اُف یہ معصومیت اور یہ ادا

’’آپ جانتے ہیں وقت کے ساتھ آپ ملک کے صدر تو بن جاتے ہیں لیکن فیصلے کوئی اور کر رہا ہوتا ہے۔


انیس منصوری September 01, 2015
[email protected]

''آپ جانتے ہیں وقت کے ساتھ آپ ملک کے صدر تو بن جاتے ہیں لیکن فیصلے کوئی اور کر رہا ہوتا ہے۔ یہ لوگ پس پردہ موجود ہوتے ہیں۔ آپ اس صورتحال سے آخرکار اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ صدر، وزیر اعظم یا کچھ بھی نہیں۔ اس سے جان چھڑانا ہی زیادہ بہتر ہے۔'' یہ پاکستان کا کوئی جمہوری وزیر اعظم یا صدر نہیں کہہ رہا بلکہ یہ بات اپنے دور حکومت میں سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے 1998میں کہی تھی۔

کہنے کا مقصد وہ نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں اور میں ہرگز یہ گستاخی کرنے کی ہمت نہیں رکھتا کہ یہ کہہ سکوں کہ میں یہ پاکستان کے حالات کے متعلق کہوں۔ یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ آج کل ہر بیٹھک میں یہ ہی بات ہو رہی ہے کہ اس وقت پاکستان کے فیصلے ایک پوشیدہ حکومت کر رہی ہے اور بظاہر چلتی پھرتی حکومت صرف دن میں یہ خبر چلا دیتی ہے کہ آج وزیر اعظم نے مصروف دن گزارا، پارٹی کے رہنماؤں سے ملاقات کی، چند اچھے سفیروں کے ساتھ گپ لگائی اور علاقائی صورتحال پر گفتگو کی۔

ایک عام تاثر یہ ہے کہ اس وقت دہشت گردی یا پھر کرپشن کے حوالے سے کارروائی میں وفاقی حکومت کا ہاتھ اتنا ہی ہے جتنا سفید دودھ کے اندر اکلوتی مکھی کا ہو۔ مگر ایسا کیا ہوا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ اور ہر طرح کی سیاست کو نچوڑ کر پی جانے والے آصف علی زرداری نے اپنی باتونی توپوں کا رخ محترم جناب قبلہ وزیر اعظم نواز شریف کی سمت کر لیا ہے۔

کیا واقعی میں نواز شریف صاحب نے 90 کی دہائی کی سیاست شروع کر دی ہے؟ یا پھر ان کے ساتھ ماجرا کلنٹن والا ہوا ہے۔ اقتدار کی بھی بڑی مجبوریاں ہوتی ہیں، کبھی کسی اور کی دیگ پر فاتحہ پڑھ کر سارا ثواب خود حاصل کیا جاتا ہے اور کبھی کبھار آپ کا سارا کھانا بشمول دیگ کے کوئی اور اٹھا کر لے جاتا ہے اور آپ کو خاموشی سے بس یہ کہنا ہوتا ہے کہ ہمارے تعلقات بہت اچھے ہیں۔

جنرل ضیاء نے اتنے بڑے ملک میں کروڑوں لوگوں کو اوپر نیچے کھنگال کر محمد خان جونیجو کا انتخاب کیا تھا۔ شاید اس لیے کہ جونیجو صاحب ایوب خان کے دور میں بھی وزیر رہے تھے اور سمجھتے تھے کہ ایسے ماحول میں کیسے کام کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسا کیا ہوا تھا کہ جیسے ہی ضیاء الحق نے بغیر پروں (غیر جماعتی) کی اسمبلی بنائی اور اپنے پہلے خطاب (23 مارچ 1985) میں جس طرح فرماں بردار رہنے کا حکم جاری کیا تھا، اس کے چند ماہ بعد ہی اس فرمانبردار نے ہر بات میں نہ کرنے کی ٹھان لی تھی۔ ضیاء الحق نے کھلے اور بند لفظوں میں کہا تھا کہ اقتدار منتقل نہیں ہوا بلکہ حصہ داری ہو گی۔

اور جونیجو صاحب نے بھی کہہ دیا تھا کہ حصہ داری ممکن نہیں ہے۔ اس سے پہلے کہ میں آگے چل کر اور الجھا دوں اتنا کہہ دوں کہ دونوں باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے چلیں۔ اول یہ کلنٹن صاحب فرماتے ہیں کہ اقتدار میں رہنے کے لیے اکثر آپ فیصلے نہیں کر رہے ہوتے بلکہ آپ کو دوسروں کے فیصلوں کو عوام کے سامنے اپنا کہنا ہوتا ہے۔

یہ آپ کی مجبوری ہوتی ہے۔ دوم یہ کہ جونیجو صاحب کی کہانی اتنی سی ہے کہ ہمارے یہاں پر کبھی بھی کسی کو اقتدار نہیں ملتا۔ جو یہ سمجھتا ہے کہ اُس کے پاس سارا اختیار اور اقتدار آ چکا ہے وہ غلطی پر ہوتا ہے۔ یہاں سب کو حصہ دیا جاتا ہے۔ ایسے میں جس نے پورا بکرا ہضم کرنے کی کوشش اُن کی مثالیں آپ کے سامنے موجود ہیں۔ چاہے وہ بھٹو ہو، جو نیجو ہو یا پھر خود نوازشریف صاحب ہوں۔

ایک طویل دور کے بعد آصف علی زرداری یہ بات سمجھ چکے تھے کہ یہاں سب کچھ اپنا نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے انھوں نے اپنے پانچ سال مکمل کر لیے۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو اس بات کی سمجھ نہیں ہے۔

وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کہ چڑیا کا گھونسلا کتنا ہے اور شاہیں کا جہاں کون سا ہے۔ ایسے میں زرداری صاحب نے توپوں کا رخ مسلم لیگ (ن) کی طرف ضرور کیا ہے لیکن لگتا یہ ہے کہ انھوں نے پیغام دوسرے حصہ داروں کو دینے کی کوشش کی ہے۔ مفاہمت کا بادشاہ اپنا صبر کھو چکا ہے یا پھر اُس نے ایک بار پھر ایک دوست کی مشکل آسان کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہمارے یہاں کہا جاتا ہے کہ بیٹی کو اتنا زور سے ڈانٹو کہ بہو کی عقل ٹھکانے آ جائے۔ باقی آپ خود سمجھ دار ہیں۔

آصف علی زرداری بار بار کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف نے ایک بار پھر 90 کی دہائی کی سیاست شروع کر دی ہے۔

بے نظیر بھٹو کا دوسرا دور حکومت ا پنے عروج پر تھا۔ ایک دن اگر نواز شریف صاحب پریس کانفرنس کرتے تو اگلے گھنٹے میں اس سے زیادہ بھرپور جواب دوسری طرف سے آتا۔ دونوں طرف سے باتیں اور بیان نہیں ہوتے بلکہ عملی طور پر بھی ایک دوسرے کے گریبانوں پر بھی ہاتھ رکھا جاتا۔ یہ بات 13 نومبر 1994 کی ہے، نواز شریف کے والد اور اتفاق گروپ کے چئیرمین میاں محمد شریف کو آدھے گھنٹے کے کمانڈو آپریشن کے بعد لاہور آفس سے گرفتار کر لیا گیا اور ایک خصوصی طیارے کے ذریعے اسلام آباد پہنچا دیا گیا۔ میں یہ ہرگز نہیں کہنا چاہتا کہ پولیس کے ساتھ نا چلنے کی ضد پر انھیں کس طرح اٹھا کر لے جایا گیا۔

آج کل کے ٹوئیٹر ہیرو کی طرح اُس وقت نصیر اللہ بابر ہیرو ہوا کرتے تھے۔ انھوں نے ارشاد فرمایا کہ میاں شریف صاحب کی گرفتاری مکمل ثبوت ملنے کے بعد کی گئی ہے۔ ان کے خلاف انکم ٹیکس آفیسر نے شکایت کی ہے۔ اُس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ منظور وٹو صاحب بھی ہمارے آج کے سندھ کے وزیر اعلیٰ کی طرح کپتان تھے۔

فوراً کہہ دیا کہ میاں محمد شریف کی گرفتاری سے صوبائی حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ انھیں FIA نے گرفتار کیا ہے۔ اس FIA کا مطلب آج تک وہ ہی ہے جو آج سے پورے بیس سال پہلے تھے۔ اس کو بہتر طور پر شہباز شریف بھی جان سکتے ہیں کہ جب ڈیڑھ سال کی جلا وطنی کے بعد وہ نومبر 1995میں پاکستان آئے تھے تو انھیں ائیرپورٹ سے کس طرح FIA نے گرفتار کیا تھا۔

اب آئیے دوسری طرف جیسے ہی بینظیر بھٹو کا پہلا دور حکومت ختم ہوا اور ابھی ان کی شادی کو تین سال ہی گزرے تھے کہ 10 اکتوبر 1990 کو ایک آپریشن کے ذریعہ آصف علی زرداری کو گرفتار کر لیا گیا۔ اُن پر الزام تھا کہ انھوں نے بھتہ لیا اور ایک برطانوی شہری کو ڈرایا وغیرہ وغیرہ۔ اور پھر الیکشن ہوئے، پیپلز پارٹی کو شکست ہوئی اور مشہور و معروف IGI جیت گئی۔ نواز شریف حکومت میں آئے لیکن آپ کو حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ جیل میں رہتے ہوئے آصف علی زرداری الیکشن جیت گئے۔

اس لیے اسمبلی کے پہلے اجلاس میں ہی PPP نے مطالبہ کیا کہ آصف علی زرداری کیونکہ منتخب نمایندے ہیں، اس لیے انھیں اسمبلی میں لایا جائے۔ شدید دباؤ پر اُن کی ضمانت منظور ہو گئی۔ لیکن یہ تو 90کی دہائی تھی جس کا ذکر آصف علی زرداری کر رہے ہیں۔ ہوا یہ کہ اس سے پہلے کہ ضمانت ہوتی، راتوں رات نہیں بلکہ پلک جھپکتے میں ایک آرڈیننس آ گیا اور ملزم کو دہشت گردی کی عدالت کی طرف منتقل کر دیا۔ ابھی وہاں معاملہ چل ہی رہا تھا کہ اُن پر جعل سازی اور اپنے مخالف کو قتل کرانے کا مقدمہ درج ہو گیا۔ نواز شریف کے اس پورے دور حکومت میں آصف علی زرداری جیل میں رہے۔

دونوں کا ماضی ایک دوسرے کے متعلق بہت تلخ تھا، لیکن میثاق جمہوریت کے بعد دونوں کی عقل کچھ ٹھکانے آئی تھی۔ اب سوچنا یہ ہے کہ کیا یہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھولنے کے لیے تیار ہیں۔ یا پھر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کوئی اتنا عقل مند ہو چکا ہے کہ ان دونوں کو لڑانا چاہتا ہے۔ اور وہ اتنا زبردست ذہن ہے جس کے کہنے پر آصف علی زرداری جوش میں آ گئے ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔ آپ سمجھ چکے ہوں گے۔

اب معصومیت دیکھیں کہ حکومت کے ترجمان اور وزیر اطلاعات کہتے ہیں کہ آصف علی زرداری کو غلط فہمی ہو گئی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ حکومت کی مجبوری کیا ہے اور آصف علی زرداری کا رخ کس طرف ہے۔ لگ یوں رہا ہے کہ یہ دونوں ''بھولے'' ہیں۔ اب آپ کلنٹن کو ہی دیکھ لے نہ جس کو یہ کہنا پڑا کہ ہمیں تو صرف فیصلوں کو ماننا ہوتا ہے اور زبان سے اُف تک نہیں کر سکتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں