ایک سرکاری اسکول کے ’’بڑے‘‘ طالب علم
پاکستان بن گیا تو متحدہ ہندوستان سے لاکھوں لوگوں نے کراچی کا رخ کیا۔
پاکستان بن گیا تو متحدہ ہندوستان سے لاکھوں لوگوں نے کراچی کا رخ کیا۔ خصوصاً سرکاری ملازمین کراچی آئے کیونکہ کراچی پاکستان کا دارالخلافہ تھا۔ یہ پڑھے لکھے لوگ تھے۔ نئے ملک میں حالات ٹھیک نہیں تھے۔ ہر طرف مسائل ہی مسائل تھے جنھیں سنہرے مستقبل کی چاہ میں بھرے پرے گھر چھوڑکرآنے والوں نے قبول کرلیا تھا۔ 1947 میں ہندوستان سے آنے والوں نے کراچی کے علاقے لائنز ایریا میں پہلا پڑاؤ ڈالا۔ جیکب لائن، جٹ لائن، اے بی سینیا لائن، ٹیونیشیا لائن، بزرٹہ لائن، بی ہائنڈ جیکب لائن نام کی لائنز میلوں میں پھیلی ہوئی تھیں۔
یہ علاقہ شہرکے مرکز صدر ایمپریس مارکیٹ سے عین متصل تھا۔ آنے والوں کو اپنے بچے بچیوں کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا تھا۔ سو لائنز ایریا کی سب سے اہم لائن جیکب لائن میں تین بیرکوں میں دو سرکاری اسکولز قائم کردیے گئے۔ایک اسکول لڑکوں کے لیے اور دوسرا لڑکیوں کے لیے۔ ان اسکولوں میں بڑے بڑے سرکاری افسروں کے بچے بچیاں ہی نہیں بلکہ تحریک پاکستان کے صف اول کے ایک بہت نامور اور صاحب کردار رہنما کا بیٹا بھی پڑھتا تھا۔ جس نے کبھی کسی کوکانوں کان خبر نہ ہونے دی تھی کہ وہ کتنے عظیم باپ کا بیٹا ہے۔
آزاد وطن کی چاہ میں سبھی مست تھے۔جذبے جوان تھے امنگوں آرزوؤں سے دل لبریز تھے۔ سب ایک تھے، ایک دوسرے کے لیے پیار محبت تھا، ایثار تھا، قربانی تھی۔ گرے ہوئے کو ہاتھ بڑھا کر اٹھاتے تھے۔ ساتھ لے کر چلتے تھے۔ مشکلات بہت تھیں پھر بھی سب خوش تھے۔ جالب کا شعر ہے:
یہ بجا زیست پاپیادہ تھی
دھوپ سے چھاؤں تو زیادہ تھی
اب تو لٹیروں نے درخت بھی نہیں چھوڑے اور بیچ کھائے، خیر یہ تو یوں ہی درمیان میں بات آگئی۔ میں آپ کو 1947 کے گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول جیکب لائن کراچی لیے چلتا ہوں، جہاں اپنے زمانے کے مشہور کالم نویس نصر اللہ خاں تاریخ اور اردو کے استاد تھے۔ ان کا کالم ''حرف و حکایت'' بہت پڑھا جاتا تھا۔ نصراللہ خاں کے ہم عصر کالم نگاروں میں ابراہیم جلیس اور انعام درانی کے کالم بھی بہت مقبول تھے۔
نصر اللہ خاں نے اپنے ایک کالم میں گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ پاکستان ٹائمز کے سابق ایڈیٹر مرحوم اے۔ٹی چوہدری جن کا انگریزی زبان کے صف اول کے صحافیوں میں شمار ہوتا تھا اور انگریزی ادب پر بھی انھیں قدرت حاصل تھی۔ یہ گورنمنٹ ہائی اسکول جیکب لائن میں انگریزی کے استاد تھے۔ دیکھ لیں قیام پاکستان کے وقت گورنمنٹ اسکولوں میں اساتذہ کا معیارکیا تھا۔ ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ حکومتیں پاکستان کی ترقی کے لیے سرکاری اسکولوں کے معیارکو اورآگے بڑھاتی، مگر جب صرف ''ذاتی ترقی'' مقصد بن جائے تو وطن ترقی کیسے کرتا؟ ذرا غورکریں ایک طرف پاکستان ٹائمزکے ایڈیٹر انگریزی کے معروف صحافی اے ٹی چوہدری انگریزی کے استاد اور نصر اللہ خاں اردو اور تاریخ کے استاد اور دوسری طرف آج کے سرکاری اسکولوں کے استادوں کو دیکھ لیں، گھوسٹ اسکول ہیں،گھوسٹ استاد ہیں، جو ہزاروں روپے ماہانہ تنخواہیں گھر بیٹھے لے رہے ہیں۔ اسکولوں کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔
نصراللہ خاں مزید بیان کرتے ہیں کہ ہمارے اسکول میں ایک طالب علم ایسا بھی تھا کہ جو سائیکل پر اسکول آتا تھا۔ یوں ہم اساتذہ دوپہر میں اسے صدر بازار بھیج کر اپنے لیے سالن روٹی منگوا لیا کرتے تھے اور وہ سائیکل والا طالب علم بلا چوں چرا اساتذہ کے لیے سالن روٹی لینے چلا جاتا تھا۔ ہم اسکول کے ٹیچروں نے بھی اس سائیکل والے شاگرد سے کبھی نہیں پوچھا کہ بھئی! تم کون ہو،کس کے بیٹے ہو اورنہ کبھی اس نے ہمیں بتانے کی کوشش کی۔ معلوم نہیں یہ بات کیسے ہمیں پتہ چلی کہ یہ سائیکل والا طالب علم تحریک پاکستان کے صف اول کے ہردل عزیز رہنما اور مرکزی وزیر داخلہ سردارعبدالرب نشترکا بیٹا ہے۔ نصر اللہ خاں لکھتے ہیں کہ بعد کو یہی سائیکل والا طالب علم پاکستان بینکنگ کونسل کا چیئرمین بنا اور اس کا نام تھا جمیل نشتر۔
غریب طالب علموں کے ساتھ پڑھ لکھ کرگورنمنٹ اسکول کے ماحول میں پروان چڑھ کر ایک مرکزی وزیر اور اتنے بڑے رہنما کا بیٹا اتنے بڑے عہدے پر فائز ہوا۔ ذرا اس بات کا موازنہ اپنے آج سے کریں اور سوچیں کہ تعلیمی میدان میں ہمیں کہاں پہنچنا تھا اور ہم کدھر نکل گئے۔
اسی گورنمنٹ بوائزسیکنڈری اسکول سے کئی اور بھی بڑے طالب علم پڑھ کر نکلے۔ دہلی کے بہت بڑے ادبی خاندان کے جسٹس حاذق الخیری نے بھی اسی اسکول سے تعلیم حاصل کی اور اعلیٰ عدالتی منصب تک پہنچے۔ اسی اسکول سے معروف شاعر پیرزادہ قاسم نے بھی پڑھا اورکراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے،آج کل ضیا الدین یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں۔
نصر اللہ خاں نے اپنے اسکول کے ایک اور طالب علم کا بھی ذکر کیا ہے۔ یہ طالب علم بہت غریب گھر کا بچہ تھا۔ ماں باپ کی انتہائی خواہش تھی کہ ان کا بچہ میٹرک پاس کرلے اور اپنے بڑے بھائی کی طرح سرکاری دفتر میں کلرک بھرتی ہوجائے، مگر غریب ماں باپ کے اس بچے کا پڑھنے لکھنے میں بالکل جی نہیں لگتا تھا۔ نصر اللہ خاں لکھتے ہیں کہ یہ لڑکا بہت ذہین تھا اور اسکول کے طلبا کے ساتھ ساتھ اساتذہ میں بھی مقبول تھا۔ درسی کتب سے کہیں زیادہ اسے شاعری سے دلچسپی تھی۔ گریبان کھلا ہوا، سر کے گھنے بال کاندھوں پر جھولتے ہوئے۔اس طالب علم نے اپنا تخلص مست رکھا ہوا تھا۔ اس زمانے کے استاد بھی اپنے شاگردوں کے لیے بہت زیادہ ہی کوشش کرتے تھے کہ شاگرد بھٹک نہ جائے۔ لہٰذا نصر اللہ خاں مست کو اپنے گھر لے گئے تاکہ اسے مزید توجہ سے پڑھا سکیں مگر مست نے نہ پڑھنا تھا اور نہ وہ پڑھا۔ بلکہ ہوا یوں کہ ایک رات دو بجے مست نے اپنے استاد نصر اللہ خاں کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ نصر اللہ خاں نیند سے بیدار ہوئے اور اندر سے ہی پوچھا ''مست! کیا بات ہے؟'' مست نے جواب دیا۔ ''حضور! غزل ہوگئی ہے سن لیں۔'' نصراللہ خاں بولے ''مست! صبح سن لیں گے، ابھی سو جاؤ۔'' مگر مست بضد تھا اور بولا ''حضور! ابھی سن لیں۔'' خیر نصر اللہ خاں اور ان کی بیگم اٹھے، مست کی غزل سنی۔ مست تو اپنا بوجھ ہلکا کرکے گہری نیند سو گیا، مگر نصر اللہ خاں اور ان کی بیگم کو مست کی غزل اور سحر انگیز ترنم نے بقیہ رات سونے نہیں دیا۔ نصر اللہ خاں کے اسکول کا یہ مست تھا۔ جسے زمانہ حبیب جالب کے نام سے جانتا ہے۔
ہمارے ملک کے بڑے چھوٹے شہروں اورگاؤں گوٹھوں میں خستہ حال اسکول آج بھی کسی مرکزی وزیر داخلہ سردارعبدالرب نشتر کی راہ دیکھ رہے ہیں کہ جو اپنے بچے کو داخل کرانے آئے اور ان اسکولوں کی ہر طرح کی خستہ حالی کا خاتمہ ہو۔ دردمند دل رکھنے والے اپنے خستہ حال اسکولوں کی دیکھ بھال کی ذمے داری اٹھالیں، تو یہ بہت بڑا کام ہوگا۔ ہمارے شہروں میں ایسے لوگ ہیں جو یہ کام کر رہے ہیں۔ اس کام کے لیے مزید بہت کچھ کرنے کی گنجائش ہے۔