خطے میں امن مسئلہ کشمیرکا حل ناگزیر

اسلام دین فطرت اور امن و سلامتی کا مذہب ہے


[email protected]

اسلام دین فطرت اور امن و سلامتی کا مذہب ہے، عقل و شعور، حکمت و بصیرت، صبر، تحمل و برداشت اور وسیع النظری اسلام کا خاصہ ہے، اسلام صلح و مفاہمت اور گفت و شنید کے ذریعے الجھی ہوئی ڈور کو سلجھانے کی ہدایت کرتا ہے اور دینی بصیرت، رواداری، اعتدال، مساوات و میانہ روی کا دامن ہاتھ میں تھامے رکھنے، انتہا پسندی کے خاتمے اور ملی یگانگت کے ساتھ پوری فراست، بالغ النظری اور زمینی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی عزت و وقار اور قومی سلامتی کے تحفظ اور پر امن بقائے باہمی کے تاریخ ساز اصول کے تحت حکمت و سیاست سے بھرپور معاہدات اور تمام گمبھیر مسائل اور عظیم چیلنجز پر مکمل قابو پانے اور بھرپور حل کی ترغیب دیتا ہے۔ سیرت نبویؐ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مسئلے کا حل جنگ میں تلاش کرنا دانش مندی کے خلاف ہے، اسلام وسیع القلبی کے ساتھ احترام آدمیت اور تکریم انسانیت کا درس دیتا ہے۔

1998ء میں پاکستان و بھارت کے ایٹمی قوت بننے کے ساتھ ہی یہاں کی اقوام بھی ایٹمی یرغمال بن گئے، یہ خیال بھی پروان چڑھا کہ دونوں ممالک میں اب کبھی جنگ نہیں ہو گی اور اگر ہوئی تو وہ دونوں ممالک کے لیے آخری و حتمی معرکہ ہو گا، جنگیں کبھی مسائل کا حل ثابت نہیں ہوئیں، جنگوں میں نقصان عوام کا ہی ہوتا ہے، انسان ہی مرتے ہیں۔

ممالک و اقوام تباہ و برباد ہوتے ہیں اور بالآخر ندامت و پشیمانی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ تھک ہار کر جو لوگ بچ جاتے ہیں وہ امن معاہدوں پر اکتفا کرتے ہیں اور امن و سکون کو ہی غنیمت جانتے ہیں۔

آپ ان اقوام سے پوچھیے جنھوں نے دو عالمی جنگیں لڑیں، تباہ و برباد ہوئے، لاکھوں کی تعداد میں جانی و مالی نقصان ہوا، کچھ خیر ہاتھ نہ آیا، شر ہی شر سب کچھ کھا گیا، جو بچ رہے انھیں امن و امان و سکون کی قدر و قیمت کا شدت سے احساس ہوا اور آج وہ جنگ کے نام سے بھی کانپتے ہیں۔پاک بھارت سرحدی علاقوں میں جو جھڑپیں اور بیان بازی چل رہی ہے اور بھارت کا جو جنگی و ایٹمی جنون پاگل پن کی انتہا کو پہنچ گیا ہے وہ اگر خدانخواستہ کسی بڑی جنگ کی صورت اختیار کر گیا تو پھر یہ دونوں ممالک و اقوام کے لیے تو مہلک ثابت ہو گا ہی تاہم پوری دنیا پر بھی اس کے خطرناک اثرات مرتب ہوں گے۔

پاکستان و بھارت ہی نہیں، دنیا میں اور بھی ایٹمی ممالک ہیں جن کی وجہ سے صرف وہاں کے عوام ہی نہیں بلکہ پوری دنیا ایٹمی یرغمال بن چکی ہے۔ اس کرہ ارض پر حضرت انسان نے اپنے قیام کے عرصے میں خطرناک ارتقائی سامان جمع کر لیا ہے، جیسے جارحیت اور رسم پرستی کی طرح موروثی رجحان، رہبروں کی اطاعت اور غیر ملکیوں سے معاندانہ رویہ وغیرہ۔ اس طرز عمل نے ہماری بقا کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ ذرا غور کیجیے تو ہر سوچنے سمجھنے والا شخص ایٹمی جنگ سے خوف کھاتا ہے اور پھر بھی ہر تکنیکی ریاست اس کی منصوبہ بندی کرتی ہے، ہر ایک جانتا ہے کہ یہ پاگل پن ہے اور اس کے باوجود ہر قوم کے پاس اس کا عذر موجود ہے۔ یہ عذر خواہی کا ایک بڑا بے کیف سلسلہ ہے۔

مثال کے طور پر جرمن ایٹم بم کی تیاری پر دوسری جنگ عظیم کے آغاز سے ہی کام کر رہے تھے لہٰذا امریکیوں کو جرمنوں کے مقابلے میں پہل کرنا پڑی۔ جب امریکیوں نے ایٹم بم بنایا تو روسی کیوں پیچھے رہتے؟ اور پھر برطانیہ، فرانس، چین، اسرائیل، بھارت، پاکستان، ایران اور شمالی کوریا غرض اکیسویں صدی کے آغاز تک کئی اقوام نے ایٹمی ہتھیار جمع کر لیے ہیں۔ ان ہتھیاروں کو تیار کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے، انشقاق پذیر مادہ، تابکاری کی حامل اشیا سے ملتا ہے اور وہ حاصل کر لیا گیا ہے۔ یوں ایٹمی ہتھیار تقریباً گھریلو دست کاری بن چکے ہیں اور ایک گھریلو دستکار صنعت کا درجہ اختیار کرنے جا رہے ہیں۔

کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور بھارت کی طرح پاکستان بھی ایک عظیم ایٹمی قوت ہے اقوام متحدہ کے علاوہ دنیا کے تمام ممالک بھی کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرتے ہیں اور روز اول کی طرح آج بھی کشمیریوں کی تحریک آزادی جاری ہے اور حریت پسند کشمیری کسی بھی قیمت اور کسی بھی صورت میں اس سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں، ہندوستان کے لیے دانشمندی اسی میں ہے کہ وہ گاندھی جی کے ''فلسفہ عدم تشدد'' کو پیش نظر رکھتے ہوئے ضد اور ہٹ دھرمی کو ترک کرکے پاکستان کی شہ رگ پر ظلم و بربریت کی تلوار چلانا اب بند کرے اور مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مذاکرات سے حتی الامکان و حتی المقدور فوری طور پر حل کرے اور خطے کی بقا، سلامتی اور ترقی میں مزید رکاوٹ نہ بنے، یقینی طور پر مستقبل قریب میں اس خطے کی خوشحالی کا تمام تر انحصار بھارت کے مثبت یا منفی رویوں پر ہے، میاں صاحب تو خطے میں قیام امن کے لیے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کے ساتھ ہر تجویز زیر غور لانے کا عندیہ دے چکے ہیں۔

امن پسندی اور صلح جوئی کے تمام تر جذبات کے ساتھ ساتھ تاریخ کی اس ناقابل تردید حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ محمد علی بوگرہ سے لے کر اب میاں نواز شریف تک سب ہی نے بھارت کو اپنے اپنے ادوار میں امن کی پیش کش کی مگر بھارت نے ہمیشہ بدمست ہاتھی کی طرح ہماری ہر پیشکش کو نہ صرف اپنے پاؤں تلے کچل دیا بلکہ پاکستان کو کمزور کرنے کی پس پردہ سازشیں جاری رکھیں اور پاکستان کے وجود کو تسلیم کبھی نہیں کیا۔حالانکہ خود پاکستان بھی یہی چاہتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں ہی نکالا جائے لیکن بھارت کی مرضی کچھ اور ہی رہی ہے اور یہی اس مسئلے کی اصل جڑ ہے۔

پاکستان اقوام متحدہ امن فوج کا سب سے بڑا حصے دار ہے اور اسے اقوام متحدہ کی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے قراردادوں پر مکمل اعتماد بھی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت ہوش کے ناخن لے اور جنگی جنون ترک کر کے مذاکرات کی میز پر آئے، دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کا خاتمہ اور حقیقی قیام امن وقت کا اہم تقاضا ہے اور اس میں دونوں ممالک کے سیاسی و عسکری چینلز اہم کردار ادا کرتے ہوئے ایسا مشترکہ لائحہ عمل تیار کر سکتے ہیں۔

جس سے دونوں ممالک کی قیادت کے درمیان اعتماد سازی کی فضا قائم ہو، تمام مسائل کا حل نکلے اور دائمی امن قائم ہو، بصورت دیگر دونوں ہی ممالک ایٹمی قوتیں ہیں اور دونوں کے درمیان جنگی فضا و ایٹمی تصادم دونوں ممالک و اقوام کے لیے قیامت صغریٰ برپا کر دے گا، یہ ایسا مہلک خودکش پچھتاوا ہو گا کہ جس کا مداوا پھر کسی صورت ممکن نہ ہو گا لہٰذا مذاکرات کیجیے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔۔۔۔۔ سب کچھ کھو جائے اور اقوام عالم کی داستانوں میں پاک و ہند کی داستان تک مٹ جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں