بوٹی چھوٹی کباب مصالحے والی

یہاں کوئی پوچھنے والا ہے کہ جب جشن منایا جاتا ہے تو کس کے لہو کا تیل جل رہا ہوتا ہے


انیس منصوری September 30, 2015
[email protected]

SAN FRANCISCO: یہاں کوئی پوچھنے والا ہے کہ جب جشن منایا جاتا ہے تو کس کے لہو کا تیل جل رہا ہوتا ہے۔ کوئی ہمیں سمجھا دے کہ جب لوگوں کو پھولوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں تو کون سا باغ اجاڑا گیا ہوتا ہے۔ کس کے ہاتھوں پر اپنا لہو تلاش کریں جب یہاں کسی کا ہاتھ ہی صاف نہ ہو۔ میں تو بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ جب خوشیاں منائیں تو بس ایک نظر یہ دیکھ لیں کہ کسی غریب کا گھر تو نہیں جل رہا ہے۔

کچھ لوگ اپنے ہر خواب کو پورا کرنے کے لیے تجوریاں کھول دیتے ہیں۔ ویسے ہی کبھی اپنا دل بھی اُن لوگوں کے لیے کھول دیں، جو اپنی چھوٹی چھوٹی ضرورت کے لیے اپنی جان تک قربان کر دیتے ہیں۔ جب ہمارے یہاں یہ شور ہو رہا تھا کہ پاکستان میں اس بار ریکارڈ قربانی ہوئی ہے اُس وقت ایک مجبور باپ دنیا سے نظریں بچا کر خود قربان ہونے جا رہا تھا۔

یہ اوکاڑہ کینٹ کا علاقہ نذیر کوٹ ہے۔ مشتاق یہاں روزانہ مزدوری کر کے اپنے چھ بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔ وہ اپنے حلق سے لقمہ اُس وقت تک نہیں اتارتا تھا جب تک اُس کے بچوں کا پیٹ نہیں بھر جاتا تھا۔ خود کو مار کر وہ اپنے بچوں کی ضرورت پوری کرتا تھا۔ شاید وہ اپنے بچوں کو اُن اسکولوں میں تعلیم نہیں دلوا سکتا تھا جہاں بڑی بڑی فیسس ہوتی ہیں اور نا ہی وہ اپنے بچوں کو بڑے بڑے خواب دکھا سکتا تھا، لیکن جب محلے میں ہر جگہ شور مچا ہو۔ کئی گھروں کے باہر قیمتی قیمتی جانوروں کو سجایا گیا ہو تو وہ اپنے بچوں کو کیسے روک سکتا تھا۔

ہم قیمتی قیمتی گاڑیوں میں گھومتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ کسی بچے کے پیروں میں چپل بھی نہیں ہے۔ حکومت کا دعویٰ کچھ بھی ہو لیکن غیر سرکاری تنظیمیں یہ واضح کر رہی ہے کہ پاکستان میں غریب اور امیر کے درمیان فرق بڑھتا جا رہا ہے۔ کچھ تجزیے اور تحقیق یہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ پاکستان میں موجود ایک بہت بڑی مڈل کلاس بھی اس وقت اپنا راشن پورا کرنے کی فکر میں لگی ہوئی ہے۔ ایک طرف پاکستان کے آئین کے مطابق بنیادی تعلیم سرکار کی ذمے داری ہے۔ لیکن خادم اعلیٰ کا صوبہ ہو یا سائیں کی سرکار یا پھر نیا خیبر پختوانخوا۔ ہر جگہ تعلیم صرف کتابوں میں قید ہو کر رہ گئی ہے۔ کہنا یہ ہے کہ جب امیر اور غریب کا فرق بڑھ رہا ہے تو پھر غصہ بھی بڑھتا ہے اور اپنی لاچاری کا بھی احساس ہوتا ہے۔

مشتاق بھی بے بس تھا، لاچار تھا۔ جب اُس کے بچوں نے یہ فرمائش کی کہ انھیں بھی قربانی کرنی ہے تو وہ پہلے بچوں کو سمجھاتا رہا، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بچوں کی ضد کے آگے وہ خود کو بے بس محسوس کر رہا تھا۔ اُس کے مہینے کی کمائی اتنی نہیں ہے جتنے کا بکرا ہو گا۔

ایسے میں وہ انھیں روٹی دے یا پھر قربانی کا جانور خریدے۔ اُس کے اندر ہمت بہت تھی اور اسی ہمت کی وجہ سے تو وہ اپنے چھ بچوں کا پیٹ پال رہا تھا، لیکن وہ حیوان نہیں تھا جو اپنے بچوں کو مار ڈالتا۔ وہ کوئی دہشت گرد نہیں تھا جو اپنا بدلہ اس سماج سے لیتا۔ وہ چاہتا تو بینک لوٹ لیتا۔ وہ چاہتا تو کسی کے گھر میں ڈاکا ڈال دیتا۔ وہ چاہتا تو کسی کا قربانی کا جانور چوری کر لیتا۔ لیکن وہ یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس حیوانی ماحول میں بھی اس کے اندر انسانیت باقی تھی۔ اب آپ فیصلہ کیجیے کہ جب ہم اپنے دینی فریضے میں بھی دکھاوا کرتے ہیں تو اُن لوگوں کے دلوں پر کیا گزرتی ہے۔

مشتاق اپنے بچوں سے بہت محبت کرتا تھا اور بچوں کی ضد کے آگے وہ بے بس تھا۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے اور پھر اُس نے وہ فیصلہ کیا جسے ہمارا سماج اچھا نہیں سمجھتا۔ جس کی اجازت ہمارے مذہب میں نہیں ہے۔ اُس نے سوئی گیس کا پائپ اٹھایا، گلے میں پھندا ڈال کر اُس سے لٹک گیا۔ وہ ایک کمزور آدمی تھا یا پھر اُسے ہمارے سماج نے اُس حد تک پہنچایا کہ وہ بالکل لاچار ہو گیا تھا۔ اُسے معلوم تھا کہ وہ اپنے بچوں کی خواہش کو کبھی بھی پورا نہیں کر سکتا ۔

مشتاق اس دنیا سے چلا گیا، لیکن میں اُس سے ضرور پوچھتا کہ وہ اپنے چھ بچوں کو کیا ہمارے حکمرانوں کے حوالے کر کے گیا ہے، جو ان کا خیال رکھیں گے؟ کاش میں کسی طرح اُس سے پوچھ سکتا کہ کیا اگلی عید پر اُس کے بچے قربانی کا جانور دیکھ کر اپنی خواہش کا اظہار نہیں کریں گے۔ مشتاق اگر تم سُن رہے ہو تو میں تم سے پوچھ رہا ہوں کہ کیا تمھیں اس بات کا یقین تھا کہ تمھارے مرنے کے بعد لوگ ہمارے مذہبی تہوار اور ہمارے عقیدے کو دکھاوے کے لیے استعمال نہیں کریں گے۔ مجھے پوچھنا ہے مشتاق سے کہ اُسے کیا یہ یقین نہیں تھا کہ یہ ریاست اور یہ حکومت اور یہ لیڈر انھیں اچھا مستقبل دینے والے ہیں۔ وہ کیوں مایوس ہو گیا، لیکن مشتاق تو چلا گیا۔

ہاں مشتاق تو چلا گیا مگر ہماری حکومتیں اور ہمارے لیڈران تو یہاں موجود ہیں۔ کیا میری مجال ہو سکتی ہے کہ میں اُن سے پوچھ سکوں کہ وہ مجھے بتائیں کہ کیوں مشتاق نے خود کشی کی ہے؟ کیا وہ اس نظام سے مایوس نہیں ہو چکا تھا؟ کیا میں اُن صاحب اختیار لوگوں سے پوچھ سکتا ہو ں کہ مجھے بتائیں کیوں یہاں لاکھوں لوگ باہر جانے کے لیے بے تاب بیٹھے ہیں۔ کیوں انھیں بھی اپنا مستقبل یہاں تاریک لگتا ہے۔

کاش کوئی صاحب اقتدار مجھے یہ بتائیں کہ کیا آج کے بعد کوئی مشتاق اپنے بچوں کی خواہش کے آگے خود کو بے بس محسوس نہیں کرے گا۔ اُسے یہ امید نہیں ہو گی کہ اُس کے بھی روزگار میں اضافہ ہو گا۔ اُسے کون یہ یقین دلائے گا کہ یہ ریاست ماں کے جیسی ہے۔ کیسے ان کی آنکھیں کھول سکتی ہے اور کیسے ہماری آوازیں اقتدار کے ایوانوں کی طرف جا سکتی ہے جو یہ سُن سکیں کہ یہاں ہر گھر میں ماتم ہو رہا ہے اور تم لاکھوں کا لباس پہن کر روزانہ کروڑوں خرچ کرتے ہو۔

اگر آپ سب لوگ مجھ پر پتھر نا برساؤ تو کیا میں پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ جو لوگ شام کے معصوم بچے کو دکھا کر کھال مانگ رہے ہیں، انھیں مشتاق کے بچے کیوں نظر آتے۔ شاید وہ زبانیں ہی آپ لوگ کاٹ دیں جو اس سماج سے پوچھ سکیں کہ محبت، امن اور حقوق العباد ہماری رگوں میں سے کہا چلا گیا ہے کہ یہاں پر ایک باپ اپنی جان لے رہا ہو اور ہم سب بوٹیاں بنانے میں مصروف ہوں۔ ایک نظر تو جھانک کر دیکھ لیں کہ اپنے پڑوس میں کوئی بھوکا تو نہیں ہے۔ ایک بار اپنا سر جھکا کر تو دیکھ لیجیے کہ کوئی آپ کے قدموں میں بیٹھ کر رو تو نہیں رہا ہے۔ اُن سفید پوش مکینوں کو تو تلاش کر لیجیے جو اپنے دامن سے اپنے منہ کو چھپائے ہوئے ہیں کہ کہیں کوئی اُن کی آنکھوں کو نا پڑھ لے۔

میں نہیں بلکہ دنیا جانتی ہے کہ پاکستانیوں کے دل بہت بڑے ہیں، مگر ان بڑے دلوں میں ہم جیسے چھوٹے لوگ کہیں روز مر تو نہیں رہے ہیں۔ یہاں روزانہ میاں بیوی میں اس بات پر جھگڑا ہوتا ہے کہ خرچہ پورا نہیں ہوتا۔ غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق پاکستان میں40 فیصد سے زیادہ لوگ غربت کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے مطابق ریاست پابند ہے کہ ہر شہری کے بنیادی حقوق کا خیال رکھا جائے، لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

اب اس کم آمدن میں آپ بتائیں کہ کیسے ایک گھر کا گزارا ہو۔ جس میں بچوں کی تعلیم بھی شامل ہو ، جس میں اُن کی صحت کا بھی خیال رکھنا ہو۔ جس میں ہر چھوٹے بڑے تہوار کی تیاریاں بھی شامل ہوں۔

جس میں کسی کی شادی بھی شامل ہو۔ ایسا ہی ایک سانحہ عید کے دن ڈسکہ میں پیش آیا ہے۔ ایک خاتون نے تنگ آ کر خودکشی کر لی۔ وہ روزانہ گھر چلانے کے لیے پیسے مانگتی تھی، لیکن شوہر کی اتنی آمدنی نہیں کہ وہ خرچہ پورا کر سکیں۔ قرض لے لے کر آخر کب تک زندگی کی گاڑی چل سکتی تھی۔ تنگ آ کر یہ عورت بھی چلی گئی۔ ہمارا مسئلہ وسائل نہیں ترجیحات ہیں۔ہمارا مسئلہ عوام نہیں لیڈرشپ ہے۔ میں بھی آپ کو کہاں دکھی کرنے لگ گیا۔ چھوڑیں ان باتوں کو یہ بتائیں کہ بوٹیاں چھوٹی بناؤں یا پھر بڑی۔ کباب مصالحے والی یا پھر سادی ...

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں