ ان کے خلاف ٹھوس ثبوت اورشواہد موجود ہیں۔ گویا سلسلۂ خیروشر ہے۔ جو جاری ہے، میں بطورشہری معزز صاحبان عدل و انصاف سے چند سوال کرنا چاہتا ہوں یہ جانے بغیرکہ سوال پوچھنے کا مجھے آئینی حق ہے یا نہیں۔ بہر حال اﷲ مالک۔ محترمین میرے سوال بڑے مختصر سے ہیں لیکن کسی طور جامع بھی کہ ۔ یہ کرپٹ لوگ جو ہمارے سیاسی، سماجی رہنما ہیں یا اہم ملکی عہدوں پر فائز بیوروکریٹ جب رشوت لیتے ہیں۔ ملکی دولت ہڑپتے ہیں۔

غربا و مساکین کا خون چوستے ہیں۔ وطن سے غداری کرتے ہیں۔ اپنے عہدے کے دیے گئے حلف سے انحراف کرتے ہیں۔ تو کیا یہ حدود سے تجاوز نہیں کرتے؟ جیسا کہ آپ نے فرمایا ''ادارے اپنی حدود میں رہ کر فرائض انجام دیں'' لیکن ان کرپٹ اور بد عنوان لوگوں نے کس کی حد سے تجاوز کیا؟ کیسے روند کر یہ مال سمیٹتے رہے؟ کیا غربت کی کوئی حد ہے؟ کیا عوام کے حقوق ہیں؟ ان کی عزت نفس کی کوئی دیوار ہے؟ یہ اربوں،کھربوں پتی بن گئے۔ ملک کی غریب عوام خون تھوکتی رہی۔ بد ترین مہنگائی کے باعث اپنے بچوں سمیت خودکشی کرتی رہی، وہ بیٹیاں جنھیں عزت سے بیاہنا تھا گھر بیٹھی رہ گئیں۔ یا جسم فروشی پر مجبور ہوئیں۔

اس کا ذمے دار کون ہے؟ طالبان ہزاروں معصوم لوگوں کے قاتل، معصوم بچوں کے قاتل جب گرفتار ہوتے ہیں تو ضمانت پر رہا ہوجاتے ہیں! معزز عدلیہ کا استفسارکہ ان کے خلاف پولیس نے کمزورکیس بنایا ثبوت و شواہد کی کمی ہے لہٰذا انھیں ضمانت دینی پڑی۔ جب کہ کمیونیکیشن کے اس جدید دور میں خود عادل منصف بھی جانتے ہیں کہ ضمانت پر رہا ہونیوالے قاتل ہیں اور اس حقیقت سے بھی خوب واقف ہیں کہ ایسے ظالموں اور درندوں کے خلاف ابھی ہمارے معاشرے میں گواہی دینے کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے، کیونکہ گواہی دینا موت کو دعوت دینے کے مترادف۔ لہٰذا کیس کا مضبوط بننا تقریباً ناممکن ۔ لیکن وہ بھی چھوٹ جاتے ہیں۔ بالآخرArmy Courts بنانی پڑیں۔

جن کی توثیق عدلیہ نے بھی شاید اپنے نظامِ انصاف کو مد نطر رکھتے ہوئے کی۔ لیکن قانون، انصاف، عدل، بند کہاںہیں؟ فائلوں پر بندھے ہوئے سبز اور لال فیتوں میں؟ یا کسی بند کمرۂ عدالت میں۔ گویا آئین ہے، قانون ہے، عدالتیں ہیں لیکن ایک ضابطہ انھیں کچھ کرنے نہیں دیتا۔ ایک کرپٹ شخص، ایک قاتل، مجرم، زانی، جابر سب کچھ کرتا ہے، تمام حدود وقیود توڑ دیتا ہے اور نہ کافی ثبوت و شواہد کی بنا پر رہا ہوجاتا ہے اور اگلا جرم کرنے کے لیے پھر سے تیار، تازہ دم، حضور والا کیا آپ جانتے ہیں کہ ہمارا نظام عدل بنیادی خامیوں کا شکار ہے۔ قانونی نقطوں اورضابطوں نے اسے بندشوں میں جکڑا ہوا ہے؟ براہ کرم سوچیے آپ کا دست انصاف، دست خدا ہے، میرا مشورہ ہے کہ آپ مزید کام کرنے سے قبل اپنے نقائص کو دورکیجیے اور حکومت سے پارلیمنٹ سے کروایئے۔ ورنہ تو جو طریقۂ کار رائج ہے۔

مقدمات جس انداز میں سنے اور فیصلے کیے جاتے ہیں ان میں زیادہ فائدہ مجرموں کو ہوتا ہے۔ یا اس سے بھی زیادہ مبہم صورتحال میں فائدہ کس کو بھی ہوجائے اس کا پتہ نہیں۔ گویا جس نے بڑا وکیل کرلیا یا جس نے جھوٹے سچے گواہ اکٹھے کرلیے، خرید لیے اس کے کیس جیتنے کے امکانات روشن اورکوئی غریب لاکھ حق پر سہی دروازۂ عدالت پر کھڑا اس ترازو کو تکتا رہتاہے جو وہاں آویزاں ہے۔ وکیل کرا نہیں سکتا۔ جج سے کچھ کہتے ہوئے خوف زدہ، جیل کا ڈر، جج صاحب کی برہمی کا اندیشہ، لہٰذا ایک دن بے چارہ فیصلہ سن کر تھکے قدموں سے گھر لوٹ آتا ہے۔

لیکن یہ معاملہ ایک غریب کے ساتھ ہے۔ قاسم ضیا کے ساتھ نہیں۔ سید علی نواز شاہ کے ساتھ نہیں۔ ان کی ضمانت ہوگئی۔ ساتھ یہ بیان بھی اخبار میں شایع ہوا کہ ''ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں'' مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ بڑے دکھ اور رنج سے مجھے اور پوری قوم کوگزرنا پڑا۔ یہ سوچ کر کہ ہماری حد کہاں ہے؟ اس کا کوئی شروع ہے؟ اس کا کوئی ختم ہے؟ یا یہ سرے سے بنی ہی نہیں۔ میری تحریر پڑھ کر اہل انصاف شاید میری کم مائیگی پر ماتم کریں ۔ یا مجھے جاہل کہیں، بد دماغ، بد عقل کہیں۔ لیکن بات بہت ٹھنڈے دل سے سوچنے کی ہے۔ اگر فیصلہ دو جانوروں کے درمیان ہے تو مسئلہ نہیں ایک جملے میں نمٹا دیجیے۔ لیکن انسان اشرف المخلوقات ہے ۔ جن کے معاملات یوم حشر خود اﷲ تعالیٰ سنے گا۔ جن کے مقدمات خود اﷲ تعالیٰ ہی نمٹائے گا۔ ''اور تم جن معاملات میں اختلاف رکھتے ہو۔ اﷲ ان کا فیصلہ یوم حشر میں فرمائے گا۔''( القرآن۔)

آپ کو انسانی معاملات سپرد کیے گئے ہیں اور یقین کیجیے یہ منصب آپ کو صرف اﷲ کریم نے عطا کیا ہے۔ لہٰذا بات اس نقطے پر آخرختم نہیں ہوجاتی کہ صاحب معاملہ کے خلاف یا حق میں ثبوت و شواہد نہیں یا پولیس کا تیارکردہ کیس مضبوط نہیں۔ چلیے اگر ہم اس مدعے پر بات کرلیں کہ کیا آپ ملک بھر میں پولیس کی کارکردگی، فرض شناسی،ایمانداری سے واقف نہیں؟ تب پھر مجرم کو کیونکر ان وجوہات پر ضمانت دی جاسکتی ہے؟

ہونا یہ چاہیے کہ ہر اس کیس میں جس میں آپ سمجھتے ہیں کہ پولیس مضبوط کیس بنانے میں ناکام رہی یا مناسب شواہد اکٹھے کرنے میں۔ آپ کیس کو روکیے اور مجرم کو رہا کرنے کے بجائے پولیس کو پابند کیجیے کہ وہ مذکورہ کیس میں مزید پیشرفت کرے، اسے پھر سے درست بنا کر عدالت میں پیش کرے۔ ورنہ پولیس کے خلاف ایکشن ہونا چاہیے۔ یہ تھے مجھ ناچیز کے چند سوال۔ معذرت کے ساتھ کچھ مشوروں کے ساتھ۔ ممکن ہے جنھیں دینے کا مجھے حق حاصل نہ ہو اور مجھے اس کی پاداش میں کسی سزا کا سامنا کرنا پڑے لیکن بخدا میری نیت ٹھیک ہے۔ اور میرا خلوص آپ کے ساتھ۔ اﷲ آپ کا حامی و ناصر ہو۔ آپ کامیاب ہوں، عدلیہ پر عوام کا اعتماد پہلے سے زیادہ مضبوط ہو۔ (آمین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں