ویل ڈن
ایک بات طے ہے کہ ہم اگر پسماندہ نہیں تو ایک ایسا ترقی پذیر معاشرہ ضرور ہیں جس نے ابھی اجتماعی ترقی کے بہت سے آداب۔۔۔
میں عام طور پر سیاست اور سیاستدانوں کے بارے میں ''براہ راست'' لکھنے سے گریز کرتا ہوں کہ بدقسمتی سے ہمارے یہاں کسی سیاسی عمل یا سیاستدان کے کسی فعل کے حق یا خلاف لکھنے کو لکھنے والے کی ذاتی اور بے لاگ رائے کے بجائے کسی نہ کسی ''مقصد یا مفاد'' کا تابع سمجھا جاتا ہے۔
(یہ تاثر مکمل طور پر غلط اور بے جواز بھی نہیں کہ ہمارے کئی کالم نگار ساتھیوں نے دانستہ یا نا دانستہ طور پر اس خیال کی واشگاف انداز میں آبیاری بھی کی ہے) لیکن میں ''خوشامد'' اور ''چمچہ گیری'' کے متوقع الزامات کو ذہن میں رکھنے کے باوجود وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کے اس اقدام کی کھل کر تعریف کرنا چاہتا ہوں کہ انھوں نے ''قانون''، ''انصاف'' اور ''عدلیہ'' کی برتری اور ان کے احکامات کی پابندی کا (بیشتر سیاستدانوں کی طرح) صرف زبانی ہی اعلان نہیں کیا بلکہ عملی طور پر اپنے داماد کو قانون کی تحویل میں دینے کے انقلابی اور قابل تعریف و فخر اقدام سے ایک ایسی روشن مثال قائم کی ہے جس پر ان کو جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ میں ان کے مخالف سیاسی گروپوں کی طرف سے جاری ہونے والے ان بیانات کی بھی کھل کر مذمت کرنا چاہتا ہوں جن میں ان کے اس احسن، دلیرانہ اور قابل تقلید کام کو سستی شہرت حاصل کرنے کے ہتھکنڈے، سیاسی دائو پیچ یا مداری پن سے تعبیر کیا جا رہا ہے تمام مہذب معاشروں میں مخالفت، اختلاف اور تنقید کے کچھ ایسے آداب ہوا کرتے ہیں جن کی پابندی بلا تخصیص معاشرے کے ہر فرد اور گروہ پر لازمی ہوتی ہے۔ ہم میں سے بھی بیشتر میاں صاحب کی طرح بیٹیوں والے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ بیٹی کو تکلیف میں دیکھنا کس قدر مشکل اور ناقابل برداشت عمل ہوتا ہے اور وہ باپ یقیناً لائق تعظیم ہے جو انصاف کی حفاظت اور قانون کی برتری کی پاسداری کرتے ہوئے خود اپنے ہاتھوں سے (اس صورت حال سے بچنے کے بے شمار آزمودہ اور تقریباً تسلیم شدہ طریقوں کے ہوتے ہوئے) یہ فیصلہ کرے کہ بے شک اس کی بیٹی کے سہاگ اور اس کے بیٹوں جیسے عزیز داماد کو ہتھکڑیاں لگ جائیں اور اسے جیل میں ڈال دیا جائے، وہ قانون کے مقابلے میں اپنی اور اپنے عہدے کی وہ ناجائز طاقت استعمال نہیں کرے گا جو اب بدقسمتی سے ہمارے حاکم طبقوں کے لیے ایک معمول بن چکی ہے۔
یہاں میں اپنے اس افسوس کا اظہار بھی کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے سیاستدانوں نے (چند ایک کے استثنیٰ کے ساتھ) ابھی تک ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی تہذیب اور قومی مسائل اور عوام کی خدمت کے حوالے سے مل کر رہنا نہیں سیکھا، مثال کے طور پر اگر صوبہ پنجاب میں کہیں بھی کسی بھی منصوبے کے حوالے سے چوہدری پرویز الٰہی کے نام کی تختی لگی ہے تو اسے ہٹانے یا اس منصوبے کو (صرف اس لیے کہ اس کا کریڈٹ ایک سیاسی مخالف کو جائے گا) سرے سے ختم کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ کیا چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے چیف منسٹر نہیں رہے اور ہم سب کی طرح پاکستانی نہیں! سیاسی اختلافات اور ذاتی رنجشیں اپنی جگہ لیکن صوبے کی ترقی اور عوام کی خوشحالی تو دونوں ہی کا فرض اور دعویٰ ہے سو اس میں کس بات کا جھگڑا ہے!
چند برس پیشتر مجھے ایک ادبی تقریب کے حوالے سے حیدر آباد دکن جانے کا موقع ملا تھا۔ میری حیرت اور خوشی کی حد نہ رہی جب میں نے وہاں کے وزیراعلیٰ کی دعوت میں سابق وزیراعلیٰ اور سابق وزیراعلیٰ کی دعوت میں موجود وزیراعلیٰ کو ایک ساتھ مہمانوں کا استقبال کرتے دیکھا اور واضح رہے کہ ان کا تعلق دو مختلف سیاسی پارٹیوں سے تھا، اسی طرح آج کل ہم صدر اوباما اور ان کے صدارتی حریف رومنی کے ایک دوسرے کے بارے میں کہے ہوئے انتہائی سخت جملے بھی سن رہے ہیں مگر الیکشن کا نتیجہ آتے ہی حکومت کے لیے جاری یہ لڑائی ختم ہو جائے گی اور باقی صرف اور صرف ''ریاست کا مفاد'' رہ جائے گا، جس میں وہ دونوں بھی پوری قوم کے ساتھ مل کر اجتماعی بہتری کے راستے تلاش کریں گے۔
ایک بات طے ہے کہ ہم اگر پسماندہ نہیں تو ایک ایسا ترقی پذیر معاشرہ ضرور ہیں جس نے ابھی اجتماعی ترقی کے بہت سے آداب سیکھنے ہیں، سو بجائے ایک دوسرے کی غلطیوں اور کمزوریوں پر طعنہ زنی کرنے کے اگر ہم یہ رویہ اپنا سکیں کہ جو لائسنس اور رعایت ہم اپنی limitations اور غلطیوں کے لیے مانگتے ہیں، وہ دوسروں کو بھی دینا شروع کر دیں تو بلا شبہ ہم بہت جلد ایک مہذب' روادار اور مثبت امنگوں کی طرف رواں دواں معاشرہ بن سکتے ہیں۔ عمران خان مجھے بہت پسند ہیں اور میں ان کے حالیہ بہت سے اقدامات اور ان پر ہونے والی تنقید کے باوجود انھیں مستقبل کی سیاست میں ایک مثبت تبدیلی کے نقیب کے طور پر دیکھتا ہوں لیکن سچی بات ہے کہ مجھے ان کی میاں برادران سے اس قدر براہ راست اور بے لچک دشمنی کی سمجھ نہیں آتی۔
وہ خود مانتے ہیں کہ پاکستانی سیاست کی مخصوص صورتحال کے پیش نظر فوری طور پر سیاست اور سیاست دانوں کو اُن آئیڈیلز کے مطابق ڈھالنا ممکن نہیں جو ترقی یافتہ معاشروں میں رائج ہیں کیونکہ تاریخی اعتبار سے ہم پر بہت سا ''فالتو بوجھ'' لدا ہوا ہے اور اچھی اور مثبت سیاسی فضا کے قیام کے راستے میں کئی ایسے عناصر بھی حائل ہیں جن کی وجہ سے موجودہ سیاستدانوں کی مناسب اور صحیح تربیت نہیں ہو سکی سو ایسے میں اگر وہ یا کوئی اور سارے سیاسی منظر نامے کو ایک آنکھ اور یکساں رعایتی فارمولے سے نہیں دیکھے گا تو ذاتی سطح پر پوائنٹ اسکورنگ تو شاید ہو جائے مگر اجتماعی مسئلہ جوں کا توں ہی رہے گا۔
میرا دل چاہتا ہے کہ ہمارے سیاستدان بھی ایک دوسرے پر تنقید کی حدود کو نہ صرف سمجھ لیں بلکہ ان کی پاسداری بھی کریں اور اسی طرح اپنے اندر یہ حوصلہ بھی پیدا کریں کہ اچھا کام ان کا کوئی سیاسی حریف بھی کرے تو اس کی کھل کر تعریف کر سکیں، مثال کے طور پر میاں شہباز شریف اور چوہدری پرویز الٰہی کے مزاجوں، سیاسی نظریات، پس منظر اور دوستوں میں تو فرق ہو سکتا ہے لیکن جہاں تک میں ان دونوں حضرات کو جانتا ہوں، دونوں ہی پاکستان سے بے حد محبت کرتے ہیں اور اپنی بساط بھر اس کی خدمت بھی کرنا چاہتے ہیں کیا۔
یہ ممکن نہیں کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے کیے ہوئے اچھے کاموں کو سراہیں اور ایک دوسرے کی برائیوں اور غلطیوں کی تشہیر کرنے کے بجائے ان مثبت ا ور عوام دوست مقاصد کو مل کر آگے بڑھائیں جن پر دونوں کی سیاسی پارٹیاں متفق ہیں اور ہر وہ کام جو معاشرے کو اقداری سطح پر بلند اور متحرک کرے، چاہے وہ کسی کی طرف سے بھی کیا جائے، آخری تجزیے میں ایک ایسے خوبصورت مشترکہ عمل میں ڈھل جائے گا جہاں کام آگے نکل جاتا ہے اور نام پیچھے رہ جاتے ہیں۔ خدا ہم سب کو توفیق دے کہ ہم اپنے اپنے اختلافات اور تعصبات سے اوپر اٹھ کر اس معاشرے کی خدمت کر سکیں' سو ایک بار پھر ویل ڈن میاں شہباز شریف۔