اب تو مرغ کی قربانی کا فتویٰ آنا چائیے

مہنگائی اور قوتِ خرید نہ ہونے کی وجہ سے فتویٰ آجانا چائیے کہ مرغ کی قربانی جائز ہے۔


رضاالحق صدیقی September 25, 2015
جہاں دیگر چیزوں کی قیمتیں بڑھیں ہیں، وہیں مذہبی فریضوں کی ادائیگی بھی مشکل تر ہوگئی ہے۔

ہمارا ڈرائیور حیات بہت بڑا فلاسفر اور باخبر انسان ہے۔ رپورٹنگ حق سچ کے ساتھ اس پر ختم ہے۔ اپنے گاؤں جانے سے پہلے کہنے لگا سر جی قربانی کرنی ہے نا آپ نے؟ میں نے کہا کرنی تو ہے۔ چلیں پھر آئیں چل کر جانور خرید لیں میں نےعید کرنے کل پنڈ جانا ہے، میں نے کہا چلتے ہیں دم تو لو اور مجھے بھی دم لینے دو۔ اچھا جی کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔

میں گھر میں داخل ہوا تو بیگم صاحبہ سامان کی لسٹ بنا کر بیٹھی ہوئی تھیں کہنے لگیں، چلیں یہ سامان لے آتے ہیں ورنہ اور مہنگائی ہو جائے گی۔ ہم الٹے پاؤں بیگم کے ساتھ ہولئے۔ حیات سے کہا کہ گاڑی نکالو، اتنے میں مرغ کی بلند بانگ آواز سنائی دی۔ ہمیں بڑی حیرت ہوئی کیونکہ ہمیں معلوم تھا کہ اردگرد کسی بھی گھر میں مرغیاں نہیں پالی ہوئیں۔ یہ مرغ اور وہ بھی اتنی تیز آواز والا کہاں سے آگیا؟ میں نے حیات کی طرف دیکھا اور کہا کہ حیات ہمارے علاقے میں مرغ کہاں سے آ گیا، اور وہ بھی اتنی بلند آواز والا؟ حیات پہلے تو ہنسا پھر سنجیدہ ہوکر کہنے لگا کہ سر جی ہمارے پچھلی طرف جو گلی ہے نا اس کے دوسرے مکان میں جو نئے کرائے دار آئے ہیں، خاصے کھاتے پیتے ہیں، لیکن وہ لائے ہیں قربانی کے لئے اعلیٰ نسل کے مرغ۔ ان کا ڈرائیور بتا رہا تھا کہ اُس کے صاحب کہتے ہیں کہ قربانی تو میں ہمیشہ سے کرتا آیا ہوں، اس بار بھی کروں گا، بڑے جانور قوتِ خرید سے باہر ہوگئے ہیں تو کیا ہوا، مرغ کی قربانی تو کر ہی سکتے ہیں نا۔ پورے 7 مرغ لائے ہیں قربانی کے لئے۔

یہ سنتے ہی میں ہنس پڑا اور حیات سے کہا، مذاق نہ کر، وہ کہنے لگا سر جی میرا آپ کا کوئی مذاق ہے جو میں آپ سے مذاق کروں کا۔ وہ جو صاحب ہیں نا جن کی میں آپ کو بات بتا رہا ہوں وہی مرغوں والے، ان کا ڈرائیور بتا رہا تھا کہ صاحب کہتے ہیں جب سے ہم نے آئی ایم ایف سے قرض لیا ہے، ہر چیز کو آگ لگ گئی ہے، اب چار ٹانگوں والے جانور کی قربانی تو ہمارے بس میں نہیں، دو ٹانگوں والے جانور کی ہی قربانی کرنی پڑے گی۔ میں نے کہا حیات لگتا تو یہی ہے کہ آئی ایم ایف اور دوسرے بیرونی ادارے یہی چاہتے ہیں کہ مسلمان اپنے ایمان کے بل پر لڑتا ہے۔ اس لئے اسے اس قابل نہ چھوڑو کہ یہ اپنے ایمان کی مضبوطی کو آزما سکے۔ سر جی اس سال تو آپ کو ایک گھر سے مرغ کی آذان سنائی دی ہے، تھوڑا سا وقت اور گذرنے دیں ہر گھر سے عیدِ قرباں پر مرغ کی آذان سنائی دیا کرے گی۔ خیر ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے۔ اگر وہ صاحب، کیا نام بتایا تم نے؟ میں نے حیات سے پوچھا، وہ سر جی میں نے آپ کو نام تو بتایا ہی نہیں کہ مجھے خود بھی پتہ نہیں، سب چوہدری صاحب کہتے ہیں انہیں، چلو ٹھیک ہے جو بھی نام ہے ان کا، اگر وہ سنکی ہوگئے ہیں تو اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے نا کہ ملکی حالات اتنے خراب ہوگئے ہیں کہ سال میں ایک بار ادا کیا جانے والا مذہبی فریضہ بھی ہم ادا نہ کر سکیں، میں نے جواباََ حیات سے کہا۔

حیات کہاں چپ رہنے والا تھا کہنے لگا یہ بات تو آپ بیگم صاحبہ سے پوچھیں جو میرے ساتھ جا کر سودا خریدتی ہیں کہ آج کل کس بھاؤ بک رہی ہیں اشیا، سر جی اس قرضے کی وجہ سے بجلی مہنگی ہوئی، تیل مہنگا ہوا، سپریم کورٹ نے بجلی کی بڑھی ہوئی قیمتیں واپس کرائیں تو حکومت نے ٹیکس بڑھا دیا جس سے ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی۔ حکومت نے نیپرا سے کہہ کر بجلی پھر اتنی ہی مہنگی کروا دی جتنی خود مہنگی کی تھی، اوپر سے جو ٹیکس لگایا تھا وہ بھی رہ گیا یعنی نماز بخشوانے گئے تھے روزے بھی گلے پڑ گئے۔

بڑی فلسفہ بگھار رہے ہو حیات، کہاں سے سیکھتے ہو یہ سب باتیں، اوہ سرجی کہاں سے سیکھنی ہیں،غریب آدمی ہوں، کپڑے میلے بھی ہوں گے تو ڈیوٹی پر آجاتا ہوں کون سا کسی نے کچھ کہنا ہے، مسئلہ تو آپ لوگوں کا ہے جنہوں نے شوشا بھی رکھنی ہے، گھربار بھی چلانا ہے، پھر ککڑ ہی خریدو گے نا قربانی کے لئے۔ نہیں بھئی سارا سال بچاتے ہیں اس فریضے کے لئے، آئندہ تھوڑا اور بچا لیا کریں گے۔ پتا تو تم لوگوں کو چلے گا جب روٹی کی قیمت اور بڑھ جائے گی، اب آٹھ کی ہے، پھردس کی ہوجائے گی، محنت کرتے ہو تم لوگ اس لئے چار پانچ روٹیاں کھا جاتے ہو ایک وقت میں اوپر سے دال سبزی کی پلیٹ بھی 70 روپے سے 100 روپے کی ہوجائے گی، کس طرح پورا کرو گے؟ چلو سر جی اس وقت سوچیں گے، اتنے میں ہم مارکیٹ پہنچ گئے۔

ہم نے بیگم کے ساتھ خریداری کی تو آٹے دال کا بھاؤ کا پتہ لگ گیا اور میں چپ چپ سا واپس آگیا۔ حیات واقعی درست کہہ رہا تھا، قیمتیں واقعی آسمان کو چھونے لگی ہیں۔ حیات کی باتوں کے ساتھ اب مجھے کام والیوں کی باتیں یاد آنے لگیں جو ہماری بیگم کی طرف سے لفافے بھر بھر کر گوشت دینے پر دعائیں دیا کرتی ہیں اور اپنی عادت کے مطابق بہت سے لوگوں کے بھید بھی کھول دیتی ہیں کہ، صاحب جی اناں نے پنج بکرے کیتے سی پر سانوں دیتیاں دو دو بوٹیاں تے باقی اپنے فرج بھر لئے۔

ہم اکثر سوچتے ہیں حیات ہو یا کام والیاں، انہیں بھی پتہ ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضے کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور قربانی کی روح کیا ہے، یہ جو کام والیوں نے دو دو بوٹیاں دینے کی بات کی اور پھر فرج بھرنے کی بات کی وہ واقعی سوچنے کی بات ہے، قربانی کی روح فرج بھرنا نہیں، اللہ تک یہ گوشت اور بکھرا ہوا خون نہیں پہنچتا، اس تک پہنچتا ہے وہ ایمانی جذبہ، وہ نیت جو آپ کے دل میں ہے، اگر آپ نے فرج بھرلئے تو قربانی تو آپ نے دکھاوے کے لیے کی، قربانی کو سنتِ ابراہیمی بنانے کا مقصد ایسے افراد تک اس موقع پر گوشت پہنچانا ہے جو سارا سال گوشت کھانے کو ترستے ہیں۔

آج عیدِ قرباں ہے، سنتِ ابراہیمی کے تقلید کا دن، مسلمان اپنے مذہبی فریضوں کی ادائیگی کے لئے سارا سال رقم بچاتا ہے، ہم نے آئی ایم ایف سے قرضے پر قرضہ لے کر جہاں دیگر چیزوں کی قیمتیں بڑھائی ہیں وہیں مذہبی فریضوں کی ادائیگی بھی مشکل تر کر دی ہے، حج مہنگا ترین ہوچکا ہے، اب عیدِ قرباں پر جانور کو ہاتھ نہیں لگتا، حیات جن چوہدری صاحب کی بات کر رہا تھا لگتا ہے ان کی مرغوں کی قربانی والی بات ٹھیک ہوتی نظر آ رہی ہے اب یہ فتویٰ آجانا چائیے کہ مرغ کی قربانی جائز ہے۔

[poll id="675"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔