انگلی سستی ہے انگوٹھا مہنگا ہے

سارے دانت توڑ دینا اب نقصان دے ہو گا بلکہ عقل مندی اس میں ہو گی کہ وقفے وقفے سے دانت توڑے جائیں۔


انیس منصوری September 14, 2015
[email protected]

لاہور: سارے دانت توڑ دینا اب نقصان دے ہو گا بلکہ عقل مندی اس میں ہو گی کہ وقفے وقفے سے دانت توڑے جائیں۔بلکہ اتنے دانت دکھائے جائیں جتنے پیسوں کی ضرورت ہو۔ سندھ حکومت ایک نیا بل لانا چاہتی ہے جس کے مطابق اگر کسی حادثے میں ایک دانت ٹوٹ جائیگا تو12 ہزار پانچ سو روپے ملیں گے اور اگر اُسی حادثے میں سارے دانت ٹوٹ گئے تو 25 ہزار روپے ملیں گے۔ اب بتائیں آپ 32بار اپنے ساتھ حادثہ کرانے کے بعد رقم لینگے یا پھر ایک ساتھ رقم لینی ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہول سیل میں چیز سستی مل جاتی ہے اس لیے حکومت نے یہ سوچا ہو گا کہ ڈیل سارے دانتوں کے لیے کرنی چاہیے۔ اس میں حکومت کا قیمتی خزانہ بچ جائیگا۔ سندھ حکومت اتنا سوچ بچار کر کام کرتی ہے لیکن ناجانے یہ میڈیا والے کیوں اُس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ اور وہ کوئی بھی اچھا کام کرے سب اُسے ''بتیسی '' دکھانے لگ جاتے ہیں ۔اب اس اسکیم سے بھی لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ جن لوگوں کو بے روزگار کر دیا گیا ہے انھیںکام ملنے والا ہے۔ ویسے بھی سرکار کی طرف سے کم سے کم ماہانہ تنخواہ 12 ہزار رکھی گئی ہے۔ اب آپ بتائیں کہ پورا مہینہ کام کرنا ہے یا پھر ایک دانت توڑوا کر یہ رقم حاصل کرنی ہے۔

کیا عجیب و غریب ملک ہے یہاں پٹرول کی قیمت بڑھ جائے تو کرایا بڑھ جاتا ہے لیکن اگر پٹرول کی قیمت کم ہو جائے تو سوائے پٹرول کے کوئی چیز کم نہیں ہوتی ۔دو روپے تو بچ جاتے ہیں لیکن پٹرول کی لائن میں لگے لگے اپنا سارا تیل نکل جاتا ہے ۔ اسی طرح یہاں اگر ڈالر کی قیمت بڑھ جائے تو ہر چیز کے ریٹ بڑھ جاتے ہیں ۔ لیکن کسی کو خیال نہیں آتا کہ انسان کی جان کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے ۔ میری دادی کہا کرتی تھی کہ 1965 میں چار آنے بڑھ جاتے تو ہڑتال ہو جاتی تھی ۔ اور دو روپے میں اچھا خاصہ سامان آجاتا تھا ۔ یہ الگ بات ہے کہ اب دو روپے کوئی بھکاری لینا بھی اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے ۔اب تو جب ٹی وی کھولو کروڑ اور ارب سے تو نیچے کوئی آتا ہی نہیں۔لیکن آپ کو پتہ ہے اتنے عرصے میں انسان کی قیمت نہیں بڑھ سکی ۔

ابھی ہم نے یوم دفاع کے پچاس سال منائے ہیں ۔ جس طرح ہم اس خطے کی صورتحال میں پچاس سالوں میں وہیں کھڑے ہیں ۔اسی طرح انسانی حقوق میں بھی ہم نے رتی برابر کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا ہے ۔ پچاس سالوں سے یہاں ایک قانون چلا آرہا ہے اور اُس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ۔ آپ ڈالر کی قیمت دیکھیں ، آپ مہنگائی کا اندازہ کیجیے اور ان پچاس برسوں میں آنے جانے والی اور باریاں لگانے والی حکومتوں کو دیکھیں تو اپنا سر دیوار سے مارنے کو دل چاہتا ہے ۔ اس لیے کہ پچاس سال پہلے یہ طے ہوا تھا کہ اگر کسی ٹریفک حادثے میں کسی کی جان جاتی ہے تو اُسے 16 ہزار روپے دیے جائینگے ۔ آج تک اُس میںبس اتنی تبدیلی ہوئی کہ ہر سال ''تبدیلی ''کا سوچا جاتا ہے ۔ پاکستان میں روزانہ سیکڑوں حادثات ہوتے ہیں ۔ آپ کو معلوم ہے کہ کتنے لوگوں کو یہ 16 ہزار روپے ملے ۔ اب سندھ حکومت نے یہ سوچا ہے کہ ان مرنے والوں کی تھوری اوقات بڑھا دی جائے ۔ ہم نے زندگی میں تو ان کے لیے کچھ کیا نہیں ہے چلو اب جب مر گئے ہیں تو انھیں ترقی دے دی جائے اور رقم 16 ہزار سے بڑھا کر ڈھائی لاکھ کر دی جائے۔

ایسا ہرگز نہیں کہ اپنے ملک میں کوئی قانون نہیں ہے ۔ بلکہ میرا خیال یہ ہے کہ یہاں کاغذوں میں جتنے قانون ہیں اتنے تو دنیا میں شیر نہیں ہونگے ۔لیکن کون اس پر عمل کرے اور کس میں اتنی ہمت ہے اور محبت ہے کہ ایک برسوں سے درج ان قوانین کو تھوڑا پولش کر کے رکھ دے ۔ مہنگائی کے حساب سے ان کی تنخواہ بڑھ جاتی ہے لیکن دوسروں کا معاوضہ بڑھانے میں انھیں پریشانی ہوتی ہے۔ پچاس سال پرانے اس قانون کے مطابق اگر حادثہ میں ایک آنکھ ضایع ہو جائے تو انھیں چھ ہزار روپے دیے جائینگے اور اگر دونوں آنکھیں ضایع ہو جائیں تو 10 ہزار روپے۔ اب میں ان حکومتوں اور اُس بیوروکریسی کو کتنے پیسے دوں جن کی دونوں آنکھیں ناجانے کون سے حادثے میں ضایع ہو گئی ہیں کہ انھیں اتنے برسوں سے یہ قانون نظر ہی نہیں آیا البتہ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ اب انھیں احساس ہو گیا ہے کہ یہ لوگ نابینا ہو گئے ہیں اس لیے انھوں نے آنکھ کی قیمت چھ ہزار سے بڑھا کر 75 ہزار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ ہم انتہائی بے کار لوگ ہیں جو ہر وقت چکی میں پستے رہتے ہیں ۔ لیکن اب احساس ہو رہا ہے کہ اس حکومت کو ہمارا کتنا خیال ہے۔ کہ ہمارے جسم کے ایک ایک حصے کی قیمت رکھی ہوئی ہے ۔یعنی دانت ٹوٹنے کے پیسے، ہاتھ جانے کے پیسے ، انگلی جانے کی رقم مگر یہ رقم نا جانے ہوا میں کہاں موجود ہے ۔ گزشتہ دنوں ایک سرکاری افسر سے جب پوچھا گیا کہ عام آدمی کی حفاظت کون کرے گا تو انھوں نے کہا کہ اللہ ۔ لیکن اگر ان سے پوچھا جائے کہ رقم کی حفاظت کون کرے گا تو یہ کہیں گے کہ خادم حاضر ہے۔

کچھ باتیں ہمیں کبھی یہاں پر سمجھ نہیں آسکیں ۔ پاکستان میں چند باقی بچ جانے والے بائیں بازو والے دانشور ہمیشہ یہ رونا روتے رہے کہ ہمارے ساتھ یہاں پر ظلم ہوا ہے اور اسٹیبلشمنٹ نے جان بوجھ کر دائیں بازو کو پروان چڑھایا ۔ ہم ہمیشہ انھیں ایک پروپیگنڈا مہم ہی سمجھتے رہے ۔مگر اب حکومتی کاغذ دیکھ کر اس بات کا یقین کرنے کو دل چاہ رہا ہے۔ اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ آخر حادثے میں سیدھا ہاتھ ٹوٹ جائے تو 5 ہزار روپے اور بایاں بازو ٹوٹ جائے تو 4ہزار روپے ہیں ۔ بائیں بازو والوں کے ساتھ یہ ظلم ہے یا نہیں؟ ۔ اور وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں نا کہ ہمارے ساتھ ہمیشہ ناانصافی کی گئی۔

اور کیا کیا بتاؤں میں آپ کو کہ جب صرف سندھ میں سالانہ 4 ہزار سے زیادہ لوگوں کی جان ٹریفک حادثات میں چلی جاتی ہے اور کتنوں کی انگلیاں کٹ جاتی ہے۔ حادثہ کرنے سے پہلے آپ کو سوچنا پڑے گا کہ کون سی انگلی کی قربانی فائدہ دے گی ۔پچاس سال پہلے یہ لکھا گیا کہ جناب اگر آپ کا صرف انگوٹھا کٹ گیا تو آپ فائدے میں ہے ورنہ نقصان ہو گا۔کیونکہ انگوٹھا ہے 3 ہزار دو سو روپے کا اور انگلی ہے3 ہزار روپے کی ۔ اب آپ کو اگر دو سو روپے کا منافع چاہیے تو کوشش کیجیے گا کہ انگوٹھا بھلے چلا جائے انگلی بچ جانی چاہیے۔ مایوس مت ہوں کیونکہ اب حکومت نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ انگلی کی قیمت بھی بڑھ جائے گی اور ایک انگلی کی قیمت 38 ہزار روپے ہو جائے گی۔ بچپن میں پڑھتے تھے کہ کسی شخص نے لالچ میں آکر اپنی سونے کا انڈا دینے والی مرغی کو ذبح کر دیا تھا۔ آپ ایسا مت کیجیے گا کہ ایک ہی وقت میں ساری انگلیاں کٹوا دیں اور نقصان ہو کیونکہ ساری انگلیاں جانے پر اتنا پیسے نہیں ملیں گے۔ البتہ پرانی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اب بھی انگوٹھا ڈبل میں جائے گا ۔ اس کی وجہ یہ کہ بغیر انگلی کے تو آپ موبائل کی سم لے سکتے ہیں مگر انگوٹھے کے بغیر نہیں ۔ اگر موبائل کی سم چاہیے تو انگوٹھے کی حفاظت کریں ۔ پہلے جو انگوٹھا لگاتا تھا اُسے جاہل کہتے تھے۔ اس حکومت نے کم سے کم یہ ضرور کر دیا کہ انگوٹھا لگوا کر سب کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا ۔ نا کوئی قاتل رہا نا کوئی مظلوم ، نا کوئی تعلیم یافتہ نا کوئی جاہل۔

میں نے پہلے ہی کہہ دیا کہ ہول سیل ڈیل مت کیجیے گا کہ ایک ساتھ آپ غربت سے تنگ آکر کسی ٹرک کے آگے لیٹ جائیں کیونکہ اس صورت میں صرف ڈھائی لاکھ ہیں۔

یہ بھی مجھے اب سمجھ آیا کہ ہم کبھی بجلی ، کبھی گرمی ، کبھی بے روزگاری ، کبھی مہنگائی اور کبھی گولی سے روز کی بنیاد پر آہستہ آہستہ ٹکڑوں میں کیوں مرتے ہیں ۔ یہ حکومتیں ہمیں تڑپاتی ہیں لیکن ایک ساتھ مار کیوں نہیں دیتیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قسطوں میں مارنے میں فائدہ ہوتا ہے ۔ قربان جاؤں میں اس قانون پر جس نے مجھے یہ بھی سمجھا دیا ۔ اب آپ خود سوچیں نا کہ انگلی ، دانت ، بازو ، ٹانگ سب کی قیمتوں کو ملائیں تو یہ اُس رقم سے کئی گنا زیادہ ہو گی جو ایک دم مرنے سے ملتی ہے ۔ یعنی فائدہ اسی میں ہوتا کہ ٹکڑوں ٹکڑوں میں مارا جائے ۔ کبھی غربت سے دانت توڑ دیا جائے ، کبھی بجلی کا کرنٹ لگنے سے ہاتھ ضایع کر دیا جائے ، کبھی مہنگائی کر کے پاؤں کی جان ختم کر دی جائے ۔ ایسے ہی ٹکڑوں ٹکڑوں میں مار مار کر ہمیں ایک طرح سے محتاج کر دیا ہے ۔اب ہم آہ کر سکتے ہیں اورنا ہی سر اٹھا سکتے ہیں۔ چاہے جتنا ستم ہو جائے ہم تو بس سر تکیے پر رکھے اس سوچ میں ہوتے ہیں کہ اب کون سا جسم کا ٹکڑا کٹے گا تو کچھ پیسے آجائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں