انسانیت کی قربانی

انسانی تہذیب و تمدن، ثقافت و روایات پر اسلام کے احسانات و اثرات ایک مسلم حقیقت ہیں


[email protected]

انسانی تہذیب و تمدن، ثقافت و روایات پر اسلام کے احسانات و اثرات ایک مسلم حقیقت ہیں، یہ صرف اسلام ہی ہے جو انسانیت کو جاہلیت کے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی جانب لے کر آیا، کل انسانیت کو سیدھی راہ دکھائی اور اوہام پرستی و توہمات سے نکالا، تاریخ گواہ ہے کہ انسانی عقائد کو گمراہ کرنے اور انسانیت کو بھٹکانے اور نقصان پہنچانے میں توہمات پرستی نے بڑا کردار ادا کیا۔

دنیا کی دیگر تہذیبوں کی طرح ''ازطق'' اور ''موچے'' تہذیب میں یہ عام روایات تھی کہ لوگوں کو بھینٹ اس لیے چڑھایا جاتا تھا کہ اس میں دیوتاؤں کی مرضی شامل تھی۔ ماہرین نے دنیا بھر کی تہذیبوں کے متعلق ہزاروں صفحات کو چھان کر ان میں انسانی قربانی کا سائنسی انداز میں تجزیہ کیا ہے، اس کے لیے انھوں نے دنیا کی 45 تہذیبوں کا بغور مطالعہ کیا، ان میں سے صرف سات تہذیبیں ایسی ملیں جہاں انسانی قربانی کا رواج تھا۔

ان میں مارکیزن سے لے کر جنوبی اوقیانوس اور رومی تہذیبیں شامل ہیں، ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماہر بشریات مائیکل ونکلیمن کہتے ہیں کہ صرف ان ہی تہذیبوں کے دیوتا انسانی بھینٹ پر کیوں اصرار کرتے تھے؟ باقی تہذیبوں میں کیوں نہیں؟ ان کا خیال ہے کہ انسانی قربانی کے پس پردہ معاشی، معاشرتی اور سیاسی وجوہ کار فرما تھیں، لوگوں کو غذا اور دیگر وسائل سے دور رکھنے کے لیے نیز حکومتوں کو لاحق مختلف خطرات کے پیش نظر، مختلف خدشات اور اندیشوں کے تحت ان تہذیبوں میں دیوتاؤں کی آڑ میں ایک دوسرے کو قتل کیا جاتا اور نام قربانی کا استعمال ہوتا تھا، جھوٹے خداؤں کے نام پر انسانی استحصال کی یہ بدترین مثال ہے، ذاتی انا کے لیے اس بھیانک عمل کو دیوتاؤں سے ہرگز ہرگز منسوب نہیں کیا جا سکتا۔

بعض محققین و مورخین کا کہنا ہے کہ ازطق باشندوں کے نزدیک انسانی بھینٹ مذہبی رسوم کا درجہ رکھتی تھیں، انسانی لہو ان کے نزدیک اس لیے اہم تھا کہ اس سے سورج روزانہ پابندی سے طلوع ہو گا اور اگر انسان قربان نہ کیے جائیں تو سورج ٹوٹ کر گر جائے گا، ازطق تہذیب میں انسانی قربانی کی داستانیں ہسپانوی مورخین نے بھی بیان کی ہیں۔ محتاط اندازے کے مطابق یہ لوگ ہر سال 20 ہزار افراد قربان کرتے تھے اور اسی طرح ''موچے'' تہذیب جو کہ ازطق تہذیب سے قدرے پہلے گزری ہے، یہ پیرو (Peru) کے شمالی ریگستانی علاقوں میں کبھی موجود تھی، حیرت انگیز طور پر ترقی یافتہ تہذیب تھی، یہ تہذیب 100 سے 800 سال تک قائم رہی اس تہذیب میں بھی انسانی قربانی کا رواج زوروں پر تھا اور اس دلخراش اور ظلم و بربریت پر مبنی عمل کو سب سے اہم مذہبی رسم کا درجہ حاصل تھا، ان تہذیبوں کی تصاویر، مورتیاں اور بتوں سے انسانی قربانی کا سراغ ملتا ہے۔

ازطق اور موچے کے علاوہ بھی دنیا میں کئی قومیں ایسی گزری ہیں جو غلط عقائد، باطل رسومات اور توہمات پرستی کی وجہ سے انسانی قربانی کے حوالے سے مشہور یا بدنام ہیں، یہ حقیقت ہے کہ دنیا کی اکثر پرانی قومیں عہد جاہلیت میں افزائش فصل کی خاطر آدمی کی قربانی کیا کرتی تھیں، محققین ٹائلر اور فریزر نے اس رواج کی بکثرت مثالیں نویں صدی کی پسماندہ قوموں سے پیش کی ہیں، فریزر لکھتا ہے کہ ''تمام دنیا کی وحشی اور نیم مہذب اقوام میں انسانی قربانی کا رواج پایا جاتا ہے۔''

ابتدائی مصری قومیں بھی اپنے بادشاہ کو جوانی ہی میں افزائش فصل کی خاطر قربان کر دیا کرتی تھیں، البتہ فراعنہ (فرعون) کے برسر اقتدار آنے کے بعد اس رسم میں تھوڑی ترمیم ہو گئی اور فرعون کے بجائے اس کا نام زد کردہ نمایندہ زراعت کی بھینٹ چڑھنے لگا، مصری آثار میں فراعنہ کے پہلے خاندان (4514-4717ق۔م) کی ایک تصویر ملی ہے جس میں فرعون کے متبادل شخص کو قربان کیا جا رہا ہے، کچھ عرصے بعد رسم میں ذرا تبدیلی ہوئی اور جنگی قیدیوں کو قربان کیا جانے لگا مگر یہ رواج بھی ترک ہو گیا اور پھر جانور قربان ہونے لگے۔

اموری تہذیب کے لوگ سومیریوں کے مشرقی ہمسایہ ممالک سے تعلق رکھتے تھے جنھوں نے بعد ازاں ملک شام کی جانب نقل مکانی کی تھی، اموریوں کا مذہب اپنی ابتدائی شکل میں ان سامیوں سے مختلف نہ تھا جو فطری اور طبعی قوتوں کی پرستش کرتے تھے، جنوبی شام میں اموریوں نے جو مذہبی رسوم جاری کیں، ان میں سب سے نمایاں حیثیت انسانی قربانی کو حاصل تھی۔

چنگیز خان کا نام لیتے ہی ہمارے ذہنوں میں ایک ظالم، جابر اور سفاک فاتح کا تصور ابھرتا ہے، انسانی قربانی چنگیز خان سے بھی ثابت ہے، اس نے انسانی کھوپڑیوں کے مینار تعمیرکرائے تھے اس کی موت پر چالیس گھوڑوں اور چالیس حسین وجمیل دوشیزاؤں کو قتل کر کے اس کے ساتھ دفنا دیا گیا تا کہ وہ اگلی زندگی میں چنگیز کے کام آ سکیں، یہ بھی ضعیف الاعتقادی اور تواہم پرستی کی عجیب و غریب مثال ہے۔

واقعہ مشہور ہے کہ مصرکے باشندے دریائے نیل کی پوجا کرتے اور ہر سال اس کے لیے سب سے زیادہ خوبصورت کنواری لڑکی کو دلہن بنا کر اور خوب جشن منا کر قیمتی ساز و سامان کے سمیت دریائے نیل میں بہا دیتے، ان کا عقیدۂ باطل یہ تھا کہ اگر دریائے نیل کو یہ بھینٹ نہ دی جائے گی تو وہ دریا خشک ہو جائے گا، کھیتی کو پانی نہیں ملے گا تو قحط پڑ جائے گا اور مخلوق تباہ و برباد ہو جائے گی، جب اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع ہوا اور مصر خلافت اسلامی کا حصہ بنا اور سیدنا حضرت عمرو بن العاصؓ کو مصرکا گورنر بنا کر وہاں بھیجا گیا اور انھیں اس عجیب اور قابل گرفت رسم کا علم ہوا تو آپؓ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، پھر آپؓ نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ واپس چلے جاؤ اب دریاؤں کی حکومت کا زمانہ ختم ہو چکا ہے۔

اب انسان کی گردن اس باطل کے سامنے نہیں جھکے گی، پھر انھوں نے امیرالمومنین حضرت عمر بن الخطابؓ کو ایک خط میں سارا احوال تحریر کر دیا، جواباً حضرت عمر فاروقؓ نے ایک خط تحریر کیا مگر یہ خط والیٔ مصر کے نام نہیں بلکہ دریائے نیل کے نام تحریر کیا، اس فرمان میں انھوں نے لکھا ''اے دریائے نیل! اگر تُو اپنی طاقت سے بہتا ہے اور رُکتا ہے تو رُک جا، ہمیں تیرے پانی کی ضرورت نہیں اور اگر تُو اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے بہتا ہے تو آج اللہ تعالیٰ کا بندہ عمرؓ تجھے حکم دے رہا ہے کہ تُو جاری ہو جا اور میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تجھے جاری فرما دے۔'' اس کے بعد دریائے نیل کبھی خشک نہیں ہوا۔

بہرحال انسانوں کی قربانی ہو یا قتل و غارت یہ زمین انسان کے مظالم کی خاموش گواہ ہے، اس کا قلب انسانی تاریخ کے خفیہ گوشوں کا سب سے بڑا امین ہے قدیم انسان ہوں یا عہد جدید کے بعض نام نہاد مہذب دنیا سے تعلق رکھنے والے تاریخ کے اوراق پلٹیے تو ہر دور میں ظلم و بربریت کے مختلف انداز نظر آتے ہیں اب تک دنیا میں 180 سے زائد مختلف خوفناک جنگیں ہو چکی ہیں جن میں 8 کروڑ 90 لاکھ 73 ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

اسلام انسانی زندگی اور حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہے، اسلام کے نزدیک ایک بے گناہ انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے اور بے گناہ انسان کی جان کو بچانا ساری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے، رسول اللہؐ نے جنگوں میں کشت و خون سے قطعی پرہیز فرمایا کیونکہ آپؐ کی جنگوں کا مقصد ہی عالمی امن کا قیام تھا، یہی وجہ ہے کہ چند سو جانیں ضایع ہوئیں مگر آٹھ سال کے عرصے میں دس لاکھ مربع میل کے علاقے پر امن و امان قائم ہو گیا، اور 82 لاکھ 5 ہزار آدمی (حضورؐ کی زندگی میں) خدائے واحد بزرگ و برتر کے پرستار بن گئے۔

یہ صرف اسلام ہی کا خاصہ ہے کہ اس نے انسان کو درست فہم و ادراک اور شعور و آگہی سے بہرہ مند کیا، انسان اور انسانیت کی بقا و دوام اور ترقی و فلاح و بہبود کے راستے اور ضابطے متعین کیے، غلط اور باطل عقائد سے انسانیت کی جان چھڑا کر اسے صراط مستقیم سے روشناس کرایا، سوچیے اگر اسلام نہ آیا ہوتا تو آج انسانیت کس حال میں ہوتی؟ وہ تمام اقوام جو آج اسلام سے نابلد اور ناواقف ہیں وہ آج بھی گمراہی کی پستیوں میں ڈوبی ہوئی ہیں۔

عہد جدید کے ایک سروے کے مطابق آج بھی ہر پانچ منٹ کے بعد ایک انسان قتل کر دیا جاتا ہے، عہد جدید کے انسان کا دعویٰ ہے کہ اس نے ترقی کی منازل کو چھو لیا ہے، لیکن انسانیت کی حالت زار اس دعوے کو مشکوک کر دیتی ہے، آپ بتائیے کیا واقعی انسان نے ترقی کی، تاریخ سے کچھ سیکھا؟ میرے خیال سے تو ہر گز نہیں۔ آدمیت کو شرف انسانیت اسلام نے بخشا اور یہ اسلام ہی ہے جس کا بے مثال فلسفۂ قربانی قدرتی و فطری سنت ابراہیمی، کل انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں