25 لاکھ افراد کی سواری سے محرومی

یہ ایک مسلم امر ہے کہ پاکستانی قوم گزشتہ 68 برسوں سے مسیحا کی تلاش میں سرگرداں ہے


شاہد سردار September 09, 2015

لاہور: یہ ایک مسلم امر ہے کہ پاکستانی قوم گزشتہ 68 برسوں سے مسیحا کی تلاش میں سرگرداں ہے جو ملک کو درپیش سنگین بحران و مسائل سے نجات دلا دے۔ دراصل کسی مسیحا کی پیدائش کے لیے درست وقت اور صحیح انسان کا امتزاج ضروری ہے، جب کہ پاکستان کے کرپٹ نظام اور آمرانہ طرز جمہوریت میں مسیحا کی پیدائش ممکن نہیں۔شیخ سعدیؒ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی مسافر صحیح راستے سے بھٹکنے کے باعث غلط راستے پر چلتا رہے تو وقت گزرنے کے ساتھ وہ اپنی راہ سے اتنا دور ہوتا جائے گا کہ جس کے بعد وہ صحیح راستے پر واپس بھی آنا چاہے تو نہیں آ سکتا۔

یہ درست ہے کہ پاکستان کے تمام ادارے آکسیجن ٹینٹ میں سسک سسک کر جی رہے ہیں، آج اگر کوئی مسیحا اتفاقاً آ کر ملک کے حالات سدھارنے کی کوشش بھی کرے تو اس کے مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے کئی عشرے درکار ہوں گے۔کون نہیں جانتا کسے دکھائی نہیں دیتا کہ ہمارے حکمران اور دیگر سرکاری اہلکار بڑی بڑی بلٹ پروف گاڑیوں میں ''فول پروف سیکیورٹی'' کے حصار میں روپوش رہتے ہیں، جب کہ عوام کے پاس ٹرانسپورٹ کی سہولت تک دستیاب نہیں ہے۔

برسہا برس سے پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی و تجارتی شہر جسے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے میں عام پبلک کے لیے ٹریفک اور ٹرانسپورٹ کے قحط اور ابتری کا سامنا ہے۔ آنے والی (اقتدار پر براجمان) حکومتیں سرکلر ٹرین، گرین بسیں اور عام بسیں چلانے کے اعلانات کرتی ہیں لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو پاتا۔ سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کے دور نظامت میں کراچی میں محدود روٹس پر محدود بسیں چلیں جو ''ٹرانسپورٹ مافیا'' کے ہاتھوں جلد ہی غائب ہو گئیں۔

کراچی میں ہر دوسرے آدمی کے پاس اس لیے موٹر بائیک ہے جس پر وہ دو تین لوگوں کو بٹھا کر روزانہ اپنے کاروبار پر پہنچتا ہے لیکن اسے بھی اکثر ڈبل سواری پر پابندی کا بھگتان بھگتنا پڑتا ہے۔کراچی میں سبھی جانتے ہیں کہ اکثریت کے پاس اپنا ذاتی کنوینس نہیں ہے اسے اپنی ڈیوٹی، اسپتال، رشتے داروں کے ہاں آنے جانے اور شادی بیاہ کے مواقعے پر ٹرانسپورٹ کی قلت کا بری طرح سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مختصر یہ کہ برسہا برس گزرنے کے باوجود ''ٹرانسپورٹ مافیا'' نے پورے کراچی شہر کو یرغمال بنا رکھا ہے نہ وہ پراپر طریقے سے ٹرانسپورٹ سڑکوں پر لاتے ہیں اور نہ وہ کسی دوسری گاڑیوں کو سڑکوں پر چلنے دیتے ہیں۔

حکام، حکمران، کمشنر، ہوم سیکریٹری سب کے سب اس مافیا کے ہاتھوں بے دست و پا ہیں۔پٹرول کسی بھی ملک اور اس کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اس کی کمی اس کی نایابی کاروبار زندگی اور انسانی زندگی دونوں کا پہیہ جام کر کے رکھ دیتی ہے، پٹرول کی قیمت سے روزمرہ زندگی کی اشیا کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ آتا ہے، لیکن پٹرول کی قیمت جب بڑھتی ہے تو ٹرانسپورٹر کرایوں میں اضافہ کر دیتے ہیں، دکاندار اپنی اشیا کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں لیکن جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمت کم کی جاتی ہے تو اشیا صرف کی قیمتوں میں کمی نہیں کی جاتی، نہ ہی ٹرانسپورٹر کرایوں میں کمی کرتے ہیں۔

ان دنوں عام طور پر پٹرول 74 روپے فی لیٹر فروخت ہو رہا ہے، جب کہ پٹرول کی اصل قیمت 40 روپے لیٹر بنتی ہے لیوی ٹیکس، سیلز ٹیکس اور نہ جانے کون کون سے ٹیکس میں ڈبو کر پٹرول کو عام آدمی کے لیے 74 روپے میں فراہم کیا جا رہا ہے، لیکن اس ستم، ظلم، زیادتی اور اس اندھیر پر بھی کوئی قانون سوموٹو ایکشن لینے کا نہیں سوچتا۔ ہمارے وزیر داخلہ ''لیوی ٹیکس'' کو ''جگا ٹیکس'' کہتے تھے اب انھوں نے خود جگا ٹیکس پر بھی بھتہ ٹیکس لگا دیا ہے جو بہرطور عوام پر بوجھ ہے لیکن ہماری حکومت پٹرولیم مصنوعات کے ذریعے سالانہ 900 ارب روپے کما رہی ہے۔

اگر صرف 100 ارب روپے اس میں سے وہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کی سہولت کی مد میں خرچ کر کے پورے کراچی کے روٹس پر بسیں چلا دے تو عوام کی اکثریت سکھ کا سانس لے سکتی ہے لیکن تادم تحریر عوام کی سانسیں رکی ہوئی ہیں۔ہمارے حکمران جو صرف اپنے صوبے کو ہی پاکستان سمجھتے ہیں، اس لیے وہاں میٹرو اور اورنج ٹرینوں جیسے منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔

اور ایک زمانے میں جس پنجاب میں چنگ چی رکشوں کی بھرمار تھی اب ان رکشوں کا رخ کراچی کی طرف موڑ کر وہاں گرین بسوں، میٹرو بسوں اور نہ جانے کون کون سے رنگوں کی حامل بسوں کا جال بچھا دیا گیا ہے۔کراچی کے صابر، مجبور اور قناعت پسند عوام ٹرانسپورٹ کے خواب دیکھتے اور گرین بسوں کا انتظار کر کے چنگ چی رکشوں کو اپنا محسن مان چکے تھے ۔ آج تین ہفتوں سے زائد ہو چلے چنگ چی رکشے بند ہیں۔ کیا ہمارے ارباب اختیار نہیں جانتے کہ کراچی میں عرصہ دراز سے ٹرانسپورٹ کی قلت چلی آ رہی تھی۔

ہزاروں بے روزگار لوگوں نے قسطوں میں، کرائے پر یا ادھار پارٹی کر کے رکشے لے کر چلا کر اپنی بیروزگاری کے خاتمے میں مصروف تھے لیکن ہمارے ٹرانسپورٹ مافیا نے ان کے جمے جمائے روزگار پر لات مار دی۔ہمارے حکمرانوں یا ہمارے ارباب اختیاروں کو آخر یہ کیوں نہیں پتہ چلتا کہ چنگ چی رکشوں کی بندش سے 25 لاکھ افراد سواری سے محروم ہو گئے ہیں، کراچی جیسے بڑے گنجان شہر میں گنی چنی گاڑیاں، بسیں، مزدے یا کوچیں اپنی مرضی اور اپنی مرضی کے کرایوں کی وصولی کے ساتھ چلتی چلی آ رہی ہیں ان کی بھی اتنی کمی اتنی قلت ہے کہ ان کی چھتوں پر صبح سے رات گئے تک لوگ سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ جو ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی بھی ہے اور انسانی جانوں کے ضیاع کا خطرہ بھی۔

کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ مفاد پرستوں نے کراچی کو ویران کر کے رکھ دیا ہے۔ شہر میں ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام موجود نہیں۔ چنگ چی رکشے جس طرح لے کر لوگ چلا رہے تھے اور اپنے گھروں کے چولہے جلا کر اپنے بچوں کو کھانا کھلا رہے تھے ان کے چولہے ٹھنڈے کر دیے۔کیا حکمرانوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ صحت، روزگار، تعلیم اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کی سہولتیں فراہم کرنا ریاستوں (حکومتوں) کی ذمے داری ہوتی ہے۔

کسی مخصوص شہر یا مخصوص صوبے کو آبائی یا خاندانی شہر سمجھ کر اسے تمام تر سہولتوں اور آسائشوں سے لیس کر دینا حب الوطنی نہیں اپنے فرائض سے بددیانتی کے مترادف ہے۔ حکومتوں اور حکمرانوں سے لوگ توقع نہ لگائیں تو پھر کیا کالے چوروں، ڈاکوؤں اور اسمگلروں سے امیدیں باندھیں؟ جیسا کہ ہم نے پہلے بالائی سطور میں کہا حکومت پٹرولیم مصنوعات سے سالانہ 900 ارب روپے کما رہی ہے، اسے فوری طور پر اس رقم کا دس فیصد ہی کراچی میں ٹرانسپورٹ کی قلت کے خاتمے کے لیے صرف کرنا اب وقت کی اہم ضرورت بن گئی ہے۔

مقام شکر ہے کہ کراچی میں عوام کی سہولت کے لیے چنگ چی رکشوں پر پابندی پر سپریم کورٹ نے سختی سے نوٹس لیتے ہوئے دو ہفتے میں اس کی رپورٹ متعلقہ ادارے سے طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیا محکمہ ٹرانسپورٹ لوگوں کو گدھا گاڑی پر بٹھائے گا کیونکہ سڑکوں پر بسیں چل ہی نہیں رہیں اور اگر چل رہی ہیں تو وہ چنگ چی رکشوں سے زیادہ خطرناک ہیں۔ لاکھوں لوگ پریشان ہیں طلبا و طالبات کو اپنی درسگاہوں میں پہنچنے کے لیے، لوگوں کو اپنے اداروں میں جاب پر پہنچنے کے لیے روزانہ تاخیر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ میلوں لوگ پیدل چلنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔

سپریم کورٹ نے محکمہ ٹرانسپورٹ سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ سستی ٹرانسپورٹ کراچی میں ختم ہو چکی، منی بسیں تباہ حال ہیں اور جنازوں کی طرح گھوم رہی ہیں، غیر ضروری منصوبوں پر تو رقم خرچ کی جاتی ہے لیکن ٹرانسپورٹ نظام کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔

آخر کیوں کسی جامع منصوبہ بندی کے بغیر چنگ چی رکشوں پر پابندی لگائی گئی؟ اس پابندی سے عوام کو عذاب میں ڈال دیا گیا، موٹرسائیکل پر لوگ اپنے پورے خاندان کو بٹھا کر ان کی جان خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ عدالت نے سیکریٹری ٹرانسپورٹ کو ہدایات جاری کی کہ وہ متبادل ٹرانسپورٹ کی تجاویز کے لیے چنگ چی ایسوسی ایشن اور متعلقہ اداروں کے ساتھ اجلاس کرے اور جامع حکمت عملی مرتب کر کے عدالت میں رپورٹ پیش کرے۔خدا کرے سپریم کورٹ کی ہدایت بار آور ثابت ہو اور کراچی کے عوام کو ٹرانسپورٹ کی شدید قلت سے نجات مل جائے وگرنہ ہماری حکومتیں تو عرصہ دراز سے حکمت کے نام حقائق کی لاش پر مصلحت کا کفن ڈالتی چلی آ رہی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔