دور جہالت

مجھ جیسے جاہل کو یہ سمجھا سکتے ہیں کہ شیریں نے ایسی کون سی انڈین فلم دیکھی تھی


انیس منصوری September 06, 2015
[email protected]

کوئی مجھے یہ تلاش کر کے بتا سکتا ہے کہ لیلیٰ کو جب مجنوں سے عشق ہوا اُس وقت وہ کون سا فیس بک اکاوئنٹ استعمال کرتی تھی ۔کسی کے پاس اگر یہ معلومات ہوں تو مجھے بالکل آگاہ کر کے نیک کام کرے کہ جب ہیرمحبت کی گلیوں میں گردش کر رہی تھی تو اُس لمحے وہ کون سے ٹوئیٹر پر پیغام دیتی تھی۔

میں ایک کم عقل آدمی ہوں لیکن یہاں پر ہزاروں مفکر ہیں۔ مجھ جیسے جاہل کو یہ سمجھا سکتے ہیں کہ شیریں نے ایسی کون سی انڈین فلم دیکھی تھی جس کے بعد اُسے ہر جگہ بس ایک شخص ہی نظر آتا تھا ۔کوئی تو ہو جو مجھ جیسے اندھے کے ہاتھ میں لاٹھی دے کر راستہ بتائے۔

آخر وہ کون سا میڈیا تھا کہ جس نے قیس کو ایسا ڈراما دکھایا جس کی وجہ سے لوگ اُسے سڑکوں پر پتھر مارنے لگے اور وہ پھر بھی لیلیٰ ،لیلیٰ پکارتا رہا ۔ کسی جدید ٹیکنالوجی کے ماہر کے پاس اس بات کا جواب ہے کہ رانجھا کون سے موبائل کا فری پیکیج استعمال کرتا تھا۔ یہ جو ہر گلی کے نکڑ پر بیٹھ کر ہانک رہے ہیں کہ کراچی میں لڑکی اور لڑکے نے جو خود کشی کی ہے اُس کی وجہ انٹر نیٹ، میڈیا اور موبائل فون ہیں ۔وہ سب مجھے ان باتوں کا جواب دے کر برائے مہربانی میری مشکل آسان کر دیں ۔

یہ جو راگ سناتے رہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے ہمارا معاشرہ تباہ ہوگیا ہے وہ جا کر اپنا سوشل میڈیا چیک کرلیں۔ جس میں 80 فیصد سے زیادہ لوگ ہمیں نصیحتیں بانٹتے ہوئے ہی ملیں گے ۔ یہاں جسے دیکھو ایک اچھا چہرہ پیش کرنے کے لیے روزکی بنیاد پر نصیحتوں بھری پوسٹ کرتا ہے لیکن اُس کے باوجود کہتے ہیں کہ یہ سوشل میڈیا ہمیں تباہ کر رہا ہے۔ سیکڑوں اقوال زریں ملتے ہیں، روح پرور باتیں نظر نواز ہوتی ہیں، مگر مسلسل الزام لگ رہا ہے کہ سوشل میڈیا ہمارے نوجوانوں کو فحاشی کی طرف لے کر جارہا ہے ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب موبائل فون نہیں آئے تھے تو اُس وقت کہا جاتا تھا کہ نوجوانوں میں برائی کی وجہ منحوس فون ہے۔ اس سے نوجوان بگڑ رہے ہیں ۔پہلے کا دور اچھا تھا اور آج کل کہا جاتا ہے کہ وہ فون کا دور اچھا تھا ۔

یہ عجیب قسم کا دوغلہ معاشرہ ہو چکا ہے ۔ ایک طرف ہمیں لوک کہانیاں سُنا کر کہتا ہے کہ وہ سچی محبت کرنے والے تھے اور جب کوئی اُس نقش پر اپنے قدم رکھتا ہے توکہا جاتا ہے کہ یہ لوگ سچے نہیں ہیں ، اُن پر فلمیں بھی بنتی ہے۔ کتابیں لکھی جاتی ہے اور جب کوئی اور یہ راستہ اختیار کرتا ہے تو ہم سب کے ہاتھوں میں پتھرآجاتے ہیں ۔کراچی میں لڑکے اور لڑکی کی خود کشی کا اقدام ہم سب کے لیے سوال ہے۔ مجھے آپ بتا دیجیے کہ معاشرے کے رسم و رواج کی وجہ سے ہم کہاں آکر کھڑے ہوئے ہیں۔ ہم سب ایک دوسرے کو اپنا بھا ئی کہتے ہیں۔

بڑی بڑی تقریریں جھاڑتے ہوئے ہم سب کو پاکستانی کہتے ہیں لیکن ہم خود کو کتنا بڑا دھوکا دے رہے ہوتے ہیں ۔ یہاں پر ایک برادری کی لڑکی دوسری برداری میں شادی نہیں کرسکتی ۔ یہاں اگر لڑکے کا فرقہ الگ ہو اور دوسرے کا فرقہ الگ ہو تو ہم رشتہ کرنا پسند نہیں کرتے ہیں ۔ اس واقعے میں ہمارا چہرہ ہمارے سامنے آچکا ہے لیکن اُس کے باوجود کوئی میڈیا پر الزام ڈال کر اپنا منہ چھپانا چاہتا ہے اورکوئی سوشل میڈیا کا گریبان پکڑکر اپنا غصہ نکالنا چاہتا ہے۔ کسی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہود اور ہنودکی سازش ہے جس نے ہمارے نوجوانوں کو بگاڑ دیا ہے ۔

لیلیٰ اور مجنوں کو بھی لگتا ہے کسی امریکن نے بگاڑا ہو گا اور ان کی باتیں سُن کر تو مجھے بھی اب شک گزر رہا ہے کہ شیریں پر جادو کسی انڈین نے کیا ہو گا اور ہیر کو بہکانا اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کا کام ہو گا ۔

ایک اور بھی بات سُن لیجیے کہ جس میں یہ کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 40 فیصد سے زیادہ بچے ڈپریشن کا شکار ہو چکے ہیں اور یہ واقعہ بھی اسی لیے ہوا ہے ۔ایک اور جگہ لکھا ہوا دیکھا گیا کہ والدین کے پاس چونکہ آج کل ٹائم نہیں ہے اس لیے یہ واقعہ ہوا ہے۔ پھر یہ بھی کہا گیا کہ ٹیچر کی ٹریننگ نہ ہونے کی وجہ سے ان دونوں نے خودکشی کی ہے ۔

ایک اور صاحب فرماتے ہیں کہ لڑکا اور لڑکی ایک ساتھ پڑھتے تھے اس لیے یہ واقعہ رونما ہو گیا ۔ میں کہیں باہرکی بات نہیں کرتا ،لیکن پاکستان کی اکثر یونیورسٹی میں لڑکا اور لڑکی ساتھ پڑھتے ہیں وہاں کیوں یہ واقعہ پیش نہیں آیا ۔ یہ بھی بتا دیجیے کہ اسپتال کے اندر لڑکا اور لڑکی کے علاوہ تیسری جنس بھی ہوتی ہے وہاں کیوں خودکشی نہیں کی جاتی ۔

تو ایک صاحب فرمانے لگے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے لوگ بالغ ہوتے ہیں اور یہ دونوں بالغ نہیں تھے۔اب آپ فیصلہ کیجیے کہ بلوغت کسے کہتے ہیں ۔ جب ایک لڑکا اور ایک لڑکی اس حد تک سمجھ رکھتے ہیں کہ اُن کے خاندان والے اُن کی شادی کرنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ دونوں کا تعلق الگ الگ فرقے اور برادری سے ہے تو انھیں آپ ذہنی بلوغت نہیں کہیں گے ؟

وہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور آئندہ شادی کی خواہش رکھتے ہیں تو کیا اسے جسمانی بلوغت نہیں کہا جاسکتا ؟ اورکوئی یہ جا کر چیک کرلے کہ پاکستان میں اب بھی کتنی لڑکیوں کی شادی 18 سال سے پہلے ہو جاتی ہے ۔ اُس وقت کوئی کیوں نہیں کہتا کہ ان لڑکیوں کو اٹھارہ سال کا ہوجانے دو ۔اُس وقت تو اپنی روایت کے مطابق ہم کہہ دیتے ہیں کہ وہ بالغ ہوچکی ہیں ۔اگر یقین نا آئے تو تلاش کرلیجیے کہ پاکستان میں آدھی لڑکیوں کی شادی 18 سال سے کم عمر میں ہوتی ہے ۔

اُس وقت یہ لوگ کہاں چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں جب انھیں کہا جائے کہ پاکستان میں 10 فیصد مائیں وہ ہوتی ہے جو اپنے بچوں کو 18 سال سے کم عمر میں پیدا کرتی ہیں ۔

ہاں یہ معاملہ آسانی سے حل ہو سکتا تھا کہ اگر ان کے ماں باپ ان کی شادی کے لیے راضی ہو جاتے اور کہہ دیتے کہ پہلے تعلیم مکمل کرلو اُس کے فوری بعد ہم تمھاری شادی کردیں گے ، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس سے برادری میں ناک کٹ جاتی ۔ اس سے ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے ۔

اس سے ہم اکیلے رہ جاتے ۔ اس ہاں کے بعد ہم سے سب تعلق توڑ لیتے ۔ کیونکہ لڑکا ہماری برادری اور ہمارے فرقے کا نہیں تھا ۔ لڑکی ہمارے ساتھ ملاپ نہیں کرسکتی ۔ اتنا سا آسان حل ہم اس لیے نہیںکرسکے کہ ہمیں اپنے بچوں سے زیادہ اپنے معاشر ے کی فکر ہے ۔ہمیں آنے والی نسلوں سے زیادہ اپنی پچھلی نسل کو سنبھالنا ہے۔ ہمیں آگے بڑھنا تو ہے لیکن اپنا منہ پیچھے کی طرف ہی رکھنا ہے۔ ہم آج بھی دورجہالت سے باہر نہیں آ پائے ہیں ۔ ہم اچھے مستقبل کا خواب تو ضرور دیکھتے ہیں لیکن اُس میں عمارتیں ساری پرانی ہی تعمیرکرتے ہیں ۔

یوں ہی مجھے یاد آگیا کہ انگریزوں نے جب 1929 میں چائلڈ ایکٹ نافذ کیا تھا تو اُس وقت بہت شور مچا تھا ۔اس ایکٹ کو بعد میں پاکستان اور انڈیا نے اُسی طرح شامل کیا جس میں کہا گیا تھا کہ شادی کے لیے کم ازکم عمر 18 سال ہونی چاہیے ۔ میں تو اتنا قابل آدمی نہیں لیکن یہاں تو مفکروں کی کمی نہیں جو دن رات سوشل میڈیا پر خود کو سب سے بڑا دانشور سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔ وہ لوگ ضرور چیک کریں کہ اُس زمانے میں اس قانون کی مخالفت میں کون کون نکلا تھا اور کس نے ہاتھوں میں بچے اٹھا کر اُن کی شادیاں کروائی تھیں اورکہا تھا ہم اس قانون کو نہیں مانتے ۔

اس قانون سے زیادہ اہمیت ہماری روایت کی ہے ۔'' مدر انڈیا '' نامی کتاب میں چھپے حقائق کو نہیں مانا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ہمارے یہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں۔ انھیں لوگوں نے اس قانون کے خلاف مظاہرے کیے تھے اور شاید آج تک وہ لوگ موجود ہیں ۔جو یہاں شخصی آزادی کو اپنے رواج کا پابند کرنا چاہتے ہیں ۔نا صرف زندہ لوگوں کو اپنا غلام رکھنا چاہتے ہیں بلکہ مرنے کے بعد بھی انھیں ساتھ نہیں رکھنا چاہتے، ورنہ ان دو معصوموں کو الگ الگ نہ دفنایا جاتا ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں