بولو بولو کہ ہو جنگ نا
اسی انجمن میں ہمارا سربراہ، ہمارا وزیراعظم ’’عرضِ مدعا‘‘ بیان کرنے گیا ہوا ہے
اسی انجمن میں ہمارا سربراہ، ہمارا وزیراعظم ''عرضِ مدعا'' بیان کرنے گیا ہوا ہے ، اور اس نے اپنا مدعا بھی بیان کردیا ہے۔
ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے؟
بہت سال پہلے 1965 کی پاک و ہند جنگ کے بعد ہمارا اس وقت کا سربراہ جنرل ایوب خان بھی اسی انجمن میں ''عرضِ مدعا'' کے لیے گیا تھا۔ پاک و ہند کے کھیت کھلیان بارود نے جلاکر راکھ کر دیے تھے۔ دونوں ملکوں کی دھرتی لہولہان ہوچکی تھی۔ تب بھی جالب نے اپنے سربراہ کو مشورۃً کہا تھا۔
نہیں ہے کوئی وہاں درد آشنا اے دل
''اس انجمن'' میں نہ کر ''عرضِ مدعا'' اے دل
مگر ریڈیو پاکستان کے ''ملازمین'' حمید نسیم، حفیظ ہوشیار پوری ودیگر نے جالب کو تازہ غزل پڑھنے سے روک دیا تھا،ان کا اصرار تھا کہ ''حال میں لکھے جنگی ترانوں میں سے کوئی بھی سنا دو'' مگر جالب نے انکارکردیا کہ ''یہی تازہ کلام سناؤں گا'' تازہ کلام ''سرکاری ملازمین'' نہیں سنوا سکتے تھے اور جالب کا اصول تھا ''ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا'' سو دونوں طرف ''مجبوری'' تھی اور اسی مجبوری کے کارن جالب مشاعرہ گاہ سے چلے گئے۔ یاد دلاتا چلوں کہ یہ کل پاکستان مشاعرہ کراچی پریس کلب میں ہوا تھا۔
اپنے کالمی مدعا کے لیے مجھے اس غزل کے مزید تین شعر لکھنا ہیں۔ غزل کا مطلع تھا:
طوافِ کوئے ملامت کو پھر نہ جا اے دل
نہ اپنے ساتھ' ہماری بھی خاک اڑا اے دل
پھر وہ شعر جو میں نے اوپر لکھا ہے اور تیسرا یوں تھا:
دیے ہیں داغ بہت اس کی دوستی نے تجھے
اب اور دشمنِ جاں کو نہ آزما اے دل
وطن کے چاہنے والے سمجھ رہے ہوں گے
ہے کس خلوص سے جالب غزل سرا اے دل
وطن کے چاہنے والوں کے ساتھ ساتھ ''وطن دشمن '' بھی خوب سمجھ رہے تھے کہ ''جالب کیا مشورہ دے رہا ہے''۔ اور پھر ہم یہاں تک آگئے۔ اس دوران ''قاتل'' نہیں بدلے ''چہرے'' بدلتے رہے۔ تخت پر بھی قاتل بیٹھا رہا اور اقتدارکے لیے پر تولنے والا عوام کا دوست بن کر دھوکا دینے والا بھی قاتل گویا ''اندر قاتل باہر قاتل بیچ و بیچ ہے فوارہ'' جس میں آج بھی سب نہا رہے ہیں،کھا رہے ہیں،کما رہے ہیں۔
ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، ابھی کل کی بات ہے ایک ہی دیس تھا۔ جنگ ہو، بارود ادھر برسے یا ادھر برسے، جلے گی اپنی دھرتی اپنا دیس۔ نقصان سانجھا ہوگا۔ اب تک تین جنگیں ہوچکیں ہمیں کیا ملا؟ مزید غربت، بدحالی۔ اگر ہم یہ جنگیں غربت کے خلاف لڑتے، جہالت کے خلاف لڑتے، بے روزگاری کے خلاف لڑتے، ظالموں جابروں کے خلاف لڑتے تو آج ہندوستان، پاکستان میں فٹ پاتھوں پر جیتے مرتے انسان نظر نہ آتے۔ بغیر دوا علاج مرتے غریب اور بے روزگاری کے ہاتھوں خودکشیاں کرتے عوام نظر نہ آتے۔ جن بڑے ملکوں نے ہتھیار بنانے کے کارخانے لگا رکھے ہیں وہ تو اپنا اسلحہ فروخت کریں گے جنگ کی ترغیب دے کر جنگی حالات پیدا کرکے اختلاف ابھار کے اسلحے والے تو کسی بھی صورت اسلحہ بیچیں گے۔ اور فاضل گندم بھوکے انسانوں کو نہیں دیں گے سمندر میں پھینک دیں گے۔
ایک نمبری دنیا ترقی کی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ بڑی بڑی تعلیمی درس گاہوں میں پڑھ پڑھ کر طلبا و طالبات نکل رہے ہیں۔ علم تو آگاہی ہے۔ اچھائی برائی کو الگ الگ کرتی ہے۔ مگر علم حاصل کرکے بھی انسان کے اندر بیٹھا شیطان نہ مرسکا اور ان ہی پڑھے لکھوں نے دنیا بربادکردی۔ انسانیت تباہ کردی۔ لاشوں کے انبار لگادیے۔ ہرے بھرے باغات بارود سے خاکسترکردیے،کھیت کھلیان ٹینکوں سے روند ڈالے۔
یہ کیسی ترقی ہے، یہ چاند پرکمندیں کیوں ڈالی جا رہی ہیں، یہ ستاروں سے آگے کیسی جستجو ہے۔ ایک زمینی سیارہ تو تم سے سنبھالا نہیں گیا۔ خیر یہ رونا دھونا تو چلتا ہی رہے گا۔ یہ سیالکوٹ بارڈر پر کیسی چھیڑ چھاڑ چل رہی ہے۔
یہ بندوقی پھل جھڑیاں کیوں چھوڑی جا رہی ہیں۔ یہ تو ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ ہے اور نتیجہ دیکھ لیں۔ درجنوں انسان مارے جا چکے ہیں، بہت سے مکانات مسمار ہوچکے ہیں اور وہ جو ''امن کا دشمن، جان کا دشمن/ دھرتی اور دہقان کا دشمن/ کھیت کا اور کھلیان کا دشمن/ پیارے پاکستان کا دشمن/ بچوں اور ماؤں کا بیری/ پیڑوں کی چھاؤں کا بیری/ سندر آشاؤں کا بیری/ ہر دل کے ارمان کا دشمن/ جب یہ کبھی غصے میں آئے/ مندر، مسجد سب کو ڈھائے/ دریاؤں میں آگ اگائے/ دھرم کا اور ایمان کا دشمن/ ایٹم بم انسان کا دشمن۔/(حبیب جالب کی نظم ''ایٹم بم'' کے عنوان سے بچوں کے رسالے ''بھائی جان'' میں شایع ہوئی تھی۔ رسالے کے مدیر مرحوم شفیع عقیل تھے اور نظم اکتوبر 1952 کے شمارے میں شایع ہوئی تھی۔)
اور جناب یہ ایٹم بم پاکستان ہی کا نہیں ہندوستان کا بھی برابر کا دشمن ہے اور یہ ہتھیارا دونوں ملکوں کے پاس ہے۔ اب ان حالات میں کیسی جنگ، کدھر کی جنگ۔ یہ تو خاتمہ ہی خاتمہ ہوگا تو کیا ہم مل کر اپنے دیس کو بھسم کردیں گے؟
جنگ کی باتیں نہ کرو، جنگی چھیڑ چھاڑ اچھی نہیں، کشمیر وہیں رہے گا جہاں ہے، کشمیر نہ ادھر کھسک جائے گا نہ ادھر۔ بس وہاں کے رہنے والوں کو ان کی مرضی و منشا کے مطابق جینے دو۔ ایسا ہوجانے میں نہ کسی کی جیت ہے، نہ کسی کی ہار۔ بارڈر پر لگی بھاری زنجیر کو ہلکا کرو، تاکہ لوگ ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر آ جا سکیں۔ پڑوسی آپس میں مضبوط ہوں گے تو فائدہ ہی فائدہ ہے۔ یہ سفاکیت، شیطانیت چھوڑو اور دنیا کے بڑے بڑے شیطانوں کے خلاف اپنی طاقت جمع کرو۔ جو نفرت کے بیج بوتے ہیں اور جنگیں کرواتے ہیں۔ حبیب جالب کی نظم کے ساتھ اجازت:
چاہے کوئی رہے سنگ نا
ہم کہیں گے کہ ہو جنگ نا
بولو' بولو کہ ہو جنگ نا
امن بچوں کی مسکان ہے
جنگ شعلوں کا طوفان ہے
ہو یہ دھرتی لہو رنگ نا
بولو' بولو کہ ہو جنگ نا
جنگ آہوں بھری رات ہے
جنگ اشکوں کی برسات ہے
ہو نہ سونا کوئی انگنا
بولو' بولو کہ ہو جنگ نا
سر پہ گوری کے آنچل رہے
ہنستا نینوں میں کاجل رہے
یونہی چھنکے صدا کنگنا
بولو' بولو کہ ہو جنگ نا