مہذب زندگی کے قرینے اور ہم

وری قومی زندگی ایک تہذیبی زوال کا شکار نظر آتی ہے۔ خرابی سب سے پہلے ہماری سیاسی زندگی میں آئی


Intezar Hussain September 04, 2015
[email protected]

LONDON: چار چھ یار جمع تھے۔ اسی بیچ کہیں سے آئی اے رحمن بھی آن پہنچے۔ انھوں نے یاروں کو جمع دیکھ کر ایک عجیب سوال اٹھایا۔ صاحبو تم دیکھتے ہو، آج کل ہمارے بیچ زبان کی کیسی درگت بن رہی ہے۔ اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔

بس فوراً ہی الیکٹرونک میڈیا کے پروگرام زیر عتاب آ گئے اور وہ نوزائیدہ مخلوق جو ٹی وی اینکر کے نام سے جانی جاتی ہے الزامات کی زد میں آ گئی۔

تب ہم نے زبان کھولی اور عرض کیا کہ رحمن صاحب، گستاخی معاف ؎

اے باد صبا، این ہمہ آوردۂ تست

صرف اتنا مسئلہ نہیں ہے کہ ٹی وی میں مذاکروں مباحثوں کے نام پر جو دنگا فساد ہوتا ہے اور جس لہجہ میں ایک دوسرے کو للکارا جاتا ہے اور نوبت یہ آ جاتی ہے کہ ؎

گھوڑے کو دو نہ لگام منہ کو ذرا لگام دو

بات صرف اتنی نہیں ہے۔ پوری قومی زندگی ایک تہذیبی زوال کا شکار نظر آتی ہے۔ خرابی سب سے پہلے ہماری سیاسی زندگی میں آئی۔ بلکہ صاف صاف یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت ہماری قومی زندگی میں ہر سطح پر جو مہذب طور طریقوں کا زوال نظر آ رہا ہے اور جس کا مظاہرہ سب سے بڑھ کر الیکٹرونک میڈیا کے پروگراموں میں نظر آتا ہے اس کا بڑا مجرم سیاستدانوں کا طبقہ ہے۔ جمہوریت کے نام پر جب سیاسی جلسے جلوس بے لگام ہوئے اور باہمی چپقلش میں اصول یہ ٹھہرا کہ شائستگی چہ کتیست کہ پیش مرداں می آید۔ یعنی مہذب زبان کس چڑیا کا نام ہے۔ ابتذال میں کیا مضائقہ ہے۔ اور وہ جو بھنگڑ خانے کا لب و لہجہ ہے کہ ؎
ادھر آ بے ابے او چاک گریباں والے

وہ سیاسی بحث مباحثوں میں بھی راہ پا گیا تو پھر وہی طور سیاسی حلقوں سے باہر بھی عام ہوتا چلا گیا۔ قومی اداروں کا احترام پہلے سیاستدانوں کے ہاتھوں ختم ہوا۔ پھر ایک ایک کر کے سارے قومی ادارے، سارے اخلاقی اصول اور سارے تہذیبی معیارات عام خلقت کے ہاتھوں بے حرمت ہوتے چلے گئے۔

ابھی پچھلے دنوں قاضی جاوید کا ایک انٹرویو نظر سے گزرا۔ کہہ رہے تھے کہ قطار بنانے نہ بنانے کے عمل سے بھی یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ قوم کس حد تک مہذب ہے یا غیر مہذب ہے۔

قطار بنانا ہم نے بہت دیر میں سیکھا۔ شاید سیکھنے کے بعد تربیت ادھوری ہی رہی۔ ہم اتنی عجلت میں ہوتے ہیں کہ قطار میں زیادہ دیر کھڑے نہیں رہ سکتے۔ سو قطار بنانے کے بعد بھی مشکل سے اس کے پابند رہتے ہیں۔ فلم کے سلسلہ میں جو کھڑکی توڑ ہفتے کی اصطلاح وجود میں آئی اس میں یہ پہلو مضمر ہے کہ ٹکٹ خریدنے والے کھڑکی پر ٹوٹے پڑ رہے ہیں۔ قطار ندارد ہے۔

شادی بیاہ یا ایسی تقریب جس میں کھانے کا اہتمام ہو تقاضا کرتی ہے کہ قطار بنائیں اور اپنی باری آنے پر اپنی پلیٹ میں کھانا لیں۔ ایسے موقعوں پر قطار بنائی تو جاتی ہے مگر ساتھ میں بے صبرے لوگ قطار شکنی بھی کرتے رہتے ہیں۔ وہ شاید بھٹو صاحب کی مقبولیت کا زمانہ تھا۔ ان کے جلسوں میں خلقت امنڈی ہوئی نظر آتی تھی۔ ایک جلسہ کا احوال ہم نے اخبار میں اس طرح پڑھا کہ یہاں کھانے کا بھی اہتمام تھا۔ جلسہ ختم ہوتے ہی جیالے دیگوں پر ٹوٹ پڑے۔ وہ جو ایک شعر ہے کہ؎

یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے ناکامی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں ساغر اسی کا ہے

تو ہوا یہ کہ کوتاہ دست پیچھے خالی پلیٹ لیے کھڑے ہیں۔ دراز دستوں کی بن آئی ہے۔ ان کی پلیٹیں سالن سے بھری ہوئی ہیں اور کپڑے سالن میں تربتر ہیں۔

پیپلز پارٹی کے جلسوں میں کھانے والے کی یہ ایسی روایت قائم ہوئی کہ پھر کھانے کا یہی طور مرغوب و مقبول ٹھہرا۔ پھر دوسری سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں بھی کھانے کے اوقات میں یہی نقشہ دیکھنے میں آنے لگا۔

کھانے کے تو اپنے آداب ہوتے ہیں۔ اس لیے مہذب قوموں میں لنچ اور ڈنر کے آداب پر سختی سے عمل ہوتا ہے۔ اسی سے طے ہو جاتا ہے کہ اس قوم کے لوگ کتنے مہذب ہیں اور کھانے کے ادب آداب پر کتنی سختی سے عمل کرتے ہیں۔

جس قوم کے سیاسی افراد کھانے کے وقت سارے ادب آداب کو بالائے طاق رکھ کر کھانے کی دیگوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں انھیں دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کونسی جمہوریت ہو گی جو ان لوگوں کے ہاتھوں پروان چڑھے گی۔ اور پھر جب کہ جمہوریت خود جعلی ڈگریوں کی مرہون منت ہو۔

رہے سہے ادب آداب کو آگے چل کر دھرنوں کی سیاست نے ختم کیا۔ زبان نے بھی ابتذال کا رنگ دھرنوں ہی کے طفیل پکڑا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایک مچھلی نے سارے تالاب کو گندا کیا۔ پاکستان میں سیاست کی دنیا میں ایسی مثالیں قائم ہوئیں کہ مہذب قوموں میں مجلسی زندگی کا جو قاعدہ قرینہ ہوتا ہے، نشست و برخاست کے، کھانے پینے کے، بات چیت کے جو ادب آداب ہوتے ہیں وہ ختم ہوتے چلے گئے۔ خربوزے کودیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ سیاست کے حلقوں کے رنگ کو دیکھ کر زندگی کے باقی شعبوں میں بھی مہذب زندگی کے رنگ بد رنگ ہوتے چلے گئے؎
روئیے کس کس کو اور کس کس کا ماتم کیجیے

تو اب ہم مہذب زندگی کے قرینوں سے ناآشنا وحشی قبائلی دور کے بے قرینہ زندگی کی فضا میں سانس لے رہے ہیں ؎
کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں