نیٹو سپلائی کی بحالی عقلمندی کا تقاضا……بابر ایاز

بلوچ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے زیادہ مخالف ہیں اور گر آزادی نہیں تو...


Babar Ayaz July 17, 2012
[email protected]

KARACHI: حکومت کے کسی عمل یا پالیسی کو جس بنیادی آزمائش پر پورا اترنا چاہیے وہ بہت سادہ سی ہے یعنی اس کے ہر عمل اور پالیسی کا نتیجہ ملک کے لاکھوں عوام کے مفاد میں ہونا چاہیے۔ یہ وسیع آزمائش عالمگیر ہے اور عوام کا ساتھ دینے والے صحافی اور سیاستدان اسی پیمانے کو استعمال کرتے ہیں۔ بد قسمتی سے پاکستان میں اس کا اطلاق بہت کم ہوتا ہے۔

اب ہم تاخیر کا شکار ہو جانے والی حکومت (اسے اسٹیبلشمنٹ پڑھیے) کی جانب سے پاکستان سے NATO/ISAF فوجوں کے سپلائی روٹ کو دوبارہ کھولنے کے فیصلے کی اسی پیمانے پر آزمائش کرتے ہیں۔ جیسا کہ امید تھی، ریٹنگ کے لیے بے چین میڈیا اور دائیں بازو کے سیاستدانوں کی جانب سے اس فیصلے پر شور مچایا جارہا ہے۔ پہلے یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ ہم پاکستان کے عوام کے لیے کیا نتیجہ چاہتے ہیں۔ ان کی انا کی تسکین یا معاشی طور پر عوام کو کوئی فائدہ پہنچانا؟ اعلیٰ قومی اقدار اور ملکی افتخارکا پرچار کرنے والے قومی خود مختاری، سلالہ چیک پوسٹ کے شہیدوں کے خون، پاکستان کو سستے داموں بیچ دینے اور ڈرون حملوں پر پابندی کی بات کرتے ہیں۔

جو حقیقت میں فیصلہ کرنے والے ہیں ان کے سامنے بہت مختلف حقائق ہیں۔ (1) پاکستان دنیا کے مضبوط ترین 48 ملکوں سے، جنھوں نے نیٹو/ ایساف اتحاد بنا رکھا ہے، مکمل طور پر الگ ہوجانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔کیوں؟ اس لیے کہ پاکستان کی لگ بھگ 42 فیصد برآمدات انہی ملکوں کو فروخت کی جاتی ہیں۔ (2) زیادہ تر غیر ملکی امداد اور سرمایہ کاری انہی ملکوں سے آتی ہے۔ (3) پاکستان کی فضائیہ، بحریہ اور بری فوج ہتھیاروں اور دیگر فاضل پرزوں کے لیے بُری طرح سے امریکا اور دوسرے مغربی ملکوں پر انحصار کرتی ہیں۔ (4) یہ ملک اتنے طاقتور ہیں کہ افغان طالبان بشمول حقانی گروپ، لشکرِطیبہ اور القاعدہ کی دوسری تنظیموں جیسے دہشت گرد گروپوں کو پناہ دینے پر پاکستان کے خلاف بد ترین قسم کی پابندیاں عائد کر سکیں۔ (5) جیسے جیسے پاکستان امریکا کے اتحادیوں سے دور ہوتا ہے یا ان کے ساتھ اشتعال انگیز رویہ اختیار کرتا ہے اسی ترتیب سے ان پر بھارتی دبائو میں اضافہ ہوتا ہے۔ (6) امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ تعطل پاکستان کو مسئلہ افغانستان کے حل کی میز سے دور کر رہا تھا، اور سب سے اہم بات یہ احساس کرنا ہے کہ اگر مغربی ممالک اور بھارت آپس میں مل جاتے ہیں تو ایک بھی گولی چلائے بغیر پاکستان کو اقتصادی لحاظ سے شکست دی جاسکتی ہے۔ اس سب کچھ کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ پراڈو اور ڈبل کیبن گاڑیوں میں گھومنے والے ملائوں پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا جو اعلیٰ قوم پرستانہ سوچ کا پرچارکرتے ہیں، صرف غریب آدمی بُری طرح سے متاثر ہوگا۔

اپوزیشن اور ٹاک شوز میں بیٹھنا واقعی بہت آسان ہے، جہاں کسی ایک سوال پر بھی تفصیل سے بحث نہیں ہو سکتی، صرف قومی افتخار اور خودمختاری کا دکھاوا ہوتا ہے۔ بعض سیاستدان ایران اور ترکی کی مثال دیتے ہیںکہ یہ دونوں ملک بھی تو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے دبائو کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ایران کے پاس تیل اور گیس کے ڈالر ہیں جو وہ اقتصادی پابندیوں کے باوجود کما رہا ہے۔ وہ بھارت، چین، بعض یورپی ملکوں اور افریقہ کو تیل سپلائی کرنے والا ایک بڑا ملک ہے۔ اس آمدنی سے اسے داخلی طور پر قیمتوں کو کم رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ مگر چونکہ اس کے ساتھ ہی یہ پیسہ کرایہ وصول کرنے والے طبقوں کے ہاتھ میں مرتکز ہورہا ہے اس لیے غربت بڑھ رہی ہے۔ وہ پاکستان اور افغانستان جیسے اپنے تمام پڑوسی ملکوں کو تیل اسمگل کررہا ہے اور ایک سابق پاکستانی سفارت کار کے مطابق یہ تیل امریکی فوج بھی استعمال کرتی ہے۔

اب ترکی کی طرف دیکھتے ہیں۔ یہ بات بڑی آسانی سے فراموش کردی جاتی ہے کہ اگرچہ ترکی نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ وہ اپنے پڑوسی ملک عراق پر فوج کشی کی حمایت نہیں کرے گا مگر اس نے سنی انتہا پسندوں کو پناہ اور ہتھیار نہیں دیے تھے جو امریکی فوج کی مزاحمت کر رہے تھے۔ اس نے اپنی خارجہ پالیسی کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے پاکستان کی طرح اپنے پڑوسیوں کے خلاف مسلح جہادی گروپوں کو آلہ کار کے طور پر استعمال نہیں کیا۔ اس کی معیشت بہت مضبوط ہے اور وہ یورپ ہی کا حصہ ہے۔

اس کی یہ بھی خوش قسمتی ہے کہ وہ خلفشار کے شکار افغانستان کا ہمسایہ نہیں ہے۔ ایک اسلامی جماعت کے پاس اقتدار ہونے کے باوجود ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔ اور ایک اہم نکتہ جسے جوش خطابت میںایڑھی چوٹی کا زور لگانے والے بھول جاتے ہیں یہ ہے کہ ترکی نیٹو فوجوں کا حصہ ہے جو افغانستان میں امریکا کے شانہ بشانہ لڑ رہا ہے اور پاکستان کی طرح طالبان کی در پردہ حمایت نہیں کر رہا۔

اب اس مفروضے کی طرف آئیے کہ پاکستان کے عوام نیٹو کی سپلائی لائن کھولنے کے مخالف اور امریکا دشمن ہیں۔ امریکی ایجنسیوں نے رائے عامہ کے جو جائزے لیے ہیں انھیں درست قبول نہیں کیا جاسکتا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ان کا حجم بہت مختصر ہے اور یہ پتہ نہیں چلتا کہ لوگ کیا سوچتے ہیں۔ زیادہ عمل دخل اس بات کا ہوتا ہے کہ سوال کس طرح تیار کیا جاتا ہے اور وہ مطلوبہ جواب کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔ مزید آگے بڑھنے اور آپ کے سامنے پورے پاکستان کا جائزہ پیش کرنے سے قبل یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ میں اس طرح سے بات نہیں کرنا چاہتا جس طرح امریکی عوام کرتے ہیں، مگر لوگ معمول کے تعلقات چاہتے ہیں اور امریکا کے ساتھ کشیدہ مراسم کے خواہاں نہیں ہیں۔

وہ جھوٹی حمیت اور فخر کے نتیجے میں اقتصادی مشکلات میں مبتلا نہیں ہونا چاہتے۔ پاکستان کے 18 کروڑ عوام کی نام نہاد رائے عامہ کے بارے میں فیصلہ کن انداز میں بیانات سن کر جی متلانے لگتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی رائے عامہ میں کبھی بھی یکسانیت نہیں رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا ملک ہے اور اس معاشرے کے کئی ڈھانچے ہیں۔ ذرا تجزیہ کیجیے کہ پاکستان میں رہنے والے لوگ کس طرح مختلف انداز میںسوچتے ہیں۔ بلوچستان میں رہنے والی بلوچ اور پشتون دونوں قومیں امریکا دشمن نہیں ہیں جیسا کہ ہمیں بتایا جاتا ہے۔

بلوچ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے زیادہ مخالف ہیں اور گر آزادی نہیں تو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے امریکی مدد چاہتے ہیں۔ بلوچستان کے پختون جن میں سے اکثریت کی قیادت محمود خان اچکزئی کرتے ہیں اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستانی ایجنسیوں کو افغان طالبان کی حمایت بند کر دینی چاہیے تاکہ علاقے میں امن بحال ہو سکے۔ سندھ کی طرف چلیے۔ سندھیوں کی اکثریت پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتی ہے جو امریکا مخالف جماعت نہیں ہے اور یہاں کے قوم پرست بھی سندھ کی آزادی کے لیے امریکی مدد چاہتے ہیں۔ اس صوبے کے اردو بولنے والے سندھی ایم کیو ایم کو ووٹ دیتے ہیں جو ایک سیکولر مغرب نواز سیاسی پارٹی ہے۔ کراچی کے کاروباری افراد اس کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ شمال کی جانب سرائیکی پٹی کے عوام خارجہ پالیسی کے اس قسم کے معاملات پر نرم خو اور لچکدار رویہ رکھتے ہیں۔

ان کی اکثریت پیپلزپارٹی کو ووٹ دیتی ہے۔ البتہ بعض سرائیکی علاقوں میں مضبوط اسلامی عسکریت پسندوں کا سلسلہ موجود ہے جو درحقیقت بُری طرح سے تحریک طالبان اور القاعدہ سے جڑا ہوا ہے۔ یہ لوگ اس لیے طاقت ور ہیں کہ ان کے پاس بندوقیں اور تربیت یافتہ جنگجو ہیں مگر ان کی تعداد عوامی سوچ کی نمائندگی نہیں کرتی۔ اصل امریکا مخالف جذبات وسطی اور شمالی پنجاب میں ہیں، وہ بھی متوسط اور نچلے متوسط طبقات میں پائے جاتے ہیں جو مذہبی جماعتوں اور میڈیا کی طرف سے پھیلائے جانے والے حب الوطنی کے جنون اور پروپیگنڈے سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔ وسطی پنجاب میں بھی ایسے کاروباری افراد کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جنھیں معلوم ہے کہ ان کی روزی کس طرف ہے۔ ان نسلی اور سیاسی حقائق کے پیش نظرمیڈیا کو فیصلہ کن بیانات دینے میں محتاط رہنا چاہیے اور رائے عامہ کے جائزوں پر باریک بینی سے غور کرنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں