دہشت گردوں کی جیل
خودکش دھماکے کرتے ہیں اور پڑھے لکھے لوگ جیسے ’’صفورا گوٹھ‘‘ واقعے کا ماسٹر مائنڈ نوجوان تعلیم یافتہ ہے
UMERKOT:
میں نے اپنے متعدد مضامین اسی موضوع پر تحریر کیے کہ صرف افواج پاکستان اور اس کے ادارے دہشت گردوں کی بیخ کنی کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ بلکہ میرے ایک کالم کا عنوان ہی ''20 کروڑ سپاہی'' تھا۔ کیونکہ ملک کی آبادی 20 کروڑ ہے اور بے شمار ایسے عوامی مقامات ہیں جن کی حفاظت کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سپاہ ناکافی ہے جب کہ ہمارا حفاظتی نظام جس کا ایک بڑا حصہ پولیس پر مشتمل ہے۔
اس حوالے سے ناقص مانا جائے گا کہ اگر انڈین خفیہ ایجنسیز بالخصوص ''را'' دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے، تب ضروری ہے کہ عوام کی صفوں میں ایسے نوجوان لڑکے، لڑکیوں کی عسکری تربیت کی جائے جو دفاع وطن پر جان کا نذرانہ پیش کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جوان جو نامساعد حالات کے باعث پاک فوج کا حصہ نہیں بن سکے۔
لیکن ان کا جذبہ قابل قدر ہے۔ وہ وطن کی آن پر مٹ جانا چاہتے ہیں۔ شہادت جن کی زندگی کا نصب العین ہے اور اگر آپ جائزہ لیں تو پاکستان سمیت دنیا بھر میں اسلام کے نام پر مسلمانوں کو دھوکا دینے والے یہ نام نہاد گروہ جو کہیں ''داعش'' کہیں ''القاعدہ'' اور کہیں المعروف ''طالبان'' کے نام سے بدترین دہشت گردی میں ملوث ہیں ان کی اس جعلسازی کا طریقہ کار کیا ہے۔ وہ دراصل معصوم اور بھولے بھالے لیکن راسخ العقیدہ نوجوانوں کو شہادت ہی کا مژدہ سناتے ہیں۔ کہ ''یہاں آپ کی آنکھ بند ہوئی اور وہاں جنت میں کھل گئی۔''
افسوسناک حقیقت یا حیرت ہے کہ لوگ ان کی باتوں میں آ جاتے ہیں۔ خودکش دھماکے کرتے ہیں اور پڑھے لکھے لوگ جیسے ''صفورا گوٹھ'' واقعے کا ماسٹر مائنڈ نوجوان تعلیم یافتہ ہے۔ حتیٰ کہ جدید تعلیم سے آراستہ۔ آخر کیا ہے اس تعلیم کے عقب میں۔ کچھ تو ہے جسے جاننا ہے۔ جس سے واقف ہونا ہو گا۔ کیونکہ ہم شکار ہیں۔ ایک ایسی بربریت کا جو دین کا مفہوم یکسر بدل کر کی جا رہی ہے۔ جس کے اغراض و مقاصد قطعاً ذاتی ہیں۔ وہ Puppets جن کی ڈوریں تک مشرکین کے ہاتھوں میں ہیں۔
تب میرے مشورے پر غور ضروری ہے۔ شاید بہت ضروری۔ آپ کو 20 کروڑ سپاہی تیار کرنے ہوں گے۔ جس کے لیے آپ ہر ضلع میں اپنا ایک تربیتی کیمپ قائم کریں۔ وہاں دو طرح کے ذمے داراں ہوں۔ ایک گروپ جو ضلع کے ایسے افراد کی جزوی عسکری تربیت کرے جو دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کا حصہ بننا چاہتے ہوں۔ دوسرا گروپ عام لوگوں کو ایسی تعلیم دے جس کے ذریعے وہ جان سکیں کہ ان کے علاقے کیکسی جگہ کو اگر کچھ دہشت گرد بطور کرائے دار یا پناہ استعمال کر رہے ہیں تو وہ فوراً علاقہ پولیس یا خفیہ ایجنسی کو ان کی موجودگی کی اطلاع دیں۔
اس طریقہ کار کے مطابق کئی ایسے فوائد کے حصول کا بھی امکان ہے جن پر اس وقت بات کرنا شاید قبل از وقت ہو۔ لیکن ثانیاً یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ آپ کے اور عوام کے درمیان اعتماد اور محبت کا ایک اٹوٹ رشتہ قائم ہو جائے گا اور کسی ممکنہ بیرونی جنگ کے نتیجے میں آپ کے پاس بڑی تعداد میں عوامی رضا کار ہوں گے۔ جو بلاشبہ کسی بھی فوج کا بہترین اثاثہ قرار دیے جا سکتے ہیں۔ میں اس موقعے پر جب کہ ''بڈھ پیر'' جیسا اندوہناک سانحہ رونما ہو چکا جس میں کیپٹن اسفند یار جیسے ہونہار آفیسر نے جام شہادت نوش کیا۔ یہ بھی کہنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ ''آپریشن ضرب عضب'' بلاشبہ کامیاب ہے۔ لیکن اس کے درجات کا اعلان ضروری نہیں۔ مثلاً یہ دعویٰ کہ وہ آخری مرحلے میں داخل ہو گیا۔
یا آپ نے کسی علاقے کو دہشت گردوں سے مکمل پاک کر لیا۔ غیر ضروری ہے۔ اگرچہ یہ اعلانات اہل علاقہ کے لیے باعث اطمینان و اعتماد ہوں گے۔ لیکن ان کے اظہار سے یہ تاثر بھی ابھرتا ہے کہ آپریشن ختم ہونے جا رہا ہے۔ دنیا کی ترقی یافتہ اقوام اور ممالک میں ہتھیار یہ کہہ کر نہیں رکھ دیے جاتے کہ جرم ختم ہوا۔ مجرم بھی فرار ہو گئے یا مارے گئے۔ لہٰذا اب قانون نافذ کرنے والے ادارے حالت آرام میں ہیں۔ عزیزان گرامی! جہاں انسان بستا ہے۔ کرہ ارض پر جہاں خطہ انسانی ہے۔
وہاں جرم ہو گا۔ کیونکہ یہی سرشت انسانی ہے۔ بقول ''ٹالسٹائی'' (انسان خیر و شر کے درمیان گھڑی کے پنڈولم کی طرح ڈولتا رہتا ہے۔) البتہ جرم کی شکل بدل سکتی ہے۔ مجرم کے طریقہ کار میں تبدیلی ممکن ہے۔ لیکن جرم نہ ہو! یہ تو دین کی تعلیم بھی نہیں۔ ورنہ جہنم کا وجود کیوں؟ جنت ہی کافی کیوں نہیں۔ لہٰذا ہمیں معاملے کو کئی ایک پہلوؤں سے دیکھنا ہو گا۔ یہ صرف طالبان نہیں۔ ان کے عقب میں کون کون اور ہیں۔ آپ اب خوب جان گئے ہیں۔ خطے میں ڈوبتے ہوئے پاکستان پر انڈیا سمیت دنیا بھر میں اطمینان تھا۔ لیکن ابھرتے ہوئے پاکستان پر جو بے چینی پڑوس میں پائی جاتی ہے وہ تو روز مرہ کی سرحدی خلاف ورزیوں سے صاف ظاہر ہے۔
ان حالات میں کسی بھی آپریشن کو ہم جزوی کامیاب قرار دے سکتے ہیں۔ اگرچہ وہ مکمل دیانتداری، فرض شناسی، حب الوطنی سے کیا جا رہا ہے۔ اور اس میں افواج پاکستان کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔ گزارش یہ ہے کہ مکمل کامیابی تبھی ممکن ہے جب آپ پوری قوم کو اس میں شامل کریں۔ ان پر بھروسہ کریں۔ بالخصوص دینی مدارس کے جن مہتمم حضرات کو آپ نے Meeting میں بلا کر ان کا ضابطہ اخلاق اور رجسٹریشن کا طریقہ کار مرتب کیا ہے انھیں اس امر کا پابند بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے ، اگر سختی بھی کرنی پڑے تو دریغ نہ کریں۔
محض یہ مان کر مطمئن ہو جانا کہ دہشت گرد ان کے مہمان نہیں کافی نہ ہو گا۔ ہم ایسی کسی درس گاہ کو فراموش نہیں کر سکتے جہاں قرآن کریم کی تعلیم کے بجائے کوئی اور تعلیم دی جا رہی ہو۔ میں ملک بھر کے علمائے کرام، مفتیان گرامی اور بزرگان دین سے بھی ملتمس ہوں کہ خدارا نبی کریمؐ کی امت کو فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ جب ہم ایک اللہ کے ماننے والے اور ایک نبیؐ کے پیرو کار ہیں، ایک کتاب کی شریعت پر عمل پیرا ہیں تو یہ پھر فرقہ بندی کیوں؟ میں آپ سے سوال کرتا ہوں کیا اسلام کی تبلیغ کرتے ہوئے آپؐ نے خاص رنگ اور خاص وضع قطع کے لباس زیب تن کیے تھے؟ یا آپؐ کی عبادات کا طریقہ کار بدلتا رہتا تھا؟ آپ حضرات مجھے کم علم یا جاہل ہونے کا لقب دے سکتے ہیں۔ لیکن میری التجا اپنی ذات کے لیے نہیں۔ بلکہ مسلمانان عالم کے لیے ہے۔
دیکھیے یہ تو بہت واضح ہے کہ آج جو دہشت گرد خود کو بہترین مسلمان کہتے ہیں۔ اور جو باریش ہیں غالباً غازی بھی۔ وہ کسی نہ کسی ادارے سے تو ضرور فارغ التحصیل ہیں۔ ان کا کوئی معلم بھی ضرور رہا ہو گا۔ انھوں نے ہتھیار اٹھا لیے اور اب وہ اپنے فرقے و عقیدے کے مطابق قتل عام کر رہے ہیں ۔ عزیزان گرامی! ہم لاکھ اس حقیقت سے انکار کریں لیکن کہیں نہ کہیں ہم یہ لشکر تیار کرنے میں جو آج دشمنان دین کے آلہ کار ہیں۔ شریک ہیں۔
جب ہم اپنی مجالس میں، درس گاہوں میں ایک مسلمان کو کافر قرار دیتے ہیں تو ہمارا بچہ سنتا ہے اور پھر سنتا رہتا ہے۔ آخر کار بالغ ہوتے ہوتے وہ اسے کافر ماننے میں راسخ ہو جاتا ہے۔ میرے نزدیک یہ راستہ جہنم کا بالکل سیدھا راستہ ہے۔ لہٰذا میں افواج پاکستان سے، حکومت وقت سے اور علمائے کرام سے گزارش کرتا ہوں کہ دہشت گردوں کی گرفت ضروری ہے لیکن اتنا ہی ضروری ہے دہشت گردی کی جڑ تک پہنچنا۔ اس کی نرسری کہاں ہے؟ ان مکڑیوں کے جالے کہاں ہیں؟ Spray کی ضرورت ہے۔