انڈے توگندے ہونگے

میں مان لیتا ہوں کہ اس ڈبے میں جتنے انڈے ہیں سارے گندے ہیں ۔اٹھا کر پھینک دوں باہر گلی میں؟


انیس منصوری October 04, 2015
[email protected]

میں مان لیتا ہوں کہ اس ڈبے میں جتنے انڈے ہیں سارے گندے ہیں ۔اٹھا کر پھینک دوں باہر گلی میں؟ یا پھر آ پ مجھے بتا دیجیے کہ وہ کون سا ڈبہ ہے جس میں سارے انڈے اچھے ہیں۔ آپ کی بات تسلیم کرلیتے ہیں کہ کوئی انڈا کرپشن نے منحوس کردیا ہے اورکسی کو دہشت گردی نے ناپاک کردیا ہے ۔ پھر آپ ہی زحمت کر کے مجھے یہ سمجھا دیں کہ وہ کون سا پاک صاف ڈبہ ہے جسے کھولنے کے بعد میرے دل کو تسلی ہو جائے گی اور اب آملیٹ بھی اچھے بنیں گے اور چوزے بھی اچھی نسل کے نکلیں گے ۔

اگر میں خوابوں کی دنیا میں رہتا ہوں تو آپ مجھے جگا کر حقیقت بتا دیجیے کہ وہ کون سا ڈبہ ہے جس سے بدبو نہیں اٹھ رہی ہے ۔کس رنگ کو میں چھوکر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوسکتا ہوں ۔ ایسی کوئی جادوئی چھڑی ہے کسی کے پاس جو سارے ڈبوں میں موجود گندے انڈوں کو نیا کر دے اور میں بھی کہنے لگوں کہ نیا ڈبہ بن گیا ہے جس میں سارے انڈے اچھے ہیں ۔اگر گندے انڈوں کو نئے ڈبے میں ڈالنے سے چوزوں کی اگلی نسل اچھی نکلنی ہے تو براہ مہربانی ہمیں پرانے ڈبوں کے ساتھ ہی رہنے دیں ۔فوجی عدالتوں پر آنسو بہاتے ہوئے ووٹ دینا والے سینیٹ کے چیئرمین نے کون سی ایسی بات کہی ہے کہ جس پر کسی کو حیرت ہونی چاہیے ۔

نا تو انھیں کوئی شک ہے اور نا ہی ہم میں سے کسی کو شبہ ہے جو یہ کہے کہ سیاست کے ڈبے میں گندے انڈے موجود ہیں ، مگر بات تو انھوں نے وہ ہی کہی کہ پھر بتادیجیے کہ کون سا ڈبہ ایسا ہے جس میں سارے نیک سیرت اورشریف قسم کے انڈے موجود ہیں ۔ جن کے اندر نہ توگندگی ہے اور نہ ہی ان کی سفید جلد پرکوئی کالا داغ ہے ،تو پھر یہ ہنگامہ ہے کیوں برپا کہ صرف یہ ہی سارے گندے انڈے ہیں ۔ اسلام آباد کی ٹھنڈی ہوائیں ہوں یا پھرکراچی کا گرم موسم، ہر جگہ سے یہ آوازیں آرہی ہیں کہ ایک بار پھر سیاسی ڈبے کو گندہ ثابت کرنے کی کوشش جان بوجھ کرکی جارہی ہے اور اس کے نتائج آئندہ کچھ دنوں میں آنے والے ہیں۔ان انڈوں کی جانچ کرنے والا ادارہ بھی لگتا ہے ، ہمارے محکمہ موسمیات کی طرح کا ہے ۔

جس نے جب بارش کی پیش گوئی کی اُس وقت گرمی نے پورا انتقام لیا ۔ یہ ہی تو ماہرین ہیں جو چاپوں سے اندازے لگالیتے ہیں کہ اب کس ڈبے کی باری ہے اور ساری زندگی کے تجربے کے بعد وہ پچھلے سال اس موسم میں کیوں ناکام ہوگئے تھے ۔ جب ہرطرف سے نیا ڈبہ خریدنے کی بات کی جارہی تھی ۔ میاں صاحب روانی میں آدھا سچ بول گئے ۔ اس سچ سے مراد ہرگز ہرگز میاں برادران نہیں ہے بلکہ میاں رضا ربانی ہے ۔ یہاں تک تو انھوں نے ٹھیک مانا کہ پیپلز پارٹی میں بھی گندے انڈے موجود ہیں ، لیکن انھوں نے یہ غلط فرمایا کہ یہاں کوئی مقدس گائے نہیں ہے ۔

یہاں بہت سے مقدس ہیں ۔ جن کا نام لینے کے بعد بار بار وضاحتیں دینی پڑتی ہیں ۔ ایک صاحب جنھیں ہمیشہ سے گندے انڈے ایک ہی ڈبے میں نظر آتے ہیں وہ کہنے لگے کہ سینیٹ کے چئیرمین کواس طرح کی تقریر نہیں کرنی چاہیے ۔ تو ساتھ بیٹھے ہوئے جیالے کہنے لگے کہ پھر بہت سے لوگوں کو خاص کمیٹیوں کا چیئرمین بن کرکپتان کوگھر نہیں بھیجنا چاہیے ۔ چاہے اُس کی عمرکچھ بھی ہو۔ انڈا جتنا پرانا ہوجائے جب تک وہ گندا نہیں ہوتا اُسے ڈبے سے نہیں نکالنا چاہیے ۔ میاں صاحب آپ بہت بڑے جیالے ہیں لیکن اگر یہ کہنے کی بجائے کہ بیوروکریسی میں بھی گندے انڈے موجود ہیں ۔

آپ اُن کے نام لیتے تو میں مان جاتا ۔ جس طرح وہ چُن چُن کر نام لے رہے ہیں آپ بھی چُن چُن کر پتھر مارتے تو ہمیں پتہ چلتا کہ کس کس ڈبے میں کتنے گندے انڈے موجود ہیں اور جیالوں کا خون اب تک کتنا گرم ہے ۔ یہ اشاروں اشاروں میں باتیں کرنے سے تو کوئی گندہ انڈا ڈبے سے باہر نہیں کودے گا ۔کہہ دیجیے اُس کھلے راز کو جو کراچی میں پان کے ٹھیلے میں بیٹھا ہوا بھی جانتا ہے اور گوال منڈی میں صبح صبح پائے کھانے والا بھی سمجھتا ہے ۔ کچھ لوگوں کے ساتھ ایک جنیاتی مسئلہ ہے جنھیں کوئی بھی ڈبہ سمجھ نہیں آتا ۔

انھیں سیاسی ڈبہ تو پورا گندہ لگتا ہے اور وہ ہر وقت یہ فرماتے پھرتے ہیں کہ اس ڈبے کا تو ایک ہی نعرہ ہے کہ گندہ ہے پر دھندہ ہے ۔ لیکن جب ان کے ہاتھ میں چھڑی دی گئی تب بھی دل کو چین نہیں آیا اور کہتے رہے کہ بری جمہوریت آمریت سے بہتر ہے ۔ اُس وقت بھی انھیں کوئی انڈہ صحیح نظر نہیں آیا ۔ تو ہم نے کہا کہ چلو یہ کالا ڈبہ لے لو ۔ ہر جگہ نعرہ لگاتے رہوکہ تیرے جانثار بے شمار بے شمار ۔ یہاں تو مسئلہ ہی الٹا پرگیا اپنی قسمت پر ماتم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نعرہ لگاتے ہوئے ہمیں تھوڑی معلوم تھا کہ انڈوں کے ساتھ ڈبہ بھی گندہ ہے ۔

ایسے لوگوں کو ہاتھ میں پکڑا ڈبہ سب سے برا لگتا ہے ۔ جو گزرگیا اُسے مرنے کے بعد اچھے ناموں سے یاد رکھتے ہیں اور جو آنے والا ہوتا ہے اُس سے چوزے بنانے کی فیکڑی تک کا سوچ لیتے ہیں ۔ مگر کوئی یہ کیوں نہیں سمجھاتا کہ ہر بار یہاں صرف اور صرف ڈبے بدلے ہیں انڈے نہیں ۔ کالا ہو یا سفید ، ہرا ہو یا خاکی جس رنگ کا ڈبہ آیا اُس میں کود کر پہلے ہی سارے گندے انڈے اپنی اپنی کرسی سیٹ کرلیتے ہیں ۔ اس لیے کچھ بھی ہو جائے ہماری قسمت میں وہ ہی گندے انڈے ہیں ۔ یہ جو نیا نیا ڈبہ بجا کر ہمیں بتا رہے ہیں کہ اب نیا پاکستان کا ڈبہ بننے والا ہے اُس میں بھی وہ ہی پرانے انڈے موجود ہیں ۔ ایک نیا انڈا جو اس ڈبے میں آتا ہے اُسے گندہ کرنے میں سب سے پہلے کون اپنا ہاتھ اونچا کرتا ہے ۔ میں توکم عقل آدمی ہوں ۔آپ مجھے سمجھا دیں جس انڈے پر سیاسی دہشت گردی کا الزام ہے ۔اُس کی پرورش میں نے تو نہیں کی تھی ۔

اُس کے ساتھ بیٹھ کر حکمت عملیاں میں تو نہیں بناتا رہا تھا ۔ عجیب سا فارمولا ہے اس چھوٹی سی دنیا یا چھوٹے سے ڈبے پاکستان کا ۔ اندر سے جیسا بھی ہو ہمارے یہاں اچھائی اور گندگی اوپر سے دیکھی جاتی ہے ۔ پہلے ایک انڈے کو اوپر سے دھوکر ہمیں ایسا بتایا جاتا ہے کہ اس سے زیادہ انقلابی تو کوئی آیا ہی نہیں اور پھر کچھ عرصے بعد اُسی پر کالا رنگ پھیر دیتے ہیں کہ دیکھو اس سے بڑا تو کوئی ظالم آج تک آیا ہی نہیں ۔ سیانے کہتے ہیں سارے ڈبے ایک ہی ہیں اور سارے کے سارے آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔ بس رنگ اس لیے بدلے ہیں کہ مال آرام سے بک جائے ۔ تو پھر ایک ہی ڈبے میں سے انڈے نکال نکال کرکیوں دکھائے جا رہے ہیں کہ یہ دیکھو یہ والا بھی کرپٹ ہے ۔ یہ دیکھو یہ دہشت گردی والا ہے ۔

یہ دیکھو یہ دھاندلی والا ہے ۔ آخر یہ مال برا کر کے کس کا مال بیچا جا رہا ہے ۔ اگر یہ سارے انڈے گندے ہیں تو پھر وہ کون سے جاہل لوگ ہیں جو پھر ان گندے انڈوں کو ہی لینا پسند کرتے ہیں ۔ کہیں کوئی گڑ بڑ ہے ۔ وہ ہمیں بتا رہے ہیں کہ سارے انڈے بدبو والے ہیں ۔ ہم اُس کی ہر بات میں ہاں ہاں بھی کر رہے ہیں لیکن پسند کی مہر لگاتے اُسی سڑاند والے انڈوں پر ہیں ۔کہیں اندر سے ہمیں یہ یقین تو نہیں کہ مال تو سارا ایک جیسا ہی ہے بس اپنے جیسا کون لگتا ہے اُس کو لے لو ۔ ورنہ دنیا کی تو عادت ہے باتیں کرنے کی ۔کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم سب لوگ ایک بڑے سے ڈبے میں بند ہیں اور ہم سب ہی گندے ہیں جو ہر بار اس تلاش میں ہوتے ہیں کہ کون سا انڈا نیا نیا گندہ ہوا ہے ۔ اُسی کو اپنا سربراہ بنا لیں ۔

یہ سڑکوں پر ٹریفک کے سگنل توڑتے ہوئے ۔ یہ جا بجا دونمبریاں کرتے ہوئے ۔ یہ گلی محلوں سے لے کر محکموں تک ہم نہیں ہیں تو کون ہیں ۔ ایسا تو نہیں کہ ہم میں سے ہی کوئی گندہ انڈا ہم پر برسنے لگ جاتا ہے تو ہم اُسے برا کہتے ہیں ۔ اور جو ہمارے ساتھ رہ کر ہمیں یہ بتاتا ہے کہ فکر مت کرو میں بھی تمھارے جیسا ہو ۔اُسی کے سر پر ہم پگڑی رکھ دیتے ہیں ۔ اب آپ یہ مت کہیے گا کہ انڈے زیادہ ہو گئے ۔ وہ تو ہونگے ہی نا جب گائے کا گوشت بند ہو اور مرغیاں بک رہی ہوں تو پھر انڈے تو گندے ہونگے نا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں